سفیر پاکستان بلال اکبر کی جدہ میں میڈیا سے بات چیت


گزشتہ ماہ وزیر اعظم عمران خان نے سعودی عرب کے دورے سے قبل سعودی عرب میں سفارت کاروں کے خلاف ملنے والی شکایات پر برہمی کا اظہار کیا تھا ، جس سے یقینا سفارت کاروں میں حوصلہ شکنی کی لہر دوڑ چلی تھی۔وزیر اعظم جدہ آئے لگتا تھا کہ وہ مزید اس پر بات کرینگے، مگر انہوں نے چیدہ چیدہ کمیونٹی کے اجتماع میں کہا کہ”یہاں کی کارکردگی پر کمیونٹی کی شکایات تھیں، بلال اکبر سفیر نامزد ہوئے ہیں اور وہ کمیونٹی کی شکایات اور افسران کی کارکردگی دیکھیں گے انہوں نے امید ظاہر کی وہ افسران کی کارکردگی کو بہتر بنائینگے اور کمیونٹی کے مسائل حل کرینگے۔انکے اس بیان کے بعد میں نے وہاں موجود سفارت کاروں، افسران کو دیکھا جنکے چہروں پر سکون کا اظہار نمایا ں تھا۔ میں پہلے بھی تحریر کرچکا ہوں کہ کمیونٹی بڑی ہے، اسٹاف و سہولیات ناکافی اس لئے ضروری ہے کہ اسی صورتحال کو بہتر انداز میں منظم کیا جائے۔ موجودہ سفیر بلال اکبر فوج کے اعلی عہدے پر خدمات انجام دے چکے ہیں وہ ایک بہتریں
ایڈمنسٹریٹرثابت ہونگے۔انکے ہمراہ مغربی صوبے میں قونصل جنرل خالد مجید پہلے ہی کمیونٹی میں اپنی خدمات پر معروف ہوچکے ہیں دونوں ملکر کمیونٹی کے معاملات کو بہتر ا نداز میں چلا سکتے ہیں۔ گزشتہ دنوں سفیر پاکستان جدہ آئے تو انہوں نے پاکستان قونصلیٹ میں میڈیا سے منسلکہ افراد سے ملاقات کی اس موقع پر سفیر پاکستان نے کہا کہ وزیر اعظم عمران خان کی ہدایات کی روشنی میں پاکستانی کمیونٹی کو سفارت خانہ اور قونصلیٹ میں بہتریں خدمات کی فراہمی کے لیے اقدامات کر رہے ہیں۔ کمیونٹی کے وہ مسائل جن کا تعلق براہ راست حکومت پاکستان سے ہے ان کو حل کرنے میں کوئی تاخیر برداشت نہیں کی جائے گی۔ اس ملاقات میں قونصل جنرل خالد مجید بھی موجود تھے۔ انہوں نے کہا کہ کمیونٹی کے وہ مسائل جن کا تعلق سعودی حکومت سے ہے ان کو مقامی قانون کے مطابق ہی حل کیا جا سکتا ہے جس کے لیے سفارت خانہ کے افسران سعودی اداروں سے رابطہ کر کے ان کو بھی حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ سفیر


پاکستان نے کہا کہ ہماری ہم ممکن کوشش ہے کہ پاکستانیوں کو ہر ممکن سہولت فراہم کرنیاور اس کو شفاف بنانے کے لیے تمام جگہ کیمرے لگائے جا رہے ہیں اور سروس فراہم کرنے والا عملہ یہ بتایا کرے گا کہ اپ کی گفتگو اس کیمرے میں ریکارڈ کیا جا رہا ہے تاکہ بعد ازاں اگر پاکبان کو کوئی شکایت ہو تو وہ ریکارڈنگ دیکھ کر فیصلہ کیا جاسکے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا پاکستان میں کرونا کی چینی ساختہ دوا لگائی جا رہی ہے اور سعودی عرب میں اس کو منظور کروانے کے اقدامات شروع کر دیے