127 صحافیوں کی زبان بندی کی تیاری ؟ کون سے صحافی ریڈار پر آگئے ؟سینئر صحافی اور کالم نگار حیدر جاوید سید کے انکشافات

127 صحافیوں کی زبان بندی کی تیاری ؟ کون سے صحافی ریڈار پر آگئے ؟سینئر صحافی اور کالم نگار حیدر جاوید سید کے انکشافات
———–
اپنے خصوصی انٹرویو میں معروف کالم نگار کا کہنا تھا کہ حکومت اور ادارے ایک سو ستائیس صحافتی، بلاگر اور وی لاگرز کے بارے میں رائے قائم کرچکے ہیں، یہ ناقابل اصلاح لوگ ہیں، ان کا اہتمام کرنا ہوگا، ریاست کو سوچنا چاہیئے کہ زبردستی محبت نہیں کرائی جاسکتی، چھوٹی باتوں کو اگنور کرنا چاہیئے۔

https://www.islamtimes.org/ur/video/935586/%D8%B3%DB%8C%D9%86%DB%8C%D8%A6%D8%B1-%D8%B5%D8%AD%D8%A7%D9%81%DB%8C-%DA%A9%D8%A7%D9%84%D9%85-%D9%86%DA%AF%D8%A7%D8%B1-%D8%AD%DB%8C%D8%AF%D8%B1-%D8%AC%D8%A7%D9%88%DB%8C%D8%AF-%D8%B3%DB%8C%D8%AF-%DA%A9%D8%A7-%D8%AE%D8%B5%D9%88%D8%B5%DB%8C-%D8%A7%D9%86%D9%B9%D8%B1%D9%88%DB%8C%D9%88
حیدر جاوید سید 1973ء سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں، وہ مصنف اور کالم نگار ہیں، بنیادی تعلق جنوبی پنجاب کے علاقے ملتان سے ہے، انہوں نے ذوالفقار علی بھٹو، ضیاء الحق، محترمہ بےنظیر بھٹو شہید، نواز شریف، پرویز مشرف کے ادوار دیکھے ہیں، ضیاء الحق کے دور میں جیل کی ہوا بھی کھا چکے ہیں، مختلف سماجی و سیاسی ایشوز پر اپنا اظہار خیال کھل کر کرتے ہیں، عالمی حالات پر بھی خاص نگاہ ہے۔ اسلام ٹائمز نے حیدر جاوید سید سے سینیئر اینکر پرسن حامد میر کی توہین آمیز تقریر اور اسکے بعد آزادی صحافت سے متعلق اٹھنے والے سوالات پر ایک تفصیلی انٹرویو کیا ہے، اسکے علاوہ نون لیگ سے متعلق بھی اہم سوالات کیے گئے ہیں
——————

https://www.youtube.com/c/IslamtimesurOfficial/videos
——————

پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی‘ میں بھاری جرمانے اور سزائیں تجویز
———
زبیر علی خان -اردو نیوز، اسلام آباد
حکومت نے ملک میں ذرائع ابلاغ کے لیے پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے نام سے مجوزہ قانون کا ڈرافت تیار کر لیا ہے جسے صدارتی آرڈیننس کے ذریعے نافذ کیا جائے گا۔

پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی (پی ایم ڈی اے) کے آرڈیننس کے نفاذ کے بعد پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی، پریس کونسل آرڈیننس اور موشن پکچرز آرڈیننس منسوخ ہو جائیں گے اور ملک میں کام کرنے والے اخبارات ٹی وی چینلز اور ڈیجیٹل میڈیا پلیٹ فارمز ’پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی‘ کے تحت کام کریں گے۔
تاہم وزیر اطلاعات فواد چوہدری کا مجوزہ آرڈیننس کے حوالے سے کہنا ہے کہ ’میڈیا کے نئے قانون سے صرف فائدہ میڈیا ورکرز کو ہے، جو تنخواہیں نہ ملنے پر اپنے اداروں کے خلاف عدالت سے رجوع کر سکیں گے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’پیپلز پارٹی اور نون لیگ نے اس ترمیم کی پہلے بھی مخالفت کی اور اب بھی کریں گے کیونکہ ان کے مفادات ورکرز سے نہیں سیٹھ کے ساتھ ہیں۔‘

