قصہ ایک شادی کا ۔۔۔۔۔۔

27 اگست 1968 ۔۔بلدیہ کراچی کے ملازمین اور افسران سمیت اہلیان کراچی کے لئے یاد گار دن ہے ۔اس دن کراچی ایئرپورٹ پر ایک ایسا شاہی طیارہ اترا جس کے استقبال کے لیے بلدیہ کراچی کے ملازمین نے 15 دن قبل شہر میں صفائی ستھرائی اور خوبصورت بنانے کے اقدامات شروع کر دیے تھے چنانچہ ڈریگ روڈ سمیت شہر کی تمام سڑکوں کی خصوصی صفائی اور رنگ کیا گیا ۔سڑکوں کی مرمت اور استر کاری کی گئی ۔سیوریج اور پانی کی لائنوں کی خصوصی دیکھ بھال اور مرمت کی گئی ۔اس جہاز میں کوئی اسٹیٹ گیسٹ یا شاہی مہمان تو نہیں تھا مگر مسافروں میں ایک شہزادے کی برات اور بادشاہ جہاز کو اڑا رہا تھا ۔اس برات اور دولہا کی اہمیت یہ تھی کہ استقبال کے لیے صدر مملکت فیلڈ مارشل محمد ایوب خان اپنی صاحبزادی کے ہمراہ ایئرپورٹ پر موجود تھے

۔دولہا اور دلہن کے ولی عہد شہزادہ حسن بن طلال تھا ۔جس کی شادی پاکستان کے سابق سیکریٹری خارجہ اکرام اللہ کی سب سے چھوٹی صاحبزادی ثروت اکرام اللہ کے ساتھ طے پائی تھی ۔برات کا طیارہ اردن کا شاہ حسین آ رہا تھا ۔یہ شادی دو خاندانوں کی نہیں بلکہ دو ملکوں کو رشتے میں باندھ رہی تھی ۔جس کی خوشی میں بلدیہ کراچی نے شہر کے در و دیوار کو جگمگا دیا ۔پورے ملک میں خوشی منائی گئی

برات میں اردن کا پورا شاہی خاندان تھا ۔شاہ حسین اور شہزادہ حسن کے علاوہ اردن کہ وزیر اعظم بہجت تلہونی ،سیکرٹری جنرل سید انضمائی ،شہزادی منی الحسین ،شہزادی عالیہ شہزادی بسمیہ اور دیگر سرکاری حکام شامل تھے ۔استقبال کرنے والوں میں صدر ایوب خان کے علاوہ پاکستان میں اردن کی سفیر آکاش الزین اور اردن میں پاکستان کے سفیر راحت سعید چھتاری ،ثروت کی والدہ بیگم شائستہ اکرام اللہ اور صدر ایوب خان کی صاحبزادی نسیم اورنگزیب موجود تھیں۔ برات کو گارڈ آف آنر پیش کیا گیا اور اسٹیٹ گیسٹ ہاؤس کے لیے روانہ ہوئی ۔بلدیہ کراچی نے اس برات اور شاہی مہمانوں کی شہر میں آمد سے قبل شہر کو چمکا دیا تھا ۔آراستہ اور صاف ستھری سڑکوں کے دونوں کناروں پر عوام خیرمقدمی نعروں سے برات کا استقبال کر رہے تھے اس شہر میں جشن کا ماحول تھا

بلدیہ کراچی نے ایئرپورٹ سے کلفٹن میں بیگم شائستہ اکرام اللہ کے گھر ۔کاشانہ تک جہاں سے برات میں گزرنا تھا جگہ جگہ استقبالیہ کیمپ قائم کیے یہاں بینر اور دونوں ممالک کے جھنڈے لگائے گئے تھے ۔ان کیمپوں میں استقبالیہ بینڈ بھی فضا میں موسیقی بکھیر رہے تھے اور پھول نچھاور کیے جارہے تھے برات دو دن تک کراچی میں رہیں جب تک شہر میں جشن کا ماحول تھا ۔

شہر کراچی کی تاریخ کے حوالے سے لکھی گئی کتاب ۔۔۔۔بلدیہ کراچی ۔۔۔سال بہ سال ۔۔۔1844 تا 1979۔۔۔سے ماخوذ ۔۔۔۔۔۔


