سندھ‘وفاق اور پنجاب

اس بات کے دو پہلو ہیں‘ سندھ کے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ نے مرکز سے تقاضا کیا ہے کہ وہ آئندہ بجٹ میں وفاق کے ترقیاتی پروگرام میں جو سندھ کا حصہ رکھ رہے ہیں‘ وہ پنجاب کی نسبت بہت کم ہے۔ اس میں اضافہ کیا جائے اس مطالبے کی اچھی بات تو یہ ہے کہ وفاق کی اکائیاں اگر اپنے حقوق کے لئے آواز اٹھاتی ہیں تو یہ مثبت بات ہو گی اور منفی بات یہ ہے کہ یہ بیان پیپلز پارٹی کے اسی رویے کا عکاس ہے جو وہ سندھ کارڈ کے طور پر استعمال کر رہی ہے۔ یہ جو منفی بات ہے اس کا نتیجہ یہ ہے کہ پیپلز پارٹی سندھ کی پارٹی بن کر رہ گئی ہے۔ پیپلز پارٹی کو امید تھی کہ جب قیادت کا تاج آصف زرداری کے بجائے بلاول کے سر پر سجایا جائے گا تو پارٹی ایک انگڑائی لے کر جاگ اٹھے گی اور پنجاب میں بھی دوبارہ جڑ پکڑ لے گی۔ ہو اس کے الٹ رہا ہے۔ یار لوگوں نے بلاول کو بھی اسی لائن پر لگا رکھا ہے۔ ابھی کل ہی اس نوجوان نے رائے ونڈ کے وزیر اعظم اور سندھ کے خورشید شاہ کا تقابل کر کے بلا شبہ تنگ نظر صوبہ پرستی کا مظاہرہ کیا ہے۔ وہ ایسے بیان دیتے رہتے ہیں۔ایسے میں کیا توقع کی جا سکتی ہے کہ ان کی پارٹی پنجاب میں فروغ پا سکتی ہے۔ ایک حالیہ ضمنی انتخاب میں جب پارٹی کے صرف دو سو ووٹ تھے تو بلاول پنجاب کی قیادت پر چڑھ دوڑے۔ شاید کچھ اکھاڑ پچھاڑ بھی کی۔ شاید ان کا خیال ہے کہ پنجاب میں پارٹی کا جنازہ نکالنے میں ان کا اپنا کوئی ہاتھ نہیں۔ بس قیادت بدل دو‘ سب ٹھیک ہو جائے گا۔ ایسا ہونے کا نہیں۔ پیپلز پارٹی ہر معاملے کو صوبائی نکتہ نظر سے اچھالتی ہے۔ ہماری گیس لے گئے‘ ہمارا پانی لے گئے‘ ہماری آبادی کم کر دی۔ہر مسئلے کو جب آپ پنجاب کے تقابل میں دیکھیں گے تو آپ صرف ایک قوم پرست سندھی پارٹی بن کر رہ جائیں گے۔ جو لوگ پیپلز پارٹی کو ایک قومی جماعت کے طور پر دیکھنا چاہتے ہیں انہیں اس سے صدمہ ہوتا ہے۔ اب میں اس کا مثبت پہلو بھی بتاتا چلوں۔ وہ یہ کہ کسی ممکن ناانصافی کی صورت میں کوئی سندھ کی خاطر آواز اٹھانے والا تو ہے۔ بدقسمتی سے اس وقت پنجاب کی خاطر آواز اٹھانے والا کوئی نہیں ہے۔ حکمران جماعت نے اپنی سیاست کی خاطر جنوبی پنجاب کا نعرہ لگا رکھا ہے۔ وہ بھی صرف ایک سیاسی نعرہ ہے۔ شہباز شریف کے آخری سال اس خطے کا حصہ جو 39فیصد ہے‘ اسے 32فیصد کر دیا ہو گا۔ اب تھوڑا سا اضافہ کر دیا گیا ہو گا۔ مگر کتنا؟ان تین برسوں میں تحریک انصاف نے تو ترقیاتی بجٹ تو برائے نام رکھا تھا اور اسے بھی پورا استعمال نہیں کر پائے۔ عجیب پارٹی ہے ملک کی ترقی کی رفتار روک کر خوش ہے۔ خیر اچھا کیا کہ جنوبی پنجاب کی طرف توجہ دی‘مگر کس کی قیمت پر۔میں نے خود جائزہ نہیں لیا‘ مگر بہت ہی معتبر ذرائع سے مجھ تک جو اعداد و شمار پہنچے ہیں ان کے تحت سنٹرل پنجاب کو جو اصل پنجاب ہے‘اس کے حصے میں 23کروڑ آتے ہیں۔