اردو نیوز کے پاس دستیاب مجوزہ قانون کی دستاویزات کے مطابق پاکستان میں اخبارات، ٹی وی چینلز اور ویب چینلز کے علاوہ ڈیجیٹل میڈیا کے لیے بھی لائسنس اور این او سی حاصل کرنا اور تجدید لازمی قرار دی گئی ہے۔
مجوزہ قانون کے مطابق کوئی بھی مواد یا معلومات تحریری، آواز، ویڈیو یا گرافکس کے طور پر انٹرنیٹ کے ذریعے دی جائے ڈیجیٹل میڈیا کے زمرے میں آئے گی۔ اس کے علاوہ ویب ٹی وی اور اوور دی ٹاپ ٹی وی بھی ڈیجیٹل میڈیا کی کیٹگری میں شامل ہوگا۔
پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی آرڈیننس کے تحت لائسنس یافتہ یا رجسٹرڈ میڈیا پلیٹ فارمز پر اس آرڈیننس کی خلاف ورزی کی صورت میں تین سال تک قید اور ڈھائی کروڑ روپے تک کا جرمانہ عائد کیا جا سکتا ہے اور دوبارہ خلاف ورزی کی صورت میں یہ سزا پانچ سال تک بڑھائی جا سکتی ہے۔
سینیئر صحافی محمد ضیاء الدین کے خیال میں اس قانون کے تحت حکومت میڈیا کو ریگولیٹ نہیں بلکہ کنٹرول کرنا چاہتی ہے۔ ‘یہ ریگولیٹری اتھارٹی نظر نہیں آتی بلکہ کنٹرولنگ اتھارٹی نظر آتی ہے۔ یہ میڈیا کو اس قانون کے ذریعے کنٹرول کرنا چاہتے ہیں۔’

انہوں نے کہا کہ پوری دنیا میں ہر جگہ میڈیا ریگولیٹری باڈیز ہوتی ہیں لیکن قوانین بنانے میں ہمیشہ پروفیشنل صحافیوں سے مشاورت کرنا بہت ضروری ہے۔’جب تک صحافیوں سے مشاورت نہیں کی جاتی اس وقت تک اس قسم کی کوئی چیز بننی نہیں چاہیے۔’
محمد ضیاء الدین کے خیال میں کسی صحافتی ادارے کو ریگولیٹری کرنے کے لیے جرمانے تو کیے جاتے ہیں تاہم دنیا میں کہیں بھی ایسا قانون موجود نہیں جس میں سزائیں دی جائیں۔
قانون کے مسودے کے مطابق وفاقی حکومت پی ایم ڈی اے کو کسی بھی معاملے پر ہدایات جاری کر سکتی ہے جبکہ پی ایم ڈی اے حکومتی ہدایات پر عملدرآمد کروانے کی پابند ہوگی۔
پی ایم ڈی اے کے تحت الیکٹرانک میڈیا، پرنٹ اور ڈیجیٹل میڈیا کا علیحدہ علیحدہ ڈائریکٹریٹ قائم کیا جائے گا جو کہ متعلقہ شعبوں کی مانیٹرنگ، لائسنس کے اجرا اور تجدید کو ریگولیٹ کرے گا جبکہ اتھارٹی کے پاس اختیار ہو گا کہ وہ ضرورت کے مطابق ذیلی ونگز تشکیل دے سکے۔
ڈیجیٹل، پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کا لائسنس یا رجسٹریشن کا حامل ادارہ پاکستان کی خودمختاری، سالمیت اور سیکیورٹی کی پابندی یقینی بنائے گا۔ لائسنس یافتہ میڈیا پلیٹ فارم وفاقی حکومت یا اتھارٹی کی ہدایت کے مطابق عوامی مفاد یا معلوماتی پراگرامز نشر کرے گا جس کا کم از کم دورانیہ روزمرہ کی نشریات کے دورانیے کے پانچ فیصد پر مشتمل ہوگا۔
’کسی بھی پروگرام کے دوران اینکرز یا میزبان نظریہ پاکستان، ملکی سلامتی، خودمختاری یا سکیورٹی سے متعلق کسی پراپیگنڈے یا عمل کی تشہیر نہیں کرے گا۔‘

