ایران کے اہم ترین صدارتی الیکشن پر ایک نظر

اسلام ٹائمز: تا دم تحریر الیکشن کے ممکنہ نتائج سے متعلق کوئی حتمی بات نہیں کہی جاسکتی، کیونکہ تاحال دستبرداری اور کسی بھی امیدوار کے حق میں ریٹائرڈ ہونے کا آپشن ان ساتوں امیدواروں کو حاصل ہے۔ تاحال یہ سات امیدوار ووٹرز کو سات حصوں میں منقسم رکھنے کا سبب ہیں۔ البتہ بنیادی طور پر وہ گروپ جو اعتدال گرا یا اصلاح طلبان کہلاتا ہے، وہ دو امیدواروں میں تقسیم ہے، جبکہ انکے سیاسی حریف پانچ امیدواروں میں تقسیم ہیں۔ چونکہ اصلاح طلبان اور اعتدال گرا دونوں ہی صدر روحانی کے دور صدارت میں حکمرانی کے مزے لوٹ چکے ہیں، اس لیے انکی حیثیت فطری طور پر نسبتاً کمزور ہے، کیونکہ روحانی حکومت کے دور میں ایران بدترین نوعیت کی تاریخی بدحالی کا شکار ہوا ہے۔ مہنگائی اور بے روزگاری میں بدترین اضافہ ایک عام ایرانی کیلئے تباہ کن ثابت ہوا ہے۔
تحریر: عرفان علی

انقلاب اسلامی کے بعد ایران میں اب تک بارہ مرتبہ صدارتی انتخابات کا انعقاد ہوچکا ہے۔ تیرہویں مرتبہ صدارتی معرکہ 18 جون 2021ء بروز جمعہ منعقد ہوگا۔ یہ تحریر ایران کے صدارتی الیکشن کی ایک مختصر تاریخ اور اس پس منظر میں تیرہواں صدارتی الیکشن لڑنے والے امیدواروں سے متعلق اہم معلومات پر مشتمل ہوگی۔ اس موضوع پر 31 مئی 2021ء کی شب سحر اردو ٹی وی کے سیاسی ٹاک شو انداز جہاں میں میزبان اینکر سید علی عباس رضوی صاحب کے سوالات کے جواب میں اپنی رائے اجمالی طور پر پیش کرچکا ہوں۔ یہاں مزید تفصیل پیش خدمت ہے۔ یاد رہے کہ انقلاب کے بعد ایران میں اسلامی جمہوریت کا نظام ٹرانزیشن کے عمل سے گذرا۔ آئین کو عوامی ریفرنڈم کے ذریعے منظور کیا گیا۔ شروع میں ایک عبوری حکومت قائم ہوئی اور ایک سال سے بھی کم عرصے میں پہلا صدارتی الیکشن ایرانی ہجری شمسی کیلنڈر کے مطابق سال 1358 ہجری شمسی کے ماہ بھمن کی پانچویں تاریخ (25 جنوری 1980ء) کو منعقد ہوا۔ صوبہ ھمدان کے علاقے باغچہ سے تعلق رکھنے والے ابوالحسن بنی صدر پہلے صدر بنے، لیکن 17 مہینے کی صدارت کے دوران ہی اس وقت کی پارلیمنٹ نے ان کا مواخذہ کرکے عہدے سے معزول کر دیا تھا۔ تب علی اکبر ہاشمی رفسنجانی صاحب پارلیمنٹ کے اسپیکر تھے۔

بنی صدر کی صدارت میں عراق کے ڈکٹیٹر صدام حسین کے حکم پر صدامی افواج نے ایران پر یلغار کرکے جارحیت اور جنگ کا آغاز کر دیا تھا۔ اس وقت بنی صدر بحیثیت صدر ایران، ایرانی افواج کے سپریم کمانڈر تھے، لیکن انہوں نے اس حوالے سے اپنی ذمے داری انجام نہیں دی بلکہ داخلی سطح پر ایران میں افراتفری کو ہوا دی۔ وہ ایران کے آئین کے تحت اپنے فرائض کی انجام دہی میں ناکام رہے تھے۔ اس نوعیت کی بہت سی وجوہات کی بنیاد پر 31 خرداد سال 1360 ہجری شمسی کو انکی معزولی کے حکم کی پارلیمنٹ نے منظوری دی تھی۔ سزا سے بچنے کے لیے بنی صدر ملک سے فرار ہوگئے۔ خود ساختہ جلاوطنی کی زندگی کے لیے انہوں نے فرانس کو منتخب کیا۔ دوسری طرف ایران کی قیادت اور آئینی اداروں کے اسٹیک ہولڈرز نے بنی صدر کے تلخ تجربے سے سبق سیکھا۔ انقلابی ایران کی سیاسی تاریخ میں امام خمینی ؒ کا ایک جملہ بہت مشہور ہوا، جس کا مفہوم یہ تھا کہ امام خمینی نے انقلاب کو نامحرموں کے چنگل سے بچانے کی تاکید کی۔

ان دنوں ایران میں وزیراعظم کا عہدہ بھی ہوا کرتا تھا۔ 2 مرداد 1360 (24 جولائی 1981ء) کو الیکشن کے نتیجے میں قزوین کے علاقے دارالمومنین سے تعلق رکھنے والے محمد علی رجائی صدر منتخب ہوئے۔ بعد میں کرمان سے تعلق رکھنے والے عالم دین جواد باھنر وزیراعظم بنے۔ گیارہ مرداد 1360 ھجری شمسی (2ا گست 1981ء) کو رجایی صاحب کی تقریب حلف برداری ہوئی۔ اگلے ماہ شھریور 1360 ھجری شمسی کی آٹھویں تاریخ (یعنی 30 اگست 1981ء) کو وزیراعظم کے دفتر میں بم دھماکے میں محمد علی رجایی اور جواد باھنر دونوں شہید ہوگئے، یعنی دہشت گردوں کی جانب سے کیے گئے بم دھماکے کی وجہ سے شہادت ہوئی اور یوں وہ کم ترین مدت یعنی ایک مہینے سے بھی کم مدت کے لیے ایران کے صدر رہے۔ انقلاب کے بعد تیسرا صدارتی الیکشن 2 اکتوبر 1981ء کو ہوا۔ آیت اللہ سید علی حسینی خامنہ ای صدر منتخب ہوئے۔ ان کا آبائی تعلق تو صوبہ آذربائیجان سے تھا، لیکن ان کے والد مشھد میں مقیم رہے۔ وہیں خامنہ ای صاحب کی ولادت ہوئی۔ چوتھا صدارتی الیکشن 25 مرداد 1364 ھجری شمسی یعنی 16 اگست 1985ء کو ہوا۔ آیت اللہ خامنہ ای صاحب دوسری مرتبہ ایران کے صدر منتخب ہوئے۔

امام خمینی ؒ کی رحلت کے بعد آیت اللہ سید علی حسینی خامنہ ای مقام معظم رہبری (ولی فقیہ) کے منصب پر فائز ہوئے تو صدارتی منصب خالی ہوا۔ یوں پانچواں صدارتی الیکشن امام خمینیؒ کی رحلت کے بعد کا پہلا صدارتی الیکشن قرار پایا۔ ایک اور زاویے سے دیکھیں تو امام خامنہ ای صاحب کے عہدہ رہبری کے آغاز کے بعد وہ پہلا صدارتی الیکشن تھا۔ حجت الاسلام علی اکبر ہاشمی رفسنجانی جو پارلیمنٹ کے اسپیکر تھے، وہ 6 مرداد 1368 ہجری شمسی (28 جولائی 1989ء) کو ہونے والے الیکشن میں صدر منتخب ہوئے۔ چھٹا صدارتی الیکشن 21 خرداد 1372 ھجری شمسی (11 جون 1993ء) کو منعقد ہوا، تب رفسنجانی صاحب دوسری مرتبہ ایران کے صدر منتخب ہوئے۔ 2 خرداد 1376 ھجری شمسی (23 مئی 1997ء) کو ساتویں صدارتی الیکشن میں محمد خاتمی پہلی مرتبہ ایرانی صدر منتخب ہوئے۔ اٹھارہ خرداد 1380 ھجری شمسی (8 جون 2001ء) کو آٹھویں ایرانی صدارتی الیکشن میں وہ دوسری مرتبہ صدر منتخب ہوئے۔