گئے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں لگنے والی چین کی ویکسن کے معاملے پر ایک سعودی وفد بھی چین گیا ہوا ہے اگر مطمئین ہوئے تو پھر پاکستان سے بھی ہم وطن واپس آسکتے ہیں نیز وہ لوگ جو سعودی عرب میں ویکسن لگا کر پاکستان گئے تھے اور فضائی حدود بن ہونے کی بناء پر واپس نہیں آسکتے اور انکی واپسی کیلئے اعداد و شمار جمع کرکے میزبان حکومت سے درخواست کی جائے گی۔ بلال اکبر نے کہا کہ سعودی جیلوں میں قید پاکبانوں کی رہائی کے لئے کوشش کر رہے ہیں ان میں معمولی جرائم میں ملوث کی رہائی جلد ممکن ہے اور سنگین جرائم کے قیدیوں کے لئے بھی بات چیت جاری ہے۔جن قیدیوں پر جرمانہ ہے کوشش کی جارہی ہے کہ پاکستان سے فنڈز مہیا ہوں تاکہ ان قیدیوں کی بھی رہا کیا جاسکے اس سلسلے میں امید ہے حکومت کے پروگرام ”احساس “ سے مدد لی جائیگی۔

سفیر پاکستان کی صحافیوں کے گروپوں پر اظہار خیال ، وجوہات
سفیر پاکستان کی جدہ میں میڈیا سے ہونے بات چیت کے درمیان سفیر پاکستان کی اس بات پر کہ ”میرے علم میں یہ بات آئی ہے کہ پاکستان کی طرح یہاں میڈیا میں بھی گروپینگ ہے “ پر یہاں تحریر ضروری ہے ، دراصل قونصلیٹ کا ایک عرصہ دراز سے یہ شیوہ رہا ہے کہ وہ اپنے بقول صحیح مگر یہ منفی بات ضرور مہمان کے گوش گزار کرتے ہیں کہ یہاں کمیونٹی میں تفریق ہے، گروپنگ ہے اب کچھ عرصے سے یہ جملہ یہاں میڈیا سے متعلق لوگوں جو یہاں رضاکارآنہ پاکستانی میڈیا تک مثبت خبریں پہنچانے، کمیونٹی کے مسائل حکام بالا تک پہنچانے کیلئے کام کررہے ہیں انکے لئے بھی کہہ دیا جاتا ہے۔ میڈیا سے تعلق رکھنے والا اگر وہ ایماندار صحافی ہے تواپنی سیاسی سوچ کو واضح نہیں کرتا (ہم ایک جمہوری ملک سے تعلق رکھتے ہیں سیاسی کوئی نہ کوئی سوچ تو ہوتی ہے، بقول مجید نظامی مرحوم جو غیر جانبدار اپنے آپکو کہے تو وہ غیرجانبدار نہیں ”منافق“ ہوتا ہے۔جدہ میں پاکستان جرنلسٹ فورم عرصہ 24 سال سے کام کررہا ہے جس میں پاکستان کے قومی اخبارات، مشہور قومی الیکٹرانک چینلز نمائیندے موجود ہیں کچھ عرصے قبل قونصلیٹ کو شائد پی جے ایف کی ایماندرآنہ صحافت اور چھچوری حرکات نہ کرنے کی وجہ سے کوئی ”تکلیف“پہنچی تو کچھ لوگوں کو تیار کرکے صحافی بنایا گیا ۔(یہ بات خود ہی ایک گروپ بنانے والے عہدیدار نے ہی نہیں بلکہ قونصلیٹ سے اپنی مدت ملازمت مکمل کرکے پاکستان جانے والے ایک افسر نے بتائی اپنے کہے سنے کی معافی مانگتے ہوئے) انہوں نے بتایا انہیں ایک اعلی افسر نے یہ ذمہ داری سونپی تھی کہ PJF کو ختم کرنا ہے یا اسے محدود کرنا ہے۔ اس سے بھی قبل قونصلیٹ کے اعلی افسر نے پی جے ایف پر شب خون مارنے کی کوشش کی تھی اور دوست ہندوستانی صحافی جو پی جے ایف کے معترف تھے کوشش کی گئی اس سے ”پاکستان“کا لفظ نکال کر انڈو پاک جرنلسٹس فورم کردیا جائے جسکا نہ صرف پی جے ایف بلکہ ہندوستانی مہربان دوستوں نے منع کردیا کہ ہم اس کھیل کا حصہ نہیں بن سکتے۔قونصلیٹ کو ایک بہترین مشورہ پی جے ایف نے دیا کہ جو اپنے آپ کو صحافی کہلائے اسکے پرنٹ میڈیا یا الیکٹرانک ہاؤس سے اسکا خط مانگا جائے اور اسکی تصدیق بھی کرائی جائے وزارت اطلاعات پاکستان کے ذریعے یا براہ راست اس ادارے سے پی جے ایف نے خط اور دستاویز مہیا کردیں مگر صحافیوں کی تعداد روز بروز بڑھتی رہی، جس نے موبائیل ہاتھ میں رکھ کر کسی بھی افسر کی تصویر فیس بک پر لگا دی وہ صحافی ہی نہیں بلکہ سینئر صحافی ہوگیا ایک سابقہ قونصل جنرل اور حالیہ سفیر پاکستان آسٹریا ، اور پریس قونصل سہیل علیخان (حالیہ PIO) حکومت پاکستان کے زمانے میں ایسا نہیں ہوا انہوں نے یہ تمیز قائم رکھی کہ کون صحافی اور کون نہیں۔ اسکے بعد آنے والے قونصل پریس ارشد منیر کے وقت میں ایک گروپ بن گیا، حالیہ قونصل پریس اور قونصل جنرل کے زمانے میں تین اور پھر چار گروپنگ کی باتیں ہونے
لگیں، ہوسکتا ہے موجودہ پریس قونصل کے دور میں شائد دو تین گروپ اور بن جائیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جو افسر پاکستان سے آتے ہیں وہ تعلیم یافتہ ہوتے ہیں، اللہ تعالی نے انہیں مکمل سوجھ بوجھ سے نواز ہوتا ہے وہ ہر شخص کو صحافی بنادیں انکی سوجھ بوجھ کی بہتری کی دعا کی جاسکتی ہے۔پاکستان جرنلسٹس فورم جو ایک گپ شپ کا فورم ہے، ایک دوسرے سے کمیسٹری ملتی ہے صحافت کو جانتے ہیں، ایماندری کا مظاہرہ کرتے ہیں، بہترین تحریروں کے حامل ہیں وہ گزشتہ 24 سال سے ایک مضبوط لڑی میں موجود ہیں سیاسی گروہ بندی وہ بہت دور ہیں الحمداللہ۔ وہ ان گروپوں پر یقین نہیں رکھتے جو واقعی ہی خبریں عوام تک پہنچائے، قومی سطح کے میڈیا ہاؤس سے منسلک ہو وہ سب قابل احترام ہیں خواہش اس بات کی ہے گروہ بندی کا ڈھول نہ پیٹاجائے، سفیر پاکستان کا پہلا جدہ کا دورہ یا میڈیا ٹاک تھی اس میں انکا تاثر کچھ اچھا نہیں لگا، جو انہیں بتایا گیا یقینی بات انہوں نے اسکا اظہارکیا۔ سفیر پاکستان کی میڈیا ٹاک میں قونصلیٹ کے مہمان صحافیوں کا معیاریہ تھا کہ وہ اعتماد کو عدم اعتماد کہہ رہتے، انہوں نے ایک چینل کا نام لیکر کہا کہ ”میں نے مکہ المکرمہ میں سروے کیا تھا آپکی سعودی عرب آمد پر کمیونٹی نے بھر پور ”عدم اعتماد“کیا ہے۔ اس موقع پر اسٹیج پر بیٹھے قونصل جنرل نے کچھ کہنا چاہا مگر سفیر پاکستان نے ”معزز سینئر صحافی “ کی لاج رکھی اور قونصل جنرل کوکچھ کہنے سے پہلے ہی انکا ہاتھ دبا کر انہیں خامو ش کردیا۔ یہ مواقع پی جے ایف کیلئے بہت تکلیف دہ ہوتے ہیں۔