بحریہ ٹاؤن پر حملہ اور بے بس وزیراعلی کی باتیں

کراچی (8 جون): وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ وہ صوبہ جوکہ پاکستان کے محصولات میں 70 فیصد حصہ ڈالتا ہے اسے دیگر صوبوں کی دی جانے اسکیموں کے مقابلے میں کم اسکیمز دی جاتی ہیں۔ یہ بات انہوں نے یہاں وزیراعلیٰ ہاؤس میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔ ان کے ہمراہ سینئر مشیر نثار کھڑو اور وزیر اطلاعات سید ناصر حسین شاہ بھی تھے۔ انہوں نے کہا کہ قومی اقتصادی کونسل ایک 13 رکنی آئینی ادارہ ہے جس میں صوبوں سے آٹھ اور وفاق سے چیئرمین وزیراعظم سمیت پانچ اراکین شامل ہوتے ہیں ۔ وزیراعلیٰ سندھ نے این ای سی کے فرائض کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ اس میں ملک کی مجموعی معاشی حالت کا جائزہ لینا ہوتا ہے اور وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو مالی، تجارتی ، معاشرتی اور معاشی پالیسیوں کے سلسلے میں منصوبے مرتب کرنے کے مشورے دینا ، متوازن ترقی اور علاقائی مساوات کو یقینی بنانا شامل ہیں۔ مراد علی شاہ نے کہا کہ جب سے پی ٹی آئی کی حکومت (مرکز میں) برسراقتدار آئی ہے تب سے وہ سندھ کے ساتھ بالکل تعصب اور امتیازی سلوک برتی جارہی ہے اور مزید کہا کہ 18-2017میں پی ایس ڈی پی میں 27 اسکیمیں تھیں جس کیلئے 27.38 ارب روپے مختص کیے گئے تھے۔ 2018-19 میں اسکیموں کی تعداد کو کم کرکے 22 کردیا گیا اور 14.26 ارب روپے مختص کئے گئے۔20-2019 میں ایک بار پھر سکیموں کو کم کر کے 13 کر دیا گیا جبکہ ان کیلئے ساڑھے 8 ارب روپے رکھے گئے۔ 21-2020میں اسکیموں کی تعداد 8.3 ارب روپے کے ساتھ چھ (اسکیمں) رہ گئیں۔ 2021-22 میں صرف 6 اسکیمیں تجویز کی گئیں جن کیلئے 5 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ اگست 2018 میں جب سے تحریک انصاف (وفاق) کی حکومت برسر اقتدار آئی ہے تب سے سندھ کے عوام کے ساتھ سخت ناانصافی کی جارہی ہے۔
این ایچ اے:
نیشنل ہائی وے اتھارٹی (این ایچ اے) اسکیموں کے بارے میں بات کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ سندھ نے سندھ کے لوگوں کے ساتھ ناانصافی کی نشاندہی کی۔ انہوں نے کہا کہ اس نے 824.55 ارب روپے کی لاگت سے پنجاب کیلئے 22 اسکیمیں شروع کیں جن کیلئے 22-2021 کیلئے 32.151 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز دی گئی ہے جبکہ انہوں نے کہا کہ این ایچ اے کے پاس سندھ کیلئے صرف 46.79 ارب روپے کی دو اسکیمیں ہیں جن کے مقابلے میں22-2021 کیلئے 7.1 ارب روپے تجویز کیے گئے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ کے پی کے اور فاٹا کو 535.26 ارب روپئے دیئے گئے ہیں اور 22-2021 کیلئے 41.25 ارب روپے کے مجوزہ فنڈز مختص کئے گئے ہیں۔ بلوچستان کو 355.47 کارب روپے کی 15 اسکیمیں دی گئی ہیں اور آئندہ مالی سال کیلئے 24.1 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز ہے۔ مراد علی شاہ نے کہا کہ دوسرے صوبوں کے مقابلے میں سندھ کیلئے دی جانے والی اسکیموں کی تعداد میں فرق کافی تکلیف دہ ہے۔ انہوں نے بتایا کہ سیہون -جامشورو روڈ پر 14 ارب روپے جن میں سے 50 فیصد سندھ حکومت نے اپریل 2017 میں واپس کیا لیکن ابھی تک سڑک کو مکمل نہیں کیا جاسکا جس کے نتیجے میں روزانہ مہلک حادثات رونما ہوتے رہتے ہیں جس کیلئے انہوں نے وفاقی حکومت کو ذمہ دار ٹھہرایا۔ وزیراعلیٰ سندھ نے بتایا کہ دوسری اسکیم کراچی- لاہور موٹر وے کے لئے اراضی کے حصول کے لئے تھی۔ انہوں نے کہا کہ ایک بار پھر حیرت کی بات ہے کہ اس منصوبے کا لاہور تا سکھر سیکشن پی ایس ڈی پی کے تحت فنڈز کی یقین دہانی کے ساتھ شروع کیا گیا ہے اور سکھر تا حیدرآباد سیکشن پر ابھی تک کام شروع نہیں کیا گیا ہے اور سب سے پہلے اس پر پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ موڈ کے تحت کام کو تجویز کیا گیا ہے۔