مسودے کے مطابق کوئی ایسا مواد نشر کرنے یا آن لائن کرنے کی اجازت نہیں ہوگی جو ریاست کے سربراہ، آرمڈ فورسز یا عدلیہ کی بدنامی کا باعث بنے۔
’نئے لائسنس یافتہ ادارے لانچنگ سے ایک سال کے عرصے تک سرکاری اشتہارات کے لیے اہل نہیں ہوں گے۔‘
آرڈیننس کے تحت میڈیا کمپلینٹ کونسل بھی تشکیل بھی دی جائے گی جو کہ پراگرامز، خبروں اور تجزوں کے حوالے سے شکایات کا فیصلہ کرے گا تاہم نئے آرڈیننس کے ذریعے کملینٹ کونسل کو بااختیار بناتے ہوئے سول کورٹس کے اختیارات دیے جائیں گے جس کے تحت کونسل کو کسی کی حاضری کے لیے سمن جاری کرنے یا معلومات طلب کرنے کا اختیار ہوگا۔
کونسل 20 روز کے اندر کسی بھی شکایات کے حوالے سے فیصلہ کرنے کی پابند ہوگی۔
آرڈیننس کے تحت ایسے کسی مواد کو نشر کرنے کی اجازت نہیں ہوگی جو عوام میں نفرت پھیلانے کا باعث بنے یا لا اینڈ آرڈر کی صورتحال خراب کرنے کا باعث بن سکتا ہو۔
پاکستان میڈیا ڈویلمپنٹ اتھارٹی کے تحت میڈیا ٹریبونل کا قیام بھی عمل میں لایا جائے گا۔ دس رکنی ٹریبونل کا چیئرمین ہائی کورٹ کے سابق جج کو تعینات کیا جائے گا۔
میڈیا کمپلینٹ کونسل کے فیصلہ کے خلاف اپیلیں سننے کے علاوہ ٹریبونل میڈیا ورکرز کے ویجز پر عملدرآمد کرے گا جبکہ میڈیا ہاوسز کے میڈیا ورکرز کے ساتھ پیشہ ورانہ امور کی نگرانی بھی کرے گا۔
https://www.urdunews.com/node/570281
——————
میڈیا ڈیولپمنٹ اتھارٹی آرڈیننس اپوزیشن نے مسترد کردیا، حکومت کا دفاع
—-

پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن)نے میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی آرڈیننس کو مستردکردیا جبکہ حکومت نے آرڈیننس کا دفاع کیا ہے۔ پیپلزپارٹی کی نائب صدر شیری رحمٰن کا کہنا ہے کہ حکومت میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی آرڈیننس 2021 کے ذریعے میڈیا پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کر رہی ہے،یہ میڈیا مارشل لاء قابل مذمت ہے‘ مسلم لیگ (ن )کی ترجمان مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی آئینی آزادیوں کے قتل کی تیاری ہے جبکہ وزیراطلاعات فواد چوہدری کہتے ہیں کہ پیپلز پارٹی اور نون لیگ نے اس ترمیم کی پہلے بھی مخالفت کی اور اب بھی کریں گے کیونکہ ان کے مفادات ورکرز نہیں سیٹھ کے ساتھ ہیں۔ پیر کو اپنے بیان میں شیری رحمن نے کہاکہ حکومت میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی آرڈیننس 2021 کے ذریعے میڈیا پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کر رہی ہے،یہ میڈیا مارشل لاء قابل مذمت ہے، اس کی بھرپور مخالفت کریگی، جرنلسٹ پروٹیکشن بل اسمبلی سے پاس ہونے کے بعد اس آرڈیننس کی تیاری کرنا حکومت کا دوہرا معیار ہے۔اس اتھارٹی کے تحت میڈیا کی مزید سخت نگرانی کا منصوبہ بن رہا ہے، اس اتھارٹی کے ذریعے صحافیوں کو نکالا جائے گا اور جرمانے لاگو کئے جائینگے۔اس قانون کو ڈیجیٹل پلیٹ فارم پر قابو پانے کے لئے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ادھرمریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی آئینی آزادیوں کے قتل کی تیاری ہے ۔فسطائیت کو قانون کا نام دے کر مسلط کرنے کی مذموم سازش کی جارہی ہے۔میڈیا اتھارٹی غیرآئینی اور آئین کے آرٹیکل 19 کے ساتھ متصادم ہے‘میڈیا اور صحافیوں کے تحفظ اوررائے کی آزادی کے بنیادی حق کے فروغ کا قانون لانے کی بجائے کالا قانون بنایا جا رہا ہے ۔ ہم عمران صاحب کی کالی حکمرانی کی طرح ان کا کالا قانون مسلط نہیں ہونے دیں گے۔دریں اثناء چوہدری فواد حسین نے کہا ہے کہ ‏میڈیا کے نئے قانون کا فائدہ میڈیا ورکرز کو ہے جو تنخواہیں نہ ملنے پر اپنے اداروں کے خلاف عدالت سے رجوع کر سکیں گے۔ پیر کو اپنے بیانمیں انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی اور نون لیگ نے اس ترمیم کی پہلے بھی مخالفت کی اور اب بھی کریں گے کیونکہ ان کے مفادات ورکرز سے نہیں سیٹھ کے ساتھ ہیں۔
https://jang.com.pk/news/935175?_ga=2.68047633.1230883163.1622565939-1121779842.1622565934
——————
پی ایم ڈی اے آرڈیننس، ایسوسی ایشن آف الیکٹرانک میڈیا ایڈیٹرز اینڈ نیوز ڈائریکٹرز کا ہنگامی اجلاس
——-
نئے تجویز کردہ پاکستان میڈیا ڈیولپمنٹ اتھارٹی (پی ایم ڈی اے) آرڈیننس کے حوالے سے ایسوسی ایشن آف الیکٹرانک میڈیا ایڈیٹرز اینڈ نیوز ڈائریکٹرز (ایمینڈ) کا ہنگامی اجلاس بذریعہ ویڈیو لنک طلب کیا گیا۔ جس میں حکومت کی جانب سے بھیجے گئے پی ایم ڈی اے کے ڈرافٹ پر تفصیلی گفتگو ہوئی۔ جس کے بعد فورم نے متفقہ طور پر مجوزہ آرڈیننس کے ڈرافٹ کو مسترد کردیا اور اسے حکومت کی جانب سے میڈیا کو کنٹرول کرنے اور اس پر دبائو ڈالنے کی کوشش قرار دیا۔ اس آرڈیننس کے ذریعے نا صرف میڈیا آزادی کو سلب کیا جائے گا بلکہ اس کے ذریعے حکومت آزاد میڈیا پر دبائو ڈال کر اسے جھکنے پر بھی مجبور کرے گی۔ ایمینڈ نے مجوزہ آرڈیننس کو ڈریکونین قانون قرار دیتے ہوئے ہر سطح پر اس کے خلاف مزاحمت کا اعلان کیا جس میں قانونی راستہ بھی شامل ہے۔ جب کہ اجلاس میں یہ فیصلہ بھی کیا گیا کہ ایک کمیٹی تشکیل دی جائے جو پی بی اے، پی ایف یو جے، سی پی این ای اور اے پی این ایس کے عہدیداران سے ملاقاتیں کرے اور تمام باڈیز کو مجوزہ قانون پر مشترکہ بیانیہ اور منصوبہ تشکیل دینے کی ترغیب دے۔ ایمینڈ وفد کا منصوبہ یہ بھی ہے کہ وہ فاقی حکومت کے نمائندگان سے ملاقات کرے اور انہیں اپنے تحفظات اور اعتراضات سے آگاہ کرے۔
https://jang.com.pk/news/935229?_ga=2.92754461.1230883163.1622565939-1121779842.1622565934
———————
صحافیوں پر حملے، یہ معاملہ کوئی اور ہے
وہ کون لوگ تھے جو صحافی اسد طور کے گھر میں گھسے اور ان پر تشدد کر کے چلے گئے؟ لگتا ہے بہت سے حلقے ہیں جو اس سوال کا جواب ہی نہیں چاہتے۔

نسیم زہرہ
———–

یہ معاملہ صحافیوں کو ایک قانون کے تحت چلانے کا نہیں ہے اور نہ یہ معاملہ پاکستان کی بقا کا ہے، نہ پاکستان کی سالمیت کا ہے اور نہ یہ صحافت کو ایک بہتر طریقے سے آگے بڑھانے کا ہے۔ یہ معاملہ یقیناً کوئی اور ہے۔