اس ظلم اور زیادتی پر کون بولے گا۔یہ اصل پنجاب ہے۔ اسی کے بل بوتے پر بھٹو نے ملک میں حکمرانی کی اور نواز شریف آج بھی ناقابل تسخیر بنے ہوئے ہیں۔اس وقت اس پنجاب کی حالت یہ ہے کہ اس کی آواز اٹھانے والا نہیں۔ لاہور جیسے شہر میں کچرے کے ڈھیر پڑے ہوئے ہیں۔عرض کرتا چلوں جب اس پنجاب کے خلاف ہونے والے ظلم کے خلاف آواز نہیں اٹھائی جائے گی تو اس کا نتیجہ ظاہر ہے کیا ہو گا۔ اس لحاظ سے میں کہتا ہوں کہ اچھا ہے سندھ کے بارے میں کوئی آواز اٹھائی ہے۔ پنجاب کی تاریخ گواہ ہے کہ اس نے ہمیشہ کشادہ دلی سے کام لیا ہے اور الٹے لعن طعن بھی سنی ہے۔ مثال کے طور پر ہمیشہ کہا جاتا ہے کہ مشرقی پاکستان نے پیرٹی کو قبول کر کے پاکستان پر بہت احسان کیا۔یعنی اس کی آبادی مغربی پاکستان سے زیادہ تھی مگر وہ اس بات پر آمادہ ہو گیا کہ اس کے منتخب ارکان کی تعداد مغربی پاکستان کے برابر ہو گی‘ تاہم اس میں پنجاب کو 10فیصد کم نمائندگی مل رہی تھی۔ پنجاب کی اس قربانی کو کوئی یاد نہیں رکھتا‘ الٹا یہ سنتا ہے کہ پنجاب نے مشرقی پاکستان کو لوٹ کھایا۔اسی طرح کی بہت سی مثالیں ہیں۔اس وقت پاکستان میں وسائل کی جو تقسیم ہے‘وہ پہلے آبادی کی بنیاد پر تھی۔ اس طرح پنجاب کو خاصا حصہ ملتا تھا۔ طے ہوا کہ دوسرے صوبوں کا حصہ بڑھانے کے لئے چند دوسرے عناصر کو بھی شامل کیا جائے۔ اس میں پنجاب کا سراسر نقصان تھا۔پنجاب نے یہ فارمولا مان لیا۔یہ شریفوں کا دور تھا۔پنجاب نے فراخ دلی کا مظاہرہ کیا۔ مگر اب سندھ کی موجودہ قیادت سے ایسی کسی فراخ دلی کی توقع نہیں کر سکتے۔ یہی وجہ ہے کہ صوبوں میں اتفاق رائے نہیں ہو پاتا۔ کیونکہ سندھ اپنے موقف سے ہٹنے کو تیار نہیں ہوتا۔ یہ ملک کے استحکام کے لئے نہایت غلط بات ہے۔ صاف کہوں گا کہ کالا باغ ڈیم صرف سندھ کے ڈٹ جانے کی وجہ بن نہیں پایا اور اس کا ناقابل تلافی نقصان پاکستان کو ہوا۔ کالا باغ پر جو سندھ کے اعتراض ہیں‘ وہی بھاشا پر ہیں مگر بھاشا اس لئے قابل قبول ہے کہ اس کی ’’ٹونٹی‘‘ پنجاب میں نہیں۔ وہ کہتے تھے ہمیں پنجاب پر اعتبار نہیں۔ یہ ایک ایسی بودی دلیل ہے جس کا کوئی جواب نہیں۔ بہرحال میں خوش ہوں کہ اپنے علاقے سے ناانصافی پر کوئی آواز تو اٹھاتا ہے۔ کاش پنجاب میں بھی یہ جذبہ پیدا ہو۔ جاگ پنجابی جاگ کا نعرہ اسی پس منظر میں ابھرا تھا۔ یہ ردعمل تھا‘ مگر اس وقت مرکزی پنجاب کے ساتھ جو رویہ اختیار کیا گیا ہے۔ کاش اس پنجاب کی کوئی قیادت ہوتی۔کاش چوہدری برادران ہی اس پر سوچیں اور حکومت پر دبائو ڈالیں۔ تاہم جب یہ بات صوبائی تنگ نظری بن جاتی ہے تو پارٹیاں سکڑ جاتی ہیں اور ملک بھی اپنی طاقت کھو بیٹھتا ہے۔ اس وقت مجھے صرف اتنا عرض کرنا ہے۔