فنانس ڈویژن:
انہوں نے بتایا کہ فنانس ڈویژن متعلقہ صوبائی حکومتوں کے ذریعے اپنی اسکیموں پر عملدرآمد کرتی ہے ۔ اور انہوں نے مزید کہا کہ اگلے مالی سالوں میں 22-2021 کیلئے فنانس ڈویژن نے پنجاب کو 86.6 ارب روپے کی 14 سکیمیں دی ہیں جس کیلئے 22-2021میں 15.06 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز دی گئی ہے ۔ حکومت سندھ کو 22-2021کیلئے4.8 ارب روپے کی صرف دو اسکیمز دی گئی ہیں جس کیلئے 22-2021 کیلئے 1.51 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز ہے۔ کے پی کے اور فاٹا کو 86.7 ارب روپے کی 10 اسکیمیں دی گئیں اور سال 22-2021کیلئے 66.78 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ بلوچستان کو 144.49 ارب روپے کی 28 اسکیمیں دی گئیں جن میں 22-2021کیلئے 18 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان میں سے زیادہ تر اسکیمیں صوبائی سڑکوں کی ہیں جو صوبائی حکومت نے وفاقی حکومت کے فنڈ سے حاصل کی ہیں ۔اور انہوں نے مزید کہا کہ (فنانس ڈویژن کے ذریعہ) پنجاب کو دیئے گئے 11 نئے منصوبوں میں سے 10 صوبائی سڑکوں کی ہیں جن پر 71.699 ارب روپے لاگت آئے گی اور آئندہ مالی سال کیلئے مختص رقم 12.461 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز ہے۔ فنانس ڈویژن میں پنجاب ، خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے صوبوں کو نئی اسکیمیں دی گئیں لیکن سندھ کو نظرانداز کیا گیا۔انہوں نے انکشاف کیا کہ سندھ میں جاری دو اسکیموں کو مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے دور میں منظور کیا گیا تھا اور پی ٹی آئی کی وفاقی حکومت کے دور میں فنانس ڈویژن میں کوئی نئی اسکیم سندھ کو نہیں دی گئی ہے۔
ہاؤسنگ ڈویژن:
ہاؤسنگ اینڈ ورکس ڈویژن نے21-2020کے دوران پنجاب میں 29.29 ارب روپے کی 14 سکیمیں شروع کیں جن میں سے پنجاب میں3.7 ارب روپے مختص کئے گئے اور سندھ میں 11.46 ارب روپے کی 18 اسکیموں کیلئے 8 ارب روپے مختص کئے گئے۔ مراد علی شاہ نے کہا کہ ہاؤسنگ اینڈ ورکس ڈویژن وفاقی دارالحکومت اور صوبوں میں پاک پی ڈبلیو ڈی کے ذریعے وفاقی سرکاری عمارتوں کی تعمیر کا ذمہ دار ہے۔ اور مزید کہا کہ ہاؤسنگ ڈویژن کے پورٹ فولیو سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ پنجاب اور بلوچستان میں دریاؤں اور سڑکوں پر پل تعمیر کررہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سندھ میں ان کیلئے تفویض کردہ اسکیمیں وہ تھیں جو پہلے پی ایس ڈی پی 21-2020میں تھیں ۔ انہوں نے مزید کہا کہ سابقہ این ای سی اجلاسوں میں انہوں نے وفاقی پی ایس ڈی پی کے تحت سندھ میں شروع کی جانے والی یونین کونسل پر مبنی ان اسکیموں پر اعتراض اٹھایا تھا۔ انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت نے ان اسکیموں کو ایک سال کے اندر مکمل کرنے کا عزم کا اعادہ کیا ہے اور 21-2020 میں 9.9 ارب روپے مختص کئے ۔ حقیقت یہ ہے کہ صرف 500 ملین روپے جاری کئے گئے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس طرح کی اسکیمیں شروع کرنے سے پہلے وفاقی حکومت کو صوبائی حکومت سے مشاورت کرنا تھی لیکن نہ ہی ان سے مشورہ کیا گیا نہ ہی اسکیموں کو صوبائی حکومت کے ذریعے عمل میں لایا جارہا ہے۔
منصوبہ بندی ڈویژن:
