پولیس والوں نے چابک دستی سے اساتذہ کے سروں، پیروں اور جسم کے دیگر حصوں پر ضربیں لگائیں، پھر آنسو گیس کے گولے پھینکے

پشاور میں پختون خوا کی یونیورسٹیوں کے اساتذہ اور غیر تدریسی عملہ کو اعلیٰ تعلیم کو بچانے کے لیے سڑکوں پر نکلنا پڑا۔ پشاور پولیس نے اپنی لاٹھیوں سے اساتذہ کی تواضح کی۔

پولیس والوں نے چابک دستی سے اساتذہ کے سروں، پیروں اور جسم کے دیگر حصوں پر ضربیں لگائیں، پھر آنسو گیس کے گولے پھینکے۔ یہ مئی کا آخری دن تھا۔ شدید گرمی تھی۔ کئی استادوں کی سانس بند ہوئی۔ پولیس نے ان اساتذہ کو حراست میں لے کر تھانے میں بند کردیا ، اساتذہ اور غیر تدریسی عملہ کے خلاف مقدمات درج کیے گئے، جو دوڑ لگانے کی صلاحیت نہیں رکھتے تھے بلکہ ان کے دماغوں میں کہیں یہ بات تھی کہ تحریک انصاف کی حکومت نئے پاکستان کی دعویدار ہے۔

اس بناء پر پرانے پاکستان میں اساتذہ کے ساتھ جو کچھ ہوتا رہا ہے اب نہیں ہوگا۔ پولیس کے تشدد کا شکار ہونے والے کچھ اساتذہ یورپی ممالک اور امریکا سے پی ایچ ڈی کی ڈگریاں لے کر آئے تھے۔
ان کے سامنے عیسائیوں اور یہودیوں کے ممالک کی مثالیں تھیں جہاں عدالت میں کسی مقدمہ میں استاد پیش ہوجائیں تو یہ آواز گونجتی ہے “Teacher in the court”اور انصاف کی کرسی پر بیٹھے جج احترام میں کھڑے ہوجاتے ہیں۔ پختون خوا کے اساتذہ مطالبہ کررہے ہیں کہ صوبہ میں ہائر ایجوکیشن کمیشن قائم کیا جائے، یونیورسٹیوں نے طلبہ کی فیسوں میں غیر معمولی اضافہ کیا ہے یہ اضافہ واپس ہونا چاہیے۔

اساتذہ کو ملنے والے الاؤنسوں میں 25 فیصد کٹوتی کو واپس لیا جائے۔ صوبہ کی یونیورسٹیوں کے وائس چانسلر کی تقرری کے لیے قائم کی گئی تلاش کمیٹی Search Committee کے سربراہ ڈاکٹر عطاء الرحمن کو اس عہدہ سے ہٹایا جائے۔ پختون خوا کی یونیورسٹیوں کے اساتذہ کی انجمنوں کی تنظیم نے جب یہ مطالبات پیش کیے تھے تو انھوں نے کئی مہینوں وزیر اعلیٰ اور وزیر تعلیم کو عرضداشتیں بھیجی تھیں۔ پھر ذرایع ابلاغ کے ذریعہ ان مطالبات کے بارے میں آگہی کی مہم چلائی تھی۔ پھر ہفتہ مطالبات منایا گیا تھا۔

اس ہفتہ میں اساتذہ نے یونیورسٹیوں میں اجلاس منعقد کیے تھے، مگر پختون خوا کی حکومت نے اساتذہ کے مطالبات کو اہمیت نہیں دی۔ پشاور یونیورسٹی، اسلامیہ کالج یونیورسٹی، انجینئرنگ یونیورسٹی اور ایگریکلچرل یونیورسٹی سے سیکڑوں اساتذہ 9کلومیٹر پیدل مارچ کرتے ہوئے صوبائی اسمبلی کے سامنے پہنچے تھے اور پرامن احتجاج کررہے تھے مگر وزیر اعلیٰ، وزیر تعلیم اور کسی وزیر یا کسی اعلیٰ افسر نے ان مظاہرین سے ملاقات کی زحمت تک نہ کی اور اساتذہ کو سبق سکھانے کا فریضہ پشاور پولیس کے سپرد کیا۔ یوں وزیر اعظم عمران خان کے دورِ حکومت میں اساتذہ پولیس کے تشدد کا شکار ہوئے ہیں۔

جنرل پرویز مشرف دور میں نئی یونیورسٹیوں کے قیام کا سلسلہ شروع ہوا۔ یہ سرکاری یونیورسٹیاں پشاور، مالاکنڈ، ہری پور ہزارہ، سوات اور دیگر علاقوں میں قائم ہوئیں۔ پھر کچھ پرانے کالجوں کو یونیورسٹیوں میں تبدیل کیا گیا۔

یہ صوبہ کے پسماندہ علاقوں میں اعلیٰ تعلیم کی سہولتوں کو عام کرنے کے لیے مثبت پالیسی تھی۔ مگر ان یونیورسٹیوں میں بہترین طرز حکومت کے لیے خاطرخواہ اقدامات نہیں کیے گئے۔ اس صدی کے آغاز کے بعد کی تاریخ کے مطالعہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس صدی کا پہلا عشرہ دہشت گردی میں گزرا۔ دہشت گردوں نے خواتین کے اسکول اور کالجوں کے علاوہ یونیورسٹیوں کو بھی نشانہ بنایا۔ ان دہشت گردوں نے کئی یونیورسٹیوں پر خودکش حملے کیے اور راکٹ لانچر پھینکے۔

