معاشرہ کا مجبور اور بے بس طبقہ ۔۔خواجہ سرا۔۔

خواجہ سرا (transgender) ہمارے معاشرے کا وہ بدقسمت حصہ/ طبقہ ھے جن کو آج تک کسی نے قبول نہیں اور نہ ھی آج تک ان کو  بنیادی حقوق بھی مل سکے ۔۔میڈیا میں عام طور پر ان کو شی میل ،میک اپ کرتے  ، گھنگرو پہن کر ناچتے یا سیکس ورکر کے طور پر پیش کیا جاتا ھے۔۔ شادی بیاہ یا کسی اور خوشی کے مواقع پر ڈانس گانے پیش کرکے اپنے پیٹ کی بھوک مٹالیتے ھیں ھر کوئی ان کو مذاق اور نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ھیں ۔پاکستان میں  چند این جی اوز اور افراد خواجہ سراؤں کی فلاح وبہبود  کے لیے کام  کر رھے  ھیں۔۔
کچھ عرصہ پہلے سپریم کورٹ آف پاکستان نے بھی خواجہ سراؤں کے لیے چند فیصلے کیے جن کی روشنی میں پاکستان میں پہلی بار چھٹی مردم شماری میں خواجہ سراوں کو شامل کیا گیا ۔خصوصی افراد اور خواجہ سراوں کے لیے الگ سے کوڈ مقرر کیا گیا جس سے پاکستان میں خواجہ سراوں کی تعداد کے بارے معلوم ھو سکا ھے جس کے مطابق پاکستان میں تقربیا دس ھزار سے زائد  خواجہ سراوں موجود ھیں سب سے زیادہ خواجہ سرا پنجاب میں موجود ھیں جن کی تعداد چھ ھزار سے زیادہ ھے جو خواجہ سراوں کی کل تعداد کا 64.4 بنتی ھے ۔سندھ میں 2 ہزار پانچ سو ستائیں کے پی کے میں 913 اور بلوچستان میں 109 خواجہ سرا موجود ھیں ۔قومی ڈیٹا کے مطابق شہری علاقوں میں 7651 اور دیہی علاقوں میں 2767 خواجہ سراوں کی تعداد ھے ۔۔
تاریخ میں  پہلی دفعہ  خواجہ غریب نواز نے ہجڑوں کے لیے خواجہ سرا کے الفاظ استعمال کئے تھے تاکہ ان کو بھی معاشرے میں عزت و احترام مل سکے۔۔     
خواجہ سراوں  کو معاشرہ کا اسپیشل پرسن قرار دے کر  وہ تمام سہولیات فراہم کی جائیں جو قانونی طور پر دیگر تمام  افراد  کو حاصل ہیں
خواجہ سرا بچوں / افراد کے لیے الگ سے تعلیمی اداروں قائم کی جائیں جہاں پر تعلیم کے ساتھ ساتھ عملی اور فنی تربیت کا اہتمام کیا جائے تاکہ ھمارے معاشرے کے یہ ٹھکرائے ھوئے یہ افراد بھی دیگر لوگوں کی طرح ملک و قوم کی خدمت کرنے کے ساتھ ساتھ معاشرہ کے لئے مفید شہری ثابت ھو سکیں۔
آج کل ھم اکثر لاھور کی سڑکوں اور ھر  چوک پر چھ سے سات خواجہ سراؤں رنگ بھرنگ کپڑے پہن  کو بھیک مانگتے دیکھتے ہیں
مشاہدہ کے مطابق ان میں اکثر دو نمبر خواجہ سرا ھوتے ہیں جن میںایسے  عام بےکار نوجوان کی اکثریت ھے جو خواجہ سراؤں کا روپ ڈھال کر بھیک مانگتے نظر آتے ہیں۔۔
لہذا حکومت کو چاہئے کہ فوری طور پر خواجہ سراوں کو  خصوصی افراد کے برابر قرار دے کر ھر ضلعی سطح پر ان کے لیے الگ سے رھائشی تعلیمی ادارے قائم کرے جہاں پر ان کو عام تعلیم کے ساتھ ساتھ  مختلف ہنرز کی فنی و ٹیکنیکل تربیت دی جائے ہوسٹل میں مخیر حضرات کی طرف سے تمام خواجہ سراوں کو روزانہ کی بنیاد پر فری کھانے پینے کا انتظام ھونا چاھیے ۔
سرکاری و نجی سطح پر خواجہ سراوں کو دینی و مذہبی تعلیم دینے کے لیے الگ سے مدرسہ قائم کیے جائیں۔۔۔موجودہ حکومت نے پناہ گاہ کے نام سے ایک پراجیکٹ بنایا ھے جس کے تحت ھر شہر میں پناہ گاھیں بنائی گئی ھیں وہ عام طور پر خالی پڑی رہتی ھیں ۔ان تمام پناہ گاھوں کو خواجہ سراوں کے لیے مختص کر دیا جائے جہاں پر ایسے لوگ رھیں اور ان کو سرکار یا مخیر افراد کی طرف سے تین وقت کا کھانا فراھم کرنا چاھیے ۔
ٹریننگ کے بعد ان خواجہ سراوں کے لیے  مناسب  روزگار کے مواقع پیدا کیے جائیں۔بالکل اپنا کاروبار شروع کرنے کے لیے اسان قسطوں پر قرضہ دیا جائے تاکہ معاشرے کے یہ لوگ بھی اپنے لیے اور اپنے گھروں کے لیے باعزت روزگار حاصل کر سکیں ۔بھیک اور جسم فروشی جیسی لعنت سے چھٹکارا حاصل کر سکیں ۔
۔ضرورت اس امر کی ھے کہ خواجہ سراوں کی تعلیم و تربیت اور بحالی کے لیے حکومتی لیول پر ٹھوس بنیادوں پر کام کیا جائے ۔صرف کاغذی منصوبے نہ بنائے جائیں۔۔


تحریر شہزاد بھٹہ