پولیس مقابلے

پولیس مقابلے


ڈاکٹر توصیف احمد خان
—————

میرا بیٹا شیر تھا، ظالموں نے مار دیا۔ میں غریب عورت ہوں، میرا گھر دیکھ لو، وکیلوں نے مجھے دھوکا دیا۔ میں نے اپنے بیٹے کے قاتلوں کو سزا دلوانے کے لیے وکیلوں کو فیس دی مگر مجھے کسی سے انصاف نہیں ملا ، مجھے انصاف چاہیے۔ میرے بیٹے کے قاتلوں کو سزا دی جائے۔

ایک ادھیڑ عمر ناخواندہ بلوچ عورت انسانی حقوق کمیشن کے دفتر میں چیخ رہی تھی۔ اس کا بیٹا ان چار افراد میں شامل تھا جو کراچی کی پرانی سبزی منڈی کے قریب منو گوٹھ میں مشکوک پولیس مقابلہ میں مارے گئے۔

اس پولیس مقابلہ میں مار جانے والوں میں 22سالہ بلال ولد عثمان ، 21 سالہ عامر ولد رسول بخش، 18سالہ محمد اسلام ولد عبدالحمید اور 19سالہ مسعود ولد ریاض شامل تھے۔ انسانی حقوق کی تنظیم ایچ آر سی پی کے سندھ کے وائس چیئرپرسن قاضی خضر کی قیادت میں ایک تحقیقاتی کمیٹی نے مرنے والے نوجوانوں کے لواحقین کے ان الزامات کی تحقیقات شروع کی۔
اس کمیٹی کی تحقیقات کے مطابق ان نوجوانوں کو سبزی منڈی کے قریب منو گوٹھ میں نہیں بلکہ پولیس نے کہیں اور لے جا کر ہلاک کیا ہے۔ اس تحقیقاتی کمیٹی میں اسد بٹ شریک چیئرپرسن HRCP، سعید بلوچ اور عبدالحئی بھی شامل ہیں۔

ایچ آر سی پی کی تحقیقاتی رپورٹ کے مطالعہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ نوجوان 28 اپریل 2021 کو رات گئے 10بجے منو گوٹھ بلوچ پاڑہ میں ایک ہائی روف میں فٹ بال میچ دیکھنے جا رہے تھے۔ پولیس کی بھاری نفری نے جو موٹر سائیکلوں اور ڈبل کیبن گاڑیوں میں سوار تھی ہائی روف کو گھیر لیا ۔ اس ہائی روف پر سوار ایک نوجوان مسعود عرف ریاض نے بھاگنے کی کوشش کی۔ پولیس کے جوانوں نے فائرنگ کر کے مسعود کو شدید زخمی کیا اور بلال اور عامر کو ہائی روف میںاور محمد اسلام کو موٹر سائیکل پر بٹھا کر لے گئے۔

علاقہ کے لوگ مسعود کو زخمی حالت میں جناح اسپتال لے گئے جہاں دوران علاج مسعود 2مئی 2021 کو انتقال کرگیا۔ ان لڑکوں کے لواحقین پی آئی بی تھانے گئے تو تھانے والوں نے ان کو عباسی شہید اسپتال بھیج دیا۔ ان لواحقین کو اسپتال کے عملے نے بتایا کہ محمد بلال اور عامر وفات پا گئے ہیں اور محمد اسلام زخمی ہے مگر پولیس نے رشتہ داروں کو محمد اسلام سے ملنے کی اجازت نہیں دی اور نہ ہی بلال اور عامر کی لاشیں ورثاء کے حوالے کیں۔ اس پولیس مقابلہ کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ جس وقت پولیس کی ٹیم نے ہائی روف پر چھاپہ مارا تھا تو اس وقت ایک کمپنی کے سی سی ٹی وی کیمرے سڑک کی فلم بندی کررہے تھے۔

پولیس والوں کی نظر اس کمپنی کے کیمرے کی طرف مبذول نہیں ہوئی اور ان کیمروں سے حاصل کردہ فوٹیج سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ جس وقت مسعود گاڑی سے اتر کر بھاگا اس کے ہاتھ میں کوئی ہتھیار نہیں تھا بلکہ موبائل فون تھا۔ پولیس نے اس نوجوان کو پیچھے سے گولی ماری اور باقی لڑکوں کو پولیس اپنے ساتھ لے گئے۔

ایک عینی شاہد اسد اﷲ نے ایچ آر سی پی کی ٹیم کو بتایا کہ بلال اور عامر کے خلاف موبائل چھیننے اور چوری کے الزامات کی ایف آئی آر درج تھی۔ ایچ آر سی پی کی ٹیم نے پی آئی بی کالونی تھانہ کے ایس ایچ او ہارون کورائی سے ملاقات کی تو ہارون کورائی نے کہا کہ بلال اور اس کے ساتھی عادی مجرم تھے۔ ایس ایچ او نے مزید بتایا کہ علاقہ میں قائم فیکٹریوں، دکانوں اور تاجروں سے بھتہ وصول کرتے تھے اور بھتہ نہ دینے پر فائرنگ کرتے اور ملازمین کو زدوکوب کرتے تھے۔