یوں کے پی کی یونیورسٹیوں کی مثبت نشوونما متاثر ہوئی مگر 2012ء تک حالات کچھ بہتر ہوئے مگر انتہا پسندی کا عنصر موجود رہا۔ مگر جب 2013ء میں پختون خوا میں تحریک انصاف کی حکومت قائم ہوئی تو کچھ دانشوروں کو یہ امید تھی کہ وزیر اعظم عمران خان تعلیم کی اہمیت پر خصوصی طور پر زور دیتے ہیں مگر تحریک انصاف کی حکومت یونیورسٹیوں کے حالات کو بہتر بنانے میں کامیاب نہ ہوسکی۔ کے پی کی یونیورسٹیاں مسلسل مالیاتی بحران کا شکار ہیں۔ اساتذہ کو وقت پر تنخواہوں کی ادائیگی نہیں ہوتی۔

پھر ریٹائرڈ اساتذہ کی پنشن فنڈز میں غبن اور نامعلوم وجوہات کی بناء پر پنشن ہر ماہ ادا نہیں ہوتی۔ ان یونیورسٹیوں میں ایک معاملہ وائس چانسلروں کی غیر مناسب پالیسیوں کا ہے۔ کے پی کے پسماندہ علاقے مالاکنڈ میں قائم یونیورسٹی اپنے قیام کے بعد سے بحران کا شکار ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بحران شدید ہوتا جارہا ہے۔

اساتذہ کہتے ہیں کہ یونیورسٹی کے مالیاتی معاملات میں شفافیت نہیں ہے اور کرپشن کے نئے طریقہ کار استعمال ہورہے ہیں۔ اسی طرح اس یونیورسٹی میں کچھGhost Department بھی ہیں جن کے لیے مختص فنڈز کہاں خرچ ہوتے ہیں کوئی نہیں جانتا۔ اسی طرح ہائر ایجوکیشن کمیشن کے اساتذہ کے تقرر اور ترقیوں کے لیے طے شدہ قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی معمول کی بات ہے۔

اقربا پروری اور سچائی کے لیے آواز اٹھانے والے اساتذہ کو انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بنانا روزمرہ کی بات ہے۔ 18ویں ترمیم کے بعد تعلیم صوبائی حکومت کی ذمے داری قرار پائی۔ تعلیم میں پرائمری، سیکنڈری اور کالج کے ساتھ اعلیٰ تعلیم بھی صوبائی حکومتوں کے دائرہ کار میں آتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پنجاب اور سندھ کی حکومتوں نے اپنے اپنے اعلیٰ تعلیم کمیشن Higher Education Commission قائم کیے۔

میاں شہباز شریف کے دور میں پنجاب میں قائم ہونے والے اعلیٰ تعلیم کمیشن نے بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ سندھ میں کمیشن زیادہ فعال نہیں ہے۔ کمیشن کے ذرایع کہتے ہیں کہ صوبائی حکومت کا امتیازی رویہ اس کے فعال ہونے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے مگر حیرت انگیز طور پر پختون خوا حکومت نے اپنے صوبہ میں یہ کمیشن قائم نہیں کیا اور وائس چانسلروں کے تقرر کے لیے سرچ کمیٹی کا معاملہ ایچ ای سی کے سابق سربراہ ڈاکٹر عطاء الرحمن کے سپرد ہے۔

ایچ ای سی کے سابق سربراہ ڈاکٹر طارق بنوری کا کہنا ہے کہ انھوں نے کراچی یونیورسٹی میں قائم ایچ ای جے اور دیگر اداروں کو ملنے والی گرانٹ اور ان کی کارکردگی پر اعتراضات کیے تھے۔ پھر ان پر عتاب شروع ہوا۔ اب پختون خوا کے اساتذہ مطالبہ کررہے ہیں کہ صوبہ میں ہائر ایجوکیشن قائم کیا جائے جو یونیورسٹیوں کے مسائل کو حل کرنے کے لیے ادارہ جاتی اقدامات کرے۔ کے پی حکومت نے یونیورسٹیوں کی گرانٹ میں تو اضافہ نہیں کیا مگر یونیورسٹیوں کو فیسوں میں اضافہ کی اجازت دیدی۔

کے پی کی بیشتر آبادی کم آمدنی والے افراد پر مشتمل ہے اور گزشتہ 3برسوں کے مالیاتی بحران نے اس کی کمر توڑ دی ہے۔ اس بحران سے متوسط طبقہ براہِ راست متاثر ہوا ہے۔ پبلک سیکٹر یونیورسٹیوں میں متوسط طبقہ سے تعلق رکھنے والے نوجوان تعلیم حاصل کرتے ہیں ۔ ان کے لیے اب تعلیم جاری رکھنا مشکل ہوتا جارہا ہے۔ اساتذہ کے یہ تمام مطالبات جائز ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان برطانیہ کی یونیورسٹی کے اعزازی چانسلر رہے ہیں۔

انھوں نے میانوالی میں (بقول وزیر اعظم) بین الاقوامی معیار کی یونیورسٹی قائم کی ہے مگر ان کے دور حکومت میں پختون خوا میں یونیورسٹیاں مسلسل بحران کا شکار ہیں اور وفاق میں ہائر ایجوکیشن کمیشن کی ہئیت بگاڑ دی گئی ہے، اب کے پی کے اساتذہ کے مسائل حل کرنے کے بجائے ان کو سڑکوں پر گھسیٹنے کی ایک اور مثال قائم کی گئی ہے۔

منتخب حکومت کو تو فوری طور پر ان مطالبات کو مان کر عمل شروع کرا دینا چاہیے تھا مگر تحریک انصاف کی حکومت نے اساتذہ پر تشدد کر کے ان لوگوں کو مایوس کیا ہے جو گزشتہ صدی کے آخری عشرہ سے اس سے امیدیں وابستہ کیے بیٹھے تھے۔

——————

ڈاکٹر توصیف احمد خان
————-

https://www.express.pk/story/2186337/268/