یہ تاریخی کتاب بشیر سدوزئی نے لکھی ہے شہر قائد کی ایک جانی پہچانی شخصیت ہیں محمد بشیر خان جنہیں یار دوست بشیر سدوزئی کے نام سے یاد کرتے ہیں بغیر خدمات انجام دینے کے بعد بلدیہ عظمیٰ کراچی کے محکمہ میڈیا مینجمنٹ کے ڈائریکٹر کے طور پر 20 فروری 2020 کو ریٹائر ہوئے دوران ملازمت بلدیہ عظمیٰ کراچی میں سینئر ڈائریکٹر ای اینڈ آئی پی ،ڈائریکٹر چڑیا گھر ،ڈائریکٹر سفاری پارک سمیت مختلف اہم عہدوں پر اور سندھ حکومت کے مختلف محکموں میں خدمات انجام دیں ۔مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر زون سی اور گورنر سندھ کے تین سال تک پی آر او اور اسپیچ رائٹر آپ کی حیثیت سے بھی تعینات رہے

ماس کمیونیکیشن میں ماسٹر ڈگری کے ساتھ نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف پبلک ایڈمنسٹریشن سے کورس بھی کیے جب کہ اقوام متحدہ کے ادارہ انٹرنیشنل فیڈریشن آف نان گورنمنٹل آرگنائزیشنز کدھر نگرانی سری لنکا میں پندرہ روزہ تربیتی کورس بھی کیا پانچ کتابیں اور مختلف سماجی مسائل پر پندرہ سو سے زائد مضامین لکھ چکے ہیں متحرک سماجی کارکن آٹھ کونسل آف پاکستان کراچی کی گورننگ باڈی کے ممبر اور پریس اینڈ پبلیکیشن کمیٹی کے چیئرمین ہیں ۔بلدیہ کراچی کی تعریف اور شہر کے حوالے سے اہم واقعات کا احاطہ کرنے کے معاملے میں یہ کتاب اپنی مثال آپ ہے انہوں نے اپنی کتاب بلدیہ عظمیٰ کراچی کے سابق سینئر ڈائریکٹر محترم جناب سیف الرحمان گرامی مرحوم کے نام کی ہے اس کتاب میں انیسویں اور بیسویں صدی کے کراچی کے حوالے سے انتہائی اہم واقعات کا احاطہ کیا گیا ہے شہر کی پہلی سڑک سے لے کر کراچی کے نو نئے راستوں تک ،نئے شہر کی تعمیر کی منصوبہ بندی سے لے کر کراچی کی پہلی بستی اسکول کے قیام اور محکمہ ٹیکس کے قیام اور پہلا ماسٹر پلان تک نہایت معلوماتی کتاب ہے میوہ شاہ قبرستان کے قیام سے لے کر دریائے ملیر سے پانی لانے کا منصوبہ ،برساتی پانی کی نکاسی کا نظام ،شہر کے پہلے بڑے ہوٹل کا قیام ،چڑیا گھر بند روڈ کی تعمیر ،فریئر ہال کا سنگ بنیاد ،چراغوں میں مٹی کا تیل ،روشنی کا نیا نظام ،بلدیہ کے اسپتال سن لے کر منوڑہ کو بلدیہ کی حدود سے باہر کرنے کے واقعات تک اور خالق دینا ہال کہستاں سے کراچی کلب کی تاریخ تک بہت سے تاریخی واقعات کو نہائت عمدہ اور مثالی انداز سے قلمبند کیا گیا ہے ان تاریخی واقعات کو حقائق کے ساتھ پیش کرنے پر مصنف واقعی تعریف کے قابل ہیں جو کوئی کراچی شہر اور بلدیہ کراچی کی تاریخ جاننا چاہتا ہے اسے یہ کتاب ضرور پڑھنی چاہئے ۔


—————
شہر کراچی کی تاریخ کے حوالے سے لکھی گئی کتاب ۔۔۔۔بلدیہ کراچی ۔۔۔سال بہ سال ۔۔۔1844 تا 1979۔۔۔سے ماخوذ ۔۔۔۔۔