نواں صدارتی معرکہ 27 خرداد 1384 ھجری شمسی بمطابق 17 جون 2005ء کو ہوا۔ دسواں صدارتی انتخابی مقابلہ 22 خرداد 1388 ھجری شمسی (12 جون 2009ء کو ہوا)۔ ان دو الیکشن میں محمود احمدی نژاد پہلی اور دوسری مرتبہ صدر منتخب ہوئے۔ چوبیس خرداد 1392 ھجری شمسی (14 جون 2013ء) کو گیارہویں صدارتی الیکشن کا انعقاد ہوا۔ حجت الاسلام ڈاکٹر حسن روحانی پہلی مرتبہ صدر منتخب ہوئے۔ 29 اردیبھشت 1396 ھجری شمسی (19 مئی2017ء) کو بارہویں صدارتی الیکشن میں حسن روحانی دوسری مرتبہ صدر منتخب ہوئے۔ انقلاب اسلامی کے بعد کے ایران میں اب تک جو بارہ مرتبہ صدارتی الیکشن ہوئے ہیں، یہ اس کی ایک مختصر روداد ہے، یعنی تیسرے صدارتی الیکشن سے بارہویں صدارتی الیکشن تک ہر صدر دو مرتبہ صدر منتخب ہوا۔ یوں سات افراد ایران کے صدر رہ چکے ہیں اور اب 18 جون 2021ء (مطابق 28 خرداد 1400 ھجری شمسی) کو تیرہواں صدارتی الیکشن ہو رہا ہے، جس میں سات امیدوار مقابلے کے اہل قرار دیئے گئے ہیں۔ میری نظر میں یہ صدارتی الیکشن انقلابی ایران کی تاریخ کا اہم ترین صدارتی الیکشن ہونے جا رہا ہے۔ چند ایسی وجوہات ہیں، جو اس صدارتی معرکے کو ماضی کی نسبت زیادہ اہم بنا دیتی ہیں۔

سب سے پہلی وجہ یہ ہے کہ ایران میں ہجری شمسی کیلنڈر رائج ہے، یعنی اسلامی شمسی کیلنڈر کے مطابق ایران اب نئی صدی میں داخل ہو رہا ہے۔ دنیا بھر میں زیادہ تر عیسوی (میلادی) کیلنڈر رائج ہے۔ یعنی امریکا سمیت دنیا کے دیگر ممالک سال 2001ء میں اکیسویں صدی میں داخل ہوچکے۔ لیکن اسلامی شمسی کیلنڈر کے مطابق 14 صدیاں اب تمام ہوئی ہیں۔ ہجری قمری اسلامی کیلنڈر کے مطابق 14 صدیاں تمام ہوتے وقت ایران میں اسلامی انقلاب کامیاب ہوا تھا۔ یہ اس کی ایک اہمیت ہے۔ دوسری اہمیت یہ ہے کہ حاج قاسم سلیمانی کی شہادت کے بعد یہ پہلا ایرانی صدارتی الیکشن ہے۔ تیسری اہمیت اشارتاً عرض کرتا چلوں کہ یہ نظام ولایت فقیہ اور اسلامی جمہوریت کے مستقبل کے حوالے سے بہت زیادہ اہمیت کا حامل الیکشن ہے۔ اس الیکشن میں سات امیدواروں میں سب سے زیادہ عمر رسیدہ شخصیت محسن رضایی میر قائد کی ہے۔ ان کا آبائی تعلق صوبہ خوزستان سے ہے۔ پاسداران انقلاب اسلامی ایران کے اولین سربراہ تھے۔ آجکل مجمع تشخیص مصلحت نظام کے سیکریٹری کے اہم عہدے پر فائز ہیں۔

سات امیدواروں میں سب سے کم عمر پچاس سالہ سید امیر حسین قاضی زادہ ہاشمی ہیں۔ ان کا آبائی تعلق صوبہ خراسان رضوی سے ہے۔ پاکستان میں جب کوئی ڈاکٹر کہتا ہے تو سب سے پہلے اس سے مراد طب کے شعبے کا ڈاکٹر ہوتا ہے۔ اس لحاظ سے وہ ایک ڈاکٹر ہیں اور ان کا خاص شعبہ ای این ٹی ہے۔ سیاسی لحاظ سے کہیں تو ماضی میں جبھہ پائیداری انقلاب اسلامی سے تعلق رہا ہے، لیکن اب وہ کسی جماعت میں نہیں۔ اس وقت ایرانی پارلیمنٹ کے ڈپٹی اسپیکر ہیں۔ پاکستانی اصطلاح میں کہیں تو آزاد امیدوار ہیں۔ بقیہ پانچ امیدواروں میں ایک چیف جسٹس آیت اللہ سید ابراہیم رئیسی ہیں۔ وہ الیکشن میں حصہ لینا نہیں چاہتے تھے، لیکن ایران کے بڑے نامی گرامی علماء اور خواص پر مشتمل قائدین کی زیر قیادت چلنے والے بڑے بڑے گروہوں (شورائے ائتلاف و دیگر) نے ان کا نام عوام کے سامنے پیش کر دیا کہ وہ ان کے حمایت یافتہ اور تائید یافتہ امیدوار ہوں گے۔ بہت سوں نے یہ کہا کہ اگر وہ امیدوار ہوں تو ان کے حق میں دستبردار ہو جائیں گے۔

