لاجواب تحریر


اصغر علی عاجز (اسپین)
——————————


میں جب اپنے گھر سے دفتر کیلئے نکلتا ہوں تو مین روڈ پر آنے کیلئے مجھے دو سڑکیں کراس کرنا پڑتی ہیں. آخری والی گلی کےبائیں جانب ایک بڑا خوبصورت سا گھر ہے جس کے باہر ایک قریب المرگ شخص چارپائی پر پڑا ہوتا ہے. یہ نہ کسی سےبات کرتا ہے, نہ چلتا پھرتا ہے, بس چارپائی پر بیٹھا ‏کھانستا رہتا ہے اور جب کھانس کھانس کر تھک جاتا ہے,
تو پھر کھانسنے لگتا ہے. یہ اس گھر کا چوکیدار ہے.
لیکن میں جب بھی اسے دیکھتا ہوں مجھےحیرت ہوتی ہے کہ اگر اِس گھر میں کوئی چور ڈاکو آ گئے تو کیا یہ چوکیدار انہیں روک پائےگا؟
اس روز بھی میں نےگاڑی آخری گلی میں موڑی تو وہی چوکیدار ‏کھانستا ہوا نظر آیا, یہ میری روز کی روٹین ھے,چوکیدار کی چارپائی کے بعد مین روڈ شروع ہو جاتی ہے, لہذا میں نےمین روڈ پر گاڑی چڑھائی اور آئینے میں اپنا جائزہ لیا.
پندرہ بیس منٹ کی ڈرائیور کے بعد میری منزل آ گئی. میں شہر کے ایک بڑے اور متوسط علاقے میں معروف “موٹیویشنل سپیکر” کا خطاب سننےآیا تھا. ‏احباب زور دے کر مجھے یہاں لائے تھے, سچی بات ہے کہ خود میری بھی خواہش تھی کہ میں بھی یہ لیکچر سنوں. تھوڑی ہی دیر میں موٹیویشنل سپیکر صاحب بلیک کلر کی ایک چمکتی ہوئی گاڑی میں تشریف لائے, اس گاڑی کے پچھلے بمپر پر الگ سے ایک تختی لگی ہوئی تھی, جس پر ’’MS ‘‘ لکھا ہوا تھا, شائد یہ موٹیویشنل ‏سپیکر کا مخفف تھا اور اپنی گفتگو سے حاضرین پر ایک سحر طاری کر دیا. انہوں نےکہا کہ ہم لوگ اپنی اپنی زندگیوں میں اسقدر مگن ہو گئے ہیں کہ ہمیں پتا ہی نہیں چلتا کہ ہم اپنے سامنے چلتے پھرتے لوگوں کو کس قدر اگنور کر رہے ہیں, اگر سکون اور خوشی چاہیے تو ہمیں چھوٹی چھوٹی غلطیوں کو بھلانا ہو گا, ‏سب کو معاف کرنا ہو گا.
موٹیویشنل سپیکر کی بات سن کر پورے ہال میں خاموشی چھا گئی, انہوں نے پوچھا ’’کیا آپ لوگوں میں سے کوئی ایسا ھے جس نے کبھی اپنے باپ کو جپھی ڈالی ہو؟‘‘ کچھ دیر سکوت رہا, پھر موٹیویشنل سپیکر نےآہستہ سےکہا “آج گھر جائیں اور جن کے باپ زندہ ہیں, انہیں گلے سے لگائیں. پیار کریں ‏اور اگر کوئی شکوہ بھی ہے, تو اسے بھلا دیں”.
پروگرام کے اختتام سے پہلے ہی مجھے ایک ضروری میٹنگ کی کال آگئی اٹھنا پڑ گیا. میٹنگ دو گھنٹےجاری رہی اور اس دوران کھانا بھی نہیں کھایا جا سکا, واپسی پر شدید بھوک لگی تھی, لہذا ایک جگہ رک کر کھانا کھایا. بھوک کیوجہ سے کافی زیادہ آرڈر دے دیا تھا
‏لیکن اب کافی سارا کھانا بچ گیا, میں نے وہ سارا پیک کروایا اور واپس گھر کی طرف روانہ ہو گیا. آخری گلی میں مڑتے ہی چوکیدار پھر میری نظروں کے سامنے تھا, میرے ذہن میں اچانک موٹیویشنل سپیکر کے الفاظ گونجنے لگے ’’کیا کوئی ایسا ھے, جس نے کبھی اپنے باپ کو جپھی ڈالی ہو؟‘‘ خیال آیا کہ یہ چوکیدار ‏بھی تو کسی کا باپ ہو گا, پتا نہیں اس کو کبھی اپنے بیٹے کی جپھی نصیب ہوئی یا نہیں؟ میں نےکسی خیال کے تحت گاڑی چوکیدار
کے پاس روکی, پیک کروائے گئے کھانے کا شاپر اٹھا کر اس کے پاس آ گیا. سلام دعا کے بعد میں نے شاپر اس کی طرف بڑھاتے ہوئے نہایت احترام سےکہا یہ بالکل تازہ کھانا ھے, آپ کھا لیجئے. ‏اس کی آنکھوں میں ایک چمک سی ابھری اور پھر اس نے انتہائی تیزی سے شاپر جھپٹ لیا. اس کا انداز بتا رہا تھا کہ شدید بھوک لگی ہے, پھر اس کے بعد میرا معمول بن گیا میں کبھی کبھار کوئی نہ کوئی بچا کھچا برگر یا شوارما وغیرہ چوکیدار کیلئے لےجاتا. چونکہ اسے بولنے میں دقت ہوتی تھی, لہذا ہماری ‏اکثر دعا سلام اشاروں کنایوں میں ہو جاتی. ایک دن میں نے دیکھا کہ اس کے سرہانے کوئی کتاب پڑی ہوئی ھے,
