آیئے کچھ اچھا کریں۔

(تحریر ماریہ حلیمہ۔) آج کے دور میں عام طور پر اگر کسی سے بات کی جائے تو یہ سننے کو ملتا ہے کہ وقت ہی نہیں ملتا ورنہ ہم ضرور آتے یا فون کر لیتے اور خیریت ہی معلوم کرتے لیکن کیا کریں مصروفیت ہی ایسی رہی ہے وغیرہ وغیرہ۔
بات اگر وقت پر سونے اور جاگنے کی جائے تو ننانوے فیصد لوگ یہ کہتے ہوئے ملینگے کہ ہم کچھ بھی کر لیں رات کے بارہ بجے سے پہلے سو ہی نہیں سکتے اور اگر بات صبح بیدار ہونے کی جائے تو پاکستانیوں کی اکثریت کی صبح بھی دن کے بارہ بجے بعد ہی ہوتی ہے۔
بات اگر تعلقات کی جائے تو زیادہ تر لوگ اعلی اخلاقی اقدار کا نمونہ نظر آتے ہئں اخلاقیات کا مظاہرہ کرتے ہوئے پائے جایئں گے لیکن حقیقی کردار صرف اور صرف منافقت سے بھر پور شخصیت نظر آتی ہے ہر شخص آپ کے سامنے آپ ہی کی مرضی کی بات کرتا ہوا نظر آئے گا لیکن آپ کے جاتے ہی وہ آپ کے بارے منفی رائے کا کھل کر اظہار بھی کرتا ہوا ملے گا اور پھر یہ سلسلہ نہ تھمنے والا ہو جائے گا۔
بات اگر بچوں کی تربیت کی جائے تو آج کل جو تربیت ہم اپنے بچوں کی کرتے نظر آتے ہیں وہ کچھ یوں ہے کہ جھوٹ، منافقت بد اخلاقی ہم کوٹ کوٹ کر دانستہ طور پر منتقل کر رہے ہیں بڑوں کا ادب ، احترام ، اخلاقیات ایثار ، مساوات کا درس تک دور دور تک کہیں نظر نہیں آتا۔
بات اگر تعلیم کی جائے تو ہم اس کے حصول کاصرف اور صرف اتنی حد تک ضروری سمجھتے ہیں کہ ہمارے بچے سرٹیفائڈ اور ڈگری ہو لڈر کہلایئں اب تو بات اداروں کے نام کی بھی کی جانے لگی ہے دراصل ہم اور ہمارا معاشرہ سماجی ، و اخلاقی ہر لحاظ سے ابتری و پستی کی طرف ہی مائل ہے قول و فعل میں تضاد عام سی بات سمجھی جانے لگی ہے ذاتی مفا دات ہمیشہ ہی اجتما عی مفا دات پر حاوی و مقدم رہنے لگے ہیں۔معاشرہ عمومی طور پر اور ہر شہری خصوصی طور پر
بے حسی اور کم ظرفی کا مظاہرہ کرتے نظر آتے ہیں۔
آیئے اب ہم ان کے معمولات زندگی کی بات کرتے ہیں کہ جن کو مینارہ روشنی اور مشعل راہ سمجھ کر ان کی اندھی تقلید کرنے کی کوشش کرتےہیں یعنی اہل مغرب ایک عام امریک ، یورپی شہری اپنے عزیز واقارب سے ملنے کیلئے وقت نکالنے کا عادی ہے وہاں کا معاشرتی نظام جو بھی ہے وہ اس کے مطابق پارٹیز اور دیگر تقریبات منعقد کرکے ایک دوسرے سے ملتے رہتے ہیں۔
بات اگر سونے اور بیدار ہونے کی جائے تو اہل مغرب کی صبح عموما چھے بجے ہو جاتی ہے اور ناشتہ بھی اسی وقت کر لیا جاتا ہے اور دوپہر اور رات کے کھانے کا وقت بھی سات سے آٹھ بجے ہے اور پھر سونے کے وقت ہے ۔
ہم جن کی اندھی تقلید کرتے ہیں ان کی تربیت میں قول وفعل کا تضاد نہیں ان کے یہا ں تعلیم کا حصول علم حاصل کرے اور مہارتوں کے حصول پر مبنی و منحصر ہے اور یہی ان کی کامیابی کا ذریعہ بھی ہے۔
بات اگر اخلاقی اقدار کی کی جائے تو اس معاشرے میں ایک جانور کے بھی سڑک پہ زخمی ہونے پر ٹریفک رک جایا کرتی ہے اور اس جانور کو بر وقت طبی امدا د فراہم کی جاتی ہے۔
اور یہ سب جو آج اہل مغرب کی شناخت بنتی جا رہی ہے کبھی ہم مسلمانوں کی میراث ہوا کرتی تھی اسلام کی بنیا دی تعلیمات نبی نوع انسان کی بہتری کیلئے ہی ہیں اور ہر دور ہر کے ہر انسان کیلئے مشعل راہ تھیں ہیں اور رہیں گی۔
اب اگر ہم اپنی اور آیئندہ آنے والی نسلوں کی بقا اور کامیابی چاہتے ہیں اور اپنی زبوں حالی سے اپنی آنے والی نسلوں کو بچانا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں ان کی تربیت کرنے کیلئے ہمیں اپنے آج کو بہتر کس طرح بنا سکتے ہیں اپنے عمل کو مکمل اور شفاف بنا نا ہوگا اپنے عمل کو بہترین نمونہ بنانا ہوگا ورنہ ( خدا نخواستہ ) ہماری آیئندہ آنے والی نسلوں کو بھی کہیں گمنامی کا منہ نہ دیکھنا پڑے اور تا ریکیاں اس کا مقدر نہ ہوں یہ وقت کچھ مثبت کر گزرنے کا ہے خدارا کچھ مثبت کر لیجیئے۔