یہ معاملہ ان قوتوں کے حق میں ہے جو پوشیدہ ہیں اور سامنے نہیں آتیں۔ جن کا نام نہیں لیا جاتا، جن کے بارے میں کچھ مصدقہ بات نہیں کی جاتی، قانون کے زاویے میں نہیں کی جاتی۔ لیکن ان قوتوں کا ایک کردار ہے جو صحافت کے حوالے سے اہم ہے۔

یہ قوتیں صحافیوں پر قدغن لگانا چاہتی ہیں، ان کو ڈرانا چاہتی ہیں اور ان کو کنٹرول کرنا چاہتی ہیں۔

یہ بات ٹھیک ہے کہ صحافت کو کسی پیرائے میں کام کرنا ہے۔ کسی پیرائے میں آپ کہیں گے کہ صحافت ہو اور وہ قانونی سیاق و سباق میں ہونی ہے۔ ایسا سیاق و سباق جو ہمارے آئین کے مطابق ہو۔ اس دائرہ کار کے اندر رہ کر اگر صحافت ہو تو اس حد تک تو یہ ٹھیک ہے کہ صحافت کو شفاف ہونا ہے۔

مسئلہ یہ ہے کہ بات اس نوعیت کی نہیں ہے۔ مسئلہ کی نشاندہی قانونی دائرہ کار میں ہونا یا نہ ہونے کے حوالے سے نہیں ہے۔ آپ یہ نہیں سنتے کہ یہ قانون ہے صحافی اس کے خلاف گئے یا صحافیوں نے اس قانون سے ہٹ کر اپنا کام کیا۔ تو اس لیے ان کو آپ لے جائیں عدالت میں ان کی پوچھ گچھ کرائیں اور ان کا ٹرائل کرائیں۔

یہ تو بہت کم ہوتا ہے۔ یہ جب ہوتا ہے تو اس کی خبر اتنی نہیں بنتی۔ یہ جب ہوتا ہے تو اخباروں اور ٹیلی ویژن پر جرمانہ عائد ہو جاتا ہے۔ چینلز کو کئی کئی دن بند کر دیا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ انہوں نے پیمرا کے قوانین کی خلاف ورزی کی۔

وہ بہرحال اور بات ہے کہ قوانین کو جب لاگو کیا جاتا ہے تو وہ صحیح نہیں کیا جاتا۔ اس میں بہت سے سوال اٹھتے ہیں۔ اسی وجہ سے پیمرا نے کئی مرتبہ چینلز کو جب سزا دی تو چینلز عدالت میں چلے گئے۔ اس میں اونچ نیچ ہوتی رہتی ہے۔ کبھی چینلز کہتے ہیں کہ ہمارے ساتھ زیادتی ہوئی جیسے کہ چینل 24 نے بہت مرتبہ کہا۔

ہمیشہ چینل اپنے دفاع میں اٹھتے ہیں، اخبارات اپنے دفاع میں بات کرتے ہیں اور پھر ایک نظام ہے جس میں عدالت کا بھی کردار ہے۔ پیمرا اور دیگر اداروں کا بھی کردار ہے۔ یہاں تک تو بات ٹھیک ہے اور صاف ہے۔

لیکن صحافیوں کو اٹھانا یا ان کی مارپیٹ کر کے کہیں پھینک دیا جانا یا ان کے گھروں میں جا کر ان کو مارا جانا یا پھر گولی ماری جائےاور ان کا تعاقب کیا جائے تو یہ اصل معاملہ ہے، جس پر ہمیں سوچنا ہوگا۔

ہم دیکھ رہے ہیں کہ تین روز پہلے بلاگر اور صحافی اسد علی طور جو اپنے بلاگز میں بہت کچھ کہتے رہے ہیں۔ یہ باتیں کئی قوتوں کو پسند بھی نہیں آئیں اور ان کو پیغام بھی بھجوایا گیا کہ آپ یہ نہ کریں۔ اپنے تئیں اسد طور نے جو کرنا تھا وہ کیا۔ وہ مختلف موضوعات جن کا مقتدر حلقوں سے تعلق تھا بلاگز کر رہے تھے۔

تو پھر آخر ہوا یہ کہ اسلام آباد کے سیکٹر ایف الیون میں ان کے اپارٹمنٹ میں جا کر تین لوگوں نے انہیں زدوکوب کیا، ان کے ہاتھ پیر باندھے، ان کے منہ میں کپڑا ٹھونس دیا اور انہیں چھوڑ کر چلے گئے۔

