اندرون بھاٹی گیٹ کے بازار حکیماں کی ایک تاریخی اور علمی افادیت


اصغر علی عاجز (اسپی
——————

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
معروف قانون دان، رائٹر، محقق، دانشور، وفاقی شرعی عدالت کے جج سید افضل حیدر کا کہنا ہے کہ ان کے نانا کے دادا حکیم گل محمد معروف طبیب تھے ان کی رہائش اندرون بھاٹی گیٹ تھی اس وجہ سے اس کا نام بازار حکیماں رکھا گیا۔ جسٹس سید افضل حیدر کا تعلق پاکپتن سے ہے ۔

ایک روز جسٹس سید افضل حیدر نے چونکا دیا کہ ان کی پیدائش بازارِ حکیماں اندرون بھاٹی گیٹ لاہور میں ہوئی۔ ایک محاورہ بہت مشہور ہے ”زمین جنبد، نہ جنبد گل محمد“ اس کے معنی یہ ہیں کہ زمین اپنی جگہ سے ہل سکتی ہے مگر گل محمد اپنی جگہ سے نہیں ہلے گا۔ حکیم گل محمد، جسٹس سید افضل حیدر کے جد امجد تھے، اس لئےجسٹس صاحب نے محاورے کا پس منظر بتایا کہ جب حکیم گل محمد بھاٹی گیٹ میں مقیم تھے تو یہ رنجیت سنگھ کا دور تھا۔ رنجیت سنگھ کی پشت پر پھوڑا نکل آیا، کئی طبیبوں نے علاج کیا مگر پھوڑا ٹھیک نہ ہوا۔ کسی نے رنجیت سنگھ کو حکیم گل محمد کے بارے میں بتایا کہ وہ نامور حکیم ہیں اور ان کے ہاتھ میں شفا ہے۔ رنجیت سنگھ نے حکیم صاحب کو پیغام بھجوایا کہ میرے پھوڑے کا علاج کیا جائے۔ حکیم گل محمد نے پیغامبر کو کہا کہ رنجیت سنگھ کو علاج کے لئے میرے مطب پر آنا ہو گا۔

رنجیت سنگھ نے دوبارہ چند درباریوں کو تحریر کے ساتھ بھجوایا کہ میں تنگ بازار میں نہیں آ سکوں گا۔ میرا علاج میرے پاس آ کر کیا جائے۔ تندرست ہونے پر آپ کو منہ مانگا انعام دیا جائے گا۔ حکیم گل محمد نے رنجیت سنگھ کی تحریر پڑھ کے اسی کاغذ پر یہ جملہ لکھ دیا ” زمین جنبد، نہ جنبد گل محمد“ کہا جاتا ہے کہ یہ جملہ پڑھ کے رنجیت سنگھ ہاتھی پر بیٹھ کر خود حکیم گل محمد کے پاس آیا تھا۔ حکیم گل محمد نے رنجیت سنگھ کا علاج کیا اور اس کا پھوڑا ٹھیک ہو گیا۔ رنجیت سنگھ جب تک زندہ رہا، روزانہ پانچ روپے اور پانچ من حلوہ پکوا کر حکیم گل محمد کے مطب بھیجتا تھا۔ حکیم صاحب حلوہ غریبوں میں تقسیم کر دیتے۔

حکیم گل محمد کے کزن فقیر عزیز الدین، رنجیت سنگھ کے وزیر تھے۔ اس خاندان کے بعض دوسرے افراد بھی اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے۔ فقیر صاحبان ، صوفی منش، علم دوست، مخیر اور شریف لوگ تھے۔ ان کے والد فقیر محی الدین سلسلہ قادریہ نوشاہیہ کے ایک مقتدر شیخ تھے۔ اس خاندان کی اولاد اب تک لاہور میں موجود ہے جن میں فقیر سید مغیث الدین ہر طرح سلف صالحین کی یادگار ہیں۔

سید افضل حیدر کی پیدائش 1931ءمیں لاہور میں ہوئی، مگر پرورش پاکپتن میں ہوئی، حویلی لکھا کے ساتھ چک سید والا میں شاہ جی کے دادا مقیم تھے، اس لئے ان کے والد کو وہاