سکھر ریجن میں ریلوے حادثات کی بڑی وجہ سامنے آگئی !۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ویسے تو حادثات کہیں پر بھی اور کسی وقت بھی رونما ہو سکتے ہیں پھر حادثات کی مختلف وجوہات ہوتی ہیں کہیں پر انسانی غلطی اور کہیں پر فنی خرابی سامنے آتی ہے کہیں موسم کی خرابی اور کہیں مشینری کا فالٹ وجہ بن جاتا ہے ۔آج سڑکوں پر بھی ہوتے ہیں فضا میں جہازوں کے بھی ہوتے ہیں اور ریلوے ٹریک پر ٹرینوں کے بھی ۔۔۔۔۔۔۔۔پاکستان بھی ان ملکوں میں شامل ہے جہاں تینوں قسم کے بڑے حادثات ہو چکے ہیں ریلوے میں پاکستان کی تاریخ میں کافی حادثہ ہو چکے ہیں جن میں قیمتی جانی اور مالی نقصان ہوا ہر حادثے کے بعد انکوائری کرنے کا اعلان ہوتا ہے اور ذمہ داروں کے خلاف قانونی کاروائی عمل میں لانے اور غفلت لاپرواہی برتنے والوں کے ساتھ رعایت نہ کرنے کا اعلان کیا جاتا ہے لیکن عام تاثر یہ ہے کہ حادثات کے بعد کچھ دن تک سرگرمی دکھائی جاتی ہے اس کے بعد خاموشی چھا جاتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ریلوے کے سکھر ریجن میں بڑے بڑے حادثات رونما ہو چکے ہیں آخر اس کی وجہ کیا ہے ؟۔۔۔۔۔۔۔۔اس حوالے سے ریلوے ماہرین اور تحقیقاتی ادارے کافی معلومات جمع کر چکے ہیں مقامی لوگ بھی صورتحال سے آگاہ ہیں لیکن کچھ راز ایسے ہیں جن پر پردہ ڈال دیا جاتا ہے ۔ریلوے ذرائع کا بتانا ہے کہ حادثات کی ایک بہت بڑی وجہ کرپشن ہے ریلوے ٹریک کی بحالی کے لیے فراہم کیے جانے والے فنڈز میں بڑے پیمانے پرخورد برد کی جاتی ہے یہ سلسلہ آج سے نہیں برسوں سے جاری ہے بڑے بڑے طاقتور افسران اور سیاسی شخصیات اس سلسلے میں ملوث پائی جا چکی ہیں لیکن کوئی ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکا مختلف ریلوے انکوائری اور افسران کے تبادلے بھی اس صورتحال کو روک نہیں سکے ریلوے میں اس حوالے سے ہونے والی کرپشن میں بہت بڑی رقوم کا دخل ہے پیسہ بڑے بڑے لوگوں تک جاتا ہے اگر خرچ نہیں ہوتا تو ریلوے ٹریک پر نہیں ہوتا ۔۔۔۔۔۔۔انگریز کے زمانے سے ریلوے ٹریک کی بحالی کا ایک سسٹم اور اس کی نگرانی اور دیکھ بھال اور اخراجات کا واقعہ دہ مکینزم بنایا گیا تھا انگریزوں کے جانے کے بعد ریلوے میں آہستہ آہستہ کالی بھیڑوں کا راج ہوا اور وہ پیسے جو ریلوے ٹریک کی بحالی اور پختگی پر خرچ ہونے چاہیے تھے وہ لوگوں کی جیبوں میں جانے لگے نتیجہ یہ نکلا کہ ٹریک کمزور ہوتا گیا وہاں بجری روڑی اور لکڑی کے جتنے کام ہونے تھے ان میں بدعنوانی کی جاتی رہی ۔کتنے ہی کلومیٹر کے علاقے میں ریلوے ٹریک کی بہتری بحالی اور پختگی کے نام پر ڈالی جانے والی روڑی بجری اور لکڑی کے ٹکڑے اور دیگر متعلقہ سامان کاغذوں میں تو دکھایا گیا کہ خریدا گیا ہے اور خرچہ ہوا ہے لیکن عملی طور پر صورتحال اس کے برعکس تھی ایسا خود ریلوے کے اندرونی ذرائع کا بتانا ہے اس حوالے سے متعدد مرتبہ شکایات اعلی حکام تک بھیجی گئی ۔ ۔۔۔۔۔ریلوے ٹریک کی بحالی اور پختگی کے کام پر مامور افسران اور ٹھیکیداروں نے اپنے گھر اور بنگلے تو بنا لئے لیکن ریلوے ٹریک کمزور ہوتا رہا اور اس پر حادثات ہوتے رہے ۔ریلوے ذرائع کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے غیرجانبدارانہ تحقیقات ہونی چاہیے اور اس ریجن میں خاص طور پر پچھلے دس بیس برسوں میں جو افسران تعینات رہے ہیں ان سب کو انکوائری میں بلایا جائے پوچھا جائے اور ان کے دور میں خرچ ہونے والے فنڈز کا حساب لیا جائے اور حقائق سامنے لائے جائیں

—————————–

ٹرین حادثہ … یہ بچی ملی ہے وارثان کا علم نھیں جتنا ہو سکے شئیر کریں اس ٹائم صادق آباد ٹی ایچ کیو ہسپتال میں موجود ہے سوشل میڈیا سے بچھڑے مل جاتے ہیں لہذا مہربانی ثواب کی نیت سے پوسٹ وغیرہ اور گروپس میں شئیر کریں اللہ پاک اجر عطا فرمائے گا آمین