بقول کورائی ان افراد کی لوٹ مار کی بناء پر ایک گتے کی فیکٹری بند ہوگئی تھی۔ ملزمان پر خواتین پر مجرمانہ حملے کے بھی الزامات تھے۔ پولیس کے قواعد و ضوابط کے تحت جس ضلع میں پولیس مقابلہ ہو تو دوسرے ضلع کا تھانہ اس مقدمہ کی تحقیقات کرتا ہے۔ پولیس مقابلہ کا مقدمہ کی تحقیقات قائد آباد پولیس کررہی ہے مگر ابھی تک تحقیقات نامکمل ہیں۔ دوسری طرف ان نوجوانوں کے لواحقین پولیس افسروں کے خلاف ایف آئی آر درج کرانا چاہتے ہیں مگر بقول ان کے، ان کی عرضداشت پر کوئی توجہ نہیں دے رہا۔

پولیس مقابلوں کی روایت بہت قدیم ہے۔ پولیس مقابلوں ہلاک ہونے والوں کے لواحقین شور مچاتے ہیں ، سڑکوں پر مظاہرے کرتے ہیں اور میڈیا پر ان کی روداد نشر ہوتی ہے تو اعلیٰ حکام تحقیقات کا حکم دیتے ہیں۔ تین سال قبل کراچی میں پولیس نے ایک پولیس مقابلہ میں ایک نوجوان نقیب اﷲ محسود اور اس کے ساتھی کو ہلاک کیا تھا۔

اس وقت ملیر کے ایس ایس پی راؤ انوار نے دعویٰ کیا تھا کہ پولیس مقابلہ میں ہلاک ہونے والے طالبان دہشت گرد تھے اور پولیس نے طالبان کے بڑے گینگ کا خاتمہ کیا ہے۔ مگر پھر کراچی میں سپر ہائی وے اور شمالی وزیرستان میں محسود قبائل نے احتجاج کیا۔ یہ احتجاج مہینوں جاری رہا تو سندھ حکومت کو اس پولیس مقابلہ کی تحقیقات کرانی پڑی۔ اس تحقیقات کی روشنی میں یہ ظاہر ہوا کہ یہ نوجوان بے گناہ تھے ۔ حکومت سندھ نے راؤ انوار اور اس کے ساتھیوں کے خلاف مقدمات قائم کیے۔ راؤ انوار کئی ماہ تک لاپتہ رہے، پھر اچانک سپریم کورٹ میں پیش ہوگئے اور ان کی عبوری ضمانت منظور ہوگئی۔

ایچ آر سی پی کے لیے رضاکارانہ خدمات انجام دینے والے سپریم کورٹ کے سینئر وکیل شعیب اشرف ایڈووکیٹ اور ان کی ٹیم لواحقین کی پولیس حکام کے خلاف ایف آئی آر درج کرانے کے لیے عدالتی چارہ جوئی کی تیاری کررہے ہیں۔

شعیب اشرف کا موقف ہے کہ ماورا عدالتی قتل پی پی سی میں تعزیراتِ پاکستان کی قتل کی دفعات کے زمرے میں آتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ چند سال قبل کراچی میں کلفٹن کے ایک پارک میں رینجرز کے اہلکار نے ایک نوجوان سرفراز کو گولی ماردی تھی، اس اہلکار کے خلاف قتل کے علاوہ دہشت گردی کی دفعات کے تحت بھی مقدمہ درج ہوا تھا۔

اس اہلکار کو مقامی عدالت سے سزائے موت ہوئی اور اعلیٰ عدالتوں نے اس سزا کی توثیق کی۔ شعیب اشرف مزید کہتے ہیں کہ پی پی سی کی دفعہ 22-A کے تحت متعلقہ سیشن کورٹ میں پولیس اہلکاروں کے خلاف ایف آئی آر درج کرانے کی عرضداشت داخل کررہے ہیں۔

ایک سابق سرکاری وکیل اور انسانی حقوق کی تحریک کے کارکن شاہد علی کا استدلال ہے کہ پولیس قوانین ماورا عدالت قتل کو نہیں روکتے، اس بناء پر ضروری ہے کہ اس قانون کے تحت ہائی کورٹ کے ریٹائرڈ جج کی قیادت میں ایک خودمختار ادارہ قائم کیا جائے جو ہر اس واقعہ کی تحقیقات کرے اور اس کی رپورٹ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کو پیش کی جائے۔

منو گوٹھ میں ہونے والے پولیس مقابلہ میں ہلاک ہونے والے افراد کا کریمنل ریکارڈ موجود ہے مگر ایچ آر سی پی کی تحقیقاتی رپورٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ پولیس نے اپنے اختیارات سے تجاوز کیا ۔ پولیس کی نااہلی سے یہ نوجوان مظلوم کرداروں کے طور پر ابھر کر سامنے آئے۔ اگر یہ ملزمان عادی مجرم تھے تو پھر ان کے خلاف عدالتوں میں مقدمات چلنے چاہیے تھے اور واضح شواہد کی بناء پر ان افراد کو طویل سزائیں ہوسکتی تھیں۔

ریاستی ادارے جب قانون سے ماورا کارروائی کرتے ہیں تو اس کے سخت نقصانات سامنے آتے ہیں۔ اس صورتحال کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ عوام کا پولیس پر اعتماد قائم نہیں ہوپاتا اور پھر یہ رائے عامہ بن جاتی ہے کہ پولیس ہمیشہ غیر قانونی کارروائی کرتی ہے۔

https://www.express.pk/story/2185040/268/