یوں آیت اللہ رئیسی پر اخلاقی دباؤ بڑھا، جس کی وجہ سے انہیں نہ چاہتے ہوئے بھی صدارتی الیکشن میں امیدوار بننا پڑا۔ ان کا تعلق بھی صوبہ خراسان رضوی سے ہی ہے۔ ایران کے برجستہ علماء میں ان کا شمار ہوتا ہے۔ حوزہ علمیہ قم سے فارغ التحصیل ہیں۔ ان کے اساتذہ میں امام خامنہ ای صاحب بھی شامل ہیں۔ دیگر اساتذہ میں ایک آیت اللہ علی مشکینی کا نام بھی قابل ذکر ہے۔ حوزوی تعلق کی وجہ سے وہ جامعہ روحانیت مبارز سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کے سامنے آنے سے پہلے سعید محمد کا نام ایک تگڑے امیدوار کے طور پر سامنے آرہا تھا، لیکن ایران کے الیکشن کمیشن و محکمہ قانون ٹائپ ٹو ان ون ادارے شورایٰ نگھبان نے جہاں دیگر نامور امیدواروں کو صدارتی الیکشن لڑنے کے لیے نااہل قرار دیا، وہیں سعید محمد بھی نااہل قرار پائے۔ البتہ سعید محمد نے آیت اللہ ابراہیم رئیسی کی حمایت کا رسمی اعلان کر دیا ہے۔ بعض دیگر نامور شخصیات پہلے ہی ان کی حمایت کا اعلان کر چکی ہیں۔ یوں ان کی حیثیت مستحکم نظر آتی ہے۔

ان کے علاوہ ایک امیدوار 55 سالہ علی رضا زاکانی ہیں۔ ان کا تعلق جنوب شھر تھران سے ہے۔ ننھیالی اجداد کا تعلق کاشان سے رہا ہے۔ سیاسی لحاظ سے جمعیت رھپویان انقلاب اسلامی سے وابستہ ہیں۔ ددھیالی لحاظ سے پہلوان خاندان سے تعلق ہے۔ ایک لحاظ سے صحافت سے بھی گہرا تعلق ہے، کیونکہ وہ جھان نیوز نامی ویب سائٹ چلا رہے ہیں۔ غالباً ایک ہفت روزہ بھی شائع کرتے ہیں۔ اس مرتبہ صدارتی الیکشن میں ایک اور مرتبہ سعید جلیلی امیدوار ہیں۔ یہ بھی تقریباً زاکانی صاحب کے ہم عمر ہی ہیں۔ یہ بھی قاضی زادہ ہاشمی اور آیت اللہ رئیسی کی طرح مشھدی ہیں۔ ایران کی اعلیٰ ترین نیشنل سکیورٹی کاؤنسل کے مسئول رہ چکے ہیں۔ موجودہ صدر حسن روحانی بھی خاتمی دور صدارت میں اس عہدے پر فائز رہ چکے ہیں۔ یوں جلیلی صاحب اور روحانی صاحب میں ایک اور قدر مشترک یہ ہے کہ دونوں ایک دور میں ایران کے نیوکلیئر پروگرام پر بین الاقوامی مذاکرات میں ایران کی مذاکراتی ٹیم کی قیادت کرچکے ہیں۔ نائب وزیر خارجہ بھی رہ چکے ہیں۔ یہ بھی آزاد امیدوار ہیں۔ ان کے علاوہ دو امیدوار محسن علی مھرزادہ اور عبدالناصر ہمتی ہیں۔ یہ دونوں سیاسی لحاظ سے مرحوم رفسنجانی صاحب، سابق صدر خاتمی اور موجودہ صدر حسن روحانی کے گروپ سے وابستہ ہیں۔