وزیر اعلیٰ سندھ نے کہا کہ مجوزہ PSDP 2021-22 میں پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ ڈویژن میں سندھ کیلئے 10.29 ارب روپے کے مختص فنڈ کے ساتھ 44.5 ارب روپے کی آٹھ اسکیمیں تجویز کیں جبکہ دیگرصوبوں کو کوئی اسکیم نہیں دی گئی ۔ انہوں نے کہا کہ پلاننگ ڈویزن کے پاس منصوبے شروع کرنے کیلئے کوئی سسٹم یا اسٹاف نہیں ہے ۔ انہوں نے کہا کہ سندھ میں انکو انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ کمپنی لمیٹڈ کے ذریعے منصوبوں پر عمل کرنے کیلئے ایک بڑی رقم مختص کی گئی ہے ۔ اور انہوں نے مزید کہا کہ پچھلے سال ان منصوبوں کو کابینہ ڈویژن کے تحت دکھایا گیا ۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ انھوں نے گذشتہ سال سندھ میں ’ایسٹ انڈیا کمپنی‘ کی مداخلت پر اعتراض کیا تھا۔ انہوں نے یاد دلایا کہ گرین لائن منصوبے کی منصوبہ بندی نے پچھلے سال ہونے والی شدید بارشوں کے دوران تباہی مچا دی تھی۔
آبی وسائل ڈویژن:
وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ واٹر ریسورس ڈویژن نے کے IV کیلئے 26.6 ارب روپے مختص کیے ہیں لیکن انہوں نے اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ وفاقی حکومت مختص رقم خرچ نہیں کرے گی اس کے نتیجے میں اس شہر کے لوگوں کو مزید پریشانی کا سامنا کرنا پڑے گا۔
بحریہ ٹاؤن:
عدالت میں وفاقی حکومت کے خلاف امتیازی سلوک کا مقدمہ درج کرنے کے سوال کے جواب میں مراد علی شاہ نے کہا کہ انہوں نے اپنی قانونی ٹیم کے ساتھ مشورہ نہیں کیا ہے لیکن ہم عدالت میں نہیں جائیں گے۔ اور کہا کہ صوبے کے عوام آئندہ انتخابات میں تحریک انصاف کو مسترد کردیں گے۔ ایک سوال کے جواب میں وزیر اعلیٰ سندھ نے کہا کہ سپریم کورٹ میں بحریہ ٹاؤن کو ریگیولرائیزڈ کیا ہے جس طرح بنی گالا کو کیا گیا۔ انہوں نے کہا مجھے حیرت ہے کہ وفاقی حکومت نے بحریہ ٹاؤن سے وصول ہونے والی رقم پر دعویٰ دائر کیا ہے لیکن انہوں نے کہا کہ ہم کبھی بھی اسکی اجازت نہیں دیں گے۔ بحریہ ٹاؤن میں شرپسندوں کی وجہ سے ہونے والی تباہی سے متعلق ایک سوال کے جواب میں مراد علی شاہ نے کہا کہ کچھ جماعتوں نے بحریہ ٹاؤن کے خلاف اس کی ’’توسیع‘‘ یا نجی زمینوں پر قبضے کے حوالے سے پرامن احتجاج کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ صوبائی وزیر سید ناصر شاہ نے احتجاج کرنے والی جماعتوں کے ساتھ بات چیت کی ہے اور انہیں یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ احتجاج پرامن ہوگا اور موٹر وے پر ٹریفک کی روانی میں کوئی پریشانی پیدا نہیں کریں گے۔ وعدہ کے مطابق یہ احتجاج پُر امن رہا لیکن کچھ شرپسند افراد بحریہ ٹاؤن میں داخل ہونے میں کامیاب ہوگئے اور انھوں نے توڑ پھوڑ شروع کردی اور اسکیم کے داخلی دروازے اور دیگر حصوں کو آگ لگا دی۔ انہوں نے کہا کہ ہم انکوائری کر رہے ہیں کہ کس طرح شرپسندوں نے احاطے میں داخل ہوئے اور توڑ پھوڑ شروع کردی۔ اور مزید کہا کہ انکوائری کی جائے گی اور ان سہولت کاروں کا بھی تعین کیا جائے گا جن کی بدولت یہ بحریہ ٹاؤن کے اندر داخل ہوئے اور کہاکہ کسی کو بھی قانون کو ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ پولیس نے واقعے کی مکمل فوٹیج حاصل کرلی ہے اور فوٹیج کے ذریعے یہ طے کیا جائے گا کہ اسٹرکچر کو آگ لگانے کیلئے کون سا کیمیکل استعمال کیا گیا اور کس نے انہیں یہ کیمیکل دیا ۔ وزیراعلیٰ سندھ نے میڈیا کو بتایا کہ چوری کرنے والوں کے خلاف 11 ایف آئی آرز درج کی گئی ہیں۔ انہوں نے یاد دلایا کہ ایک ماہ قبل کچھ لوگوں نے بحریہ ٹاؤن کے ساتھ واقع نجی اراضی پر تجاوزات قائم کرنا شروع کردی تھیں اور ہم نے ان کے خلاف بھی مقدمات درج کیے ہیں۔
عبدالرشید چنا
میڈیا کنسلٹنٹ، وزیراعلیٰ سندھ