اسد طور بتاتے ہیں کہ انہیں بولا کہ یہ کہو وہ کہو اور انہیں دھمکیاں بھی دیں اور ان سے نعرے بھی لگوائے۔ بات یہ ہے کہ اسد طور جو ایک خاص نوعیت کی اپنی بلاگنگ کر رہے تھے ظاہر ہے یہ سوال اٹھے گا کہ جن لوگوں نے پیغام بھجوائے کیا انہوں نے ہی یہ کیا ہے؟

وہ کون لوگ تھے جو صحافی کے گھر میں گھسے اور ان پر تشدد کر کے چلے گئے؟ لگتا ہے بہت سے حلقے ہیں جو اس سوال کا جواب ہی نہیں چاہتے۔ اس سوال کے جواب میں سب سے پہلا قدم درج ایف آئی آر کے تحت ان تین افراد کو گرفتار کیا جائے جن کے چہرے سی سی ٹی وی فوٹیج میں واضح طور پر دیکھے جا سکتے ہیں۔ جن کو اسد طور پہچان سکتے ہیں۔

بجائے اس کے کہ اس طرف قدم بڑھایا جائے اسد طور کے حوالے سے بہت سی اور باتیں نکل آئیں کہ ان کی کسی خاتون سے دوستی تھی، ان کے بھائیوں نے مارا ہے پھر یہ کہ اسد طور کے خلاف کیس ہے، اسد طور نے خواتین کے حوالے سے بہت غلط باتیں کی ہیں، وہ کوئی فرشتہ نہیں ہے وغیرہ وغیرہ۔


اسد طور نے شاید سو غلطیاں کی ہوں ہم نہیں جانتے۔ اگر کچھ کیا ہے تو اس سے قوانین کے تحت پوچھ گچھ ہونی چاہیے لیکن اس سے ہٹ کر گھر میں گھس کر ان کو باندھ کر مارا گیا ہے تو سوال تو بنتا ہے۔ اور اس سوال کا جواب ہر صورت ملنا چاہیے۔

چاہے ابصار عالم ہوں یا مطیع اللہ جان ہوں، صحافیوں کے ساتھ ایسا ہونا بالکل غلط ہے۔ پتا چلنا چاہیے کہ یہ کون کر رہا ہے کیونکہ اگر ایک طرف صحافیوں کے حوالے سے یہ بات صحیح ہے کہ آپ بات کریں تو کسی بنیاد اور ثبوت پر بات کریں۔ آپ کی بات مصدقہ ہونی چاہیے۔

اسی طریقے سے یہ اس سے بھی زیادہ لازم ہے کہ یہ نہ ہو کہ پاکستان میں کچھ ایسے حلقے ہوں جو یہ سمجھتے ہوں کہ ان کےحوالے سے صحافی کوئی بات کریں تو ان کو پہلے دھمکی دی جائے اور بعد میں مارا جائے۔

کہیں سلیم شہزاد جیسا صحافی ہے تو اس کو ختم بھی کر دیا جائے اور ایسا کرنے والوں کو کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ کوئی بات کی تہہ تک پہنچنے والا نہیں ہے۔ اگر یہ سلسلہ اس طرح ہی چلے گا تو پھر پاکستان کا ایک حصہ تو جیسے جنگل کی طرح ہوگا۔

جہاں ایک قسم کی دہشت پھیلا کر صحافیوں کو خاموش کرائیں ایسا بالکل نامنظور ہے۔ اس بات کو روکنا ہوگا اور اس چیز کی شروعات اسد طور کے مقدمے کو کسی نتیجے پر پہنچا کر کرنی ہوگی۔

ان لوگوں کی نشاندہی ہر صورت ہونی چاہیے جنہوں نے اس کو مارا ہے۔ اس بات کایقین دلانا ہوگا کہ جو بھی ملزمان ہیں دہشت گرد ہیں ان کو قانون کے کٹہرے میں لانا پڑے گا۔ جہاں تک صحافیوں کا قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے کام کرنا ہے اس سے تو کوئی انکار نہیں کر سکتا۔
————-
https://www.independenturdu.com/node/68901/attack-journalists-whats-behind