میڈیا اتھارٹی کے پیچھے چھپا ایجنڈا

کراچی(تجزیہ ،مظہر عباس) ملک میں میڈیا کے تحفظ سے زیادہ اسے دبانے اور گلا گھونٹنے کے قوانین ہیں. اور یقین کریں ایسے براہ راست اور بالواسطہ قوانین کی تعداد سو کے قریب ہے. تو مزید کسی قانون کی کیا ضرورت ہے، انہی میں سے کچھ کو بہتر بنایا جا سکتا ہے. میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی کا تصور آزاد آوازوں کو نشانہ بنانے کی ایک اور کوشش کے سوا کچھ نہیں.

اچھی بات ہے کہ حکومت نے ایک کمیٹی بنادی ہے لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ وہ خود اس تجویز کا جائزہ لیں اور دیکھیں کہ یہ آزاد میڈ یا کے تصور میں کس قدر حائل ہے. بظاہر موجودہ بحران کا کافی تعلق اس بات سے ہے کہ صحافیوں اور اینکرز نے کام میں انتہائی مشکل محسوس کی تو مین سٹریم میڈیا سے یو ٹیوب اور دوسرے ڈیجیٹل پلیٹ فارمز پر منتقل ہوگئے.

بعض کو تو ان کے چینل سے بتایا گیا کہ ان کے بارے میں کہیں نہ کہیں سے کیا دباؤ ہے. اب ایم ڈی اے کی صورت میں ایک تو رجسٹریشن اور لائسنسوں کے نام پر انہی اختلاف کرنے والی آوازوں کو ہدف بنایا جائے گا. ایم ڈی اے میں استعمال کی گئی لائسنس کی اصطلاح پہلی بار 1822 میں پریس کے اجازت نامے کیلئے استعمال کی گئی.

بعد میں اسے بدل کر ڈیکلریشن کردیا گیا. مین سٹریم میڈیا 3 نومبر 2007 سے نشانہ بنا، حامد میر پر حملہ ہوا اور پھر ڈان لیکس کا معاملہ ہوا. دونوں معاملات کی تحقیقات کسی نتیجے پر نہیں پہنچیں، وجود ظاہر ہیں. میڈیا کی تینوں شاخوں کیلئے پہلے ہی کئی قوانین موجود ہیں. ڈیجیٹل میڈیا کیلئے پیمرا رولز میں چند ترامیم کی جاسکتی ہیں.

ازالہ حیثیت عرفی اور ہتک عزت کے قوانین بھی موجود ہیں، بس ان پر مناسب عملدرآمد کی ضرورت ہے. اس لئے سب کو اکٹھا کرکے ان کی خود مختار حیثیت ختم کرنے کی کوئی ضرورت نہیں. ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت میڈیا ورکرز کے تحفظ کیلئے اقدامات کرے اور نیوز پیپرز ایمپلائز (کنڈیشنز آف سروس) ایکٹ 1973 پر عمل کرائے. اور یہ ایم ڈی اے سے بلکہ کنٹریکٹ ملازمت ختم کرنے اور صوبائی امپلیمنٹیشن ٹربیونلز قائم کرنے سے ممکن نہیں. آزادی کے وقت سے ہی پاکستان میں چوتھا ستون ایک خاص ذہنیت کا نشانہ چلا آرہا ہے جو شروع دن سے ملک کو آمرانہ انداز میں چلانا چاہتی ہے.

یہی وہ سوچ ہے جس نے انڈیپنڈنس ایکٹ اور سیفٹی ایکٹ کے تحت اس طرح کے میڈیا لاز بنائے جو انگریز مجاہدین آزادی کے خلاف استعمال کرتے رہے. انہوں نے اس بات کو نظر انداز کر دیا کہ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح ایسے کالے قوانین کے خلاف تھے اور آزادی صحافت پر یقین رکھتے تھے.

یکے بعد دیگرے آنیوالے سول اور فوجی حکمرانوں اور بیوروکریسی نے ایسے مزید قوانین بنائے جن کا مقصد آزادی صحافت پر قدغنیں لگانا تھا. آزادی کے بعد پہلے ہی تین سال میں انتظامیہ نے پریس کو دبانے کی پالیسیاں اختیار کر لیں اور درجنوں اخبارات وجرائد بند کر دئیے اور ایڈیٹر اور صحافی جیلوں میں ڈال دئیے. میڈیا کو ریاست کا چوتھا ستون اس لئے قرار دیا گیا کہ یہ نگران( واچ ڈاگ) کا کام کرتا ہے. لیکن ہمارے ہاں یہ ہورہا ہے کہ یہ جب بھی حکومتوں، حکمرانوں اور حکام کی بدعنوانیوں کو بے نقاب کرنے کی کوشش کرتا ہے، الٹا اسے واچ کرنا شروع کردیا جاتا ہے . اس طرح یہ سب سے بڑا ہدف بن گیا. اس کے نتیجے میں اس سے نمٹنے کیلئے قانون بنائے گئے، سنسر شپ نافذ کی گئی، پریس ایڈوائس کا سلسلہ شروع ہوا جس کے بعد بدترین انتقامی کارروائیاں شروع کی گئیں.

اس عمل میں صحافی مارے بھی گئے، اغوا ہوئے، ہراساں کیا گیا اور اب ان کی ملازمتیں بھی خطرے میں ہیں.میڈیا اب ایک غیر محفوظ پیشہ بن گیا ہے کہ اب صحافیوں کے ساتھ ان کے افراد خانہ بھی نشانہ بن گئے ہیں. میڈیا میں کالی بھیڑوں کو بھی شامل کیا گیا ہے . انہیں ان کے ساتھیوں کے خلاف بھی استعمال کیا جاتا ہے. افسوس کی بات یہ ہے آمرانہ ادوار میں بنائے گئے کسی میڈیا مخالف قانون کو کسی سول جمہوری حکومت نے بھی ختم نہیں کیا. بلکہ وہ بھی انہیں استعمال کرتی رہیں اور خود بھی ایسے قانون بنائے.

ان میں سے آخری PECA 2016 ہے جو الیکٹرانک سائبر کرائمز سے متعلق ہے. چار سال میں کئی صحافی اور انسانی حقوق کے کارکن اس کا نشانہ بنے لیکن کوئی بھی کیس ثابت نہیں ہوا. اس لئے مقصد محض آزاد آوازوں کو دبانے کے سوا کچھ نہیں ۔

https://jang.com.pk/news/937157