وہ ایک ایک لفظ غور سے پڑھ رہا ھے. مجھے بہت اچھا لگا کہ ان پڑھ ہوتے ہوئے بھی اسے کتاب پڑھنےکا شوق ہے. میں نے گاڑی روکی, سلام لیا اور قریب جا کر دیکھا تو ہوش اڑ گئے, وہ دیوان غالب پڑھ رہا تھا. ‏یہ میرے لئے شدید حیرت کی بات تھی, البتہ یہ نہیں پتا تھا کہ کیا وہ واقعی کتاب پڑھ رہا تھا یا کسی کی کتاب اس کے سرہانے رکھی تھی. میں نے تجسس کے ہاتھوں مجبور ہو کر اشاروں سے پوچھ ہی لیا کہ یہ کتاب یہاں کیسے آئی؟ اُس نےمریل سی آواز میں ٹوٹے پھوٹے جملوں میں بتایا یہ کتاب اُسے بہت پسند ھے ‏اور وہ جتنی بار پڑھتا ھے, اتنی بار نیا لطف ملتا ھے. میرےہاتھ پاؤ ں پھول گئے, غالب کو پڑھنے سمجھنے والا یہ چوکیدار میری نظروں میں مزید معتبر ہو گیا. میں نےپوچھا کہ کیا آپ تعلیم یافتہ ہیں؟ جواب اثبات میں آیا, میری حیرت دوچند ہو گئی. اس نے بتایا کہ وہ ایم اے پاس ہے اور ریٹائرڈ پروفیسر ھے. ‏یہ بات بہت الجھا دینے والی تھی کہ آخر ایک پروفیسر کے ساتھ ایسا کیا ہوا کہ اسے اس عمر میں چوکیداری کرنا پڑ رہی ہے. اس راز سے بھی اس نے خود ہی پردہ اٹھا دیا,
ایسی حقیقت بیان کی کہ کچھ دیر کیلئےمجھے اپنی سانسیں رکتی ہوئی محسوس ہوئیں. یہ بزرگ جسے میں چوکیدار سمجھتا رہا, اس گھر کا مالک تھا. ‏تین بیٹے تھے, تینوں کی شادیاں کر دیں, بیوی فوت ہو گئی تو یہ دیکھتے ہی دیکھتے بوڑھا ہو گیا. کھانسی اور بیماری کیوجہ سے بچوں کو تشویش ہوئی کہ کہیں باپ کی بیماری ان کےبچوں کو نہ لگ جائے, لہذا سب گھر والوں کے باہم مشورے سے طے پایا کہ ابا جی کی چارپائی گھر سے باہر لگوا دی جائے, تاکہ وہ ‏آرام سکون سے جی بھر کے کھانس سکیں. یوں اب گھر والے بھی چین کی نیند سوتے تھے اور ابا جی کو بھی اپنے بیٹوں اور اولاد کی جلی کٹی باتیں نہیں سننا پڑتی تھیں. انہوں نے بتایا کہ وہ اپنی اولاد سے بالکل بھی ناراض نہیں, کیونکہ انہوں نے کہیں سنا تھا کہ اگر سکون اور خوشی چاہیے, تو ہمیں چھوٹی ‏چھوٹی باتوں کو بھلانا ہو گا, سب کو معاف کرنا ہو گا. یہ جملہ سن کر میں چونک اٹھا, یقیناً انہوں نے بھی موٹیویشنل سپیکر کا لیکچر پڑھا یا سنا تھا, کیونکہ یہ بات میں نے بھی وہیں سنی تھی. انہوں نے بتایا کہ ماشاءاللہ ان کے تینوں بیٹے بزنس مین ہیں اور بہت اچھا کماتے ہیں,
تینوں کےپاس اچھی گاڑیاں ہیں. ‏میں نےاس روز بہانے بہانے سے انہیں بہت کریدا کہ شائد ان کے دل میں اپنے بیٹوں کیلئے کوئی تھوڑی سی بھی نفرت ہو, لیکن وہ ہر حال میں اولاد سے راضی نظر آئے.
پچھلے دنوں میں ان کے گھر کے قریب سے گذرا تو ٹھٹھک کر رک گیا. ان کی چارپائی کے پاس ایک گاڑی کھڑی تھی, میں نے تھوڑا آگے جا کر اپنی گاڑی روکی
‏اور پروفیسر صاحب کے پاس آ کر بیٹھ گیا, وہ فخر سے مجھے بتانے لگے کہ یہ گاڑی ان کے بیٹے کی ہے. اسی دوران گاڑی سٹارٹ ہونے کی آواز آئی, غالباً ہم دونوں کی گفتگو کے دوران ہی ان کا بیٹا گیٹ سے باہر نکلا اور گاڑی میں بیٹھ کر روانہ ہو گیا. پروفیسر صاحب نے بیٹے کی جاتی ہوئی گاڑی کی طرف دیکھا اور بےاختیار ہاتھ اٹھا کر بولے “خیرنال جا, تے خیر نال آ” میں نے چونک کر گردن موڑی, گاڑی کافی آگے جا چکی تھی, لیکن اس کے پچھلے بمپر پر ’MS‘ کے الفاظ صاف نظر آرہے تھے۔۔۔!!