یاد رہے کہ آیت اللہ ابراہیم رئیسی ساٹھ اکسٹھ برس کے ہوں گے، جبکہ عبدالناصر ھمتی کی عمر 64 برس اور محسن مھر علیزادہ کی عمر لگ بھگ 65 چھیاسٹھ کے درمیان ہوگی۔ عبدالناصر ہمتی کا آبائی تعلق صوبہ ہمدان سے ہے۔ وہ رفسنجانی صاحب کے دور صدارت سے میدان سیاست میں فعالیت رکھتے ہیں۔ بنیادی طور پر اقتصاد ان کا شعبہ ہے۔ گو کہ ہاشمی رفسنجانی صاحب نے اپنی زندگی ہی میں صدر روحانی کو مشورہ دیا تھا کہ ہمتی صاحب کو اقتصادی عہدہ دیں، لیکن تب وہ ٹال گئے تھے، لیکن بعد ازاں انہوں نے ایران کے مرکزی بینک کی قیادت عبدالناصر ہمتی کے حوالے کی۔ یعنی ایران کے اسٹیٹ بینک یا سینٹرل بینک کے گورنر کا عہدہ۔ محسن مھر علیزادہ کا آبائی تعلق آذربائیجان شرقی صوبے سے ہے۔ انہوں نے اعلیٰ تعلیم ہالینڈ کی تلبرگ یونیورسٹی سے حاصل کی ہے۔ وہ خاتمی دور صدارت میں خراسان کے گورنر تھے۔ موجودہ صدر روحانی کے دور میں وہ اصفھان کے گورنر رہ چکے ہیں۔ خاتمی دور صدارت کے نائب صدر ڈاکٹر محمد رضا عارف نے صدارتی الیکشن کی دوڑ سے دستبرداری کا اعلان کر دیا تھا۔ اب محسن مھر علیزادہ اور عبدالناصر ہمتی دونوں ہی رفسنجانی صاحب کے جانشین روحانی اور خاتمی صاحبان کے گروپس کی حمایت کے طلبگار ہیں، گو کہ ان کا تعلق اسی ٹرائیکا گروپ سے ہے، جس میں سے رفسنجانی صاحب انتقال فرما چکے۔

تا دم تحریر الیکشن کے ممکنہ نتائج سے متعلق کوئی حتمی بات نہیں کہی جاسکتی، کیونکہ تاحال دستبرداری اور کسی بھی امیدوار کے حق میں ریٹائرڈ ہونے کا آپشن ان ساتوں امیدواروں کو حاصل ہے۔ تاحال یہ سات امیدوار ووٹرز کو سات حصوں میں منقسم رکھنے کا سبب ہیں۔ البتہ بنیادی طور پر وہ گروپ جو اعتدال گرا یا اصلاح طلبان کہلاتا ہے، وہ دو امیدواروں میں تقسیم ہے، جبکہ ان کے سیاسی حریف پانچ امیدواروں میں تقسیم ہیں۔ چونکہ اصلاح طلبان اور اعتدال گرا دونوں ہی صدر روحانی کے دور صدارت میں حکمرانی کے مزے لوٹ چکے ہیں، اس لیے ان کی حیثیت فطری طور پر نسبتاً کمزور ہے، کیونکہ روحانی حکومت کے دور میں ایران بدترین نوعیت کی تاریخی بدحالی کا شکار ہوا ہے۔ مہنگائی اور بے روزگاری میں بدترین اضافہ ایک عام ایرانی کے لیے تباہ کن ثابت ہوا ہے۔

یہی وجہ تھی کہ پارلیمانی انتخابات میں روحانی و خاتمی صاحبان کے سیاسی مخالفین اکثریت سے جیت گئے اور ڈاکٹر باقر قالیباف اسی وجہ سے پارلیمنٹ کے اسپیکر منتخب ہونے میں کامیاب ہوگئے۔ لہٰذا نفسیاتی لحاظ سے بھی روحانی و خاتمی صاحبان کے مخالفین کا پلڑا بھاری ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ اٹھارہ جون یعنی انتخابی معرکہ کے دن تک ان سات امیدواروں میں سے کتنے دستبردار یا ریٹائرڈ ہوتے ہیں۔ یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ ان میں جس امیدوار کی عمر سب سے کم ہے، وہ سید امیر حسین قاضی زادہ ہاشمی ہیں۔ اگر دولت جوان یعنی جوان حکومت یا جوان صدر کی حکومت مراد ہے تو اس مقابلے میں تا دم تحریر وہ پورا اترتے ہیں! جبکہ آیت اللہ رئیسی واحد عالم دین ہیں۔ سادہ زیستی کا یہ عالم ہے کہ 140 میٹر رقبے کے گھر میں رہتے ہیں اور ایک گاڑی ہے، وہ بھی ان کی بیگم کی ہے اور ایرانی ساختہ ہے۔ اس لحاظ سے یہ صدارتی الیکشن بہت دلچسپ ہوچکا ہے۔
————————–
https://www.islamtimes.org/ur/article/935623/%D8%A7%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D9%86-%DA%A9%DB%92-%D8%A7%DB%81%D9%85-%D8%AA%D8%B1%DB%8C%D9%86-%D8%B5%D8%AF%D8%A7%D8%B1%D8%AA%DB%8C-%D8%A7%D9%84%DB%8C%DA%A9%D8%B4%D9%86-%D9%BE%D8%B1-%D8%A7%DB%8C%DA%A9-%D9%86%D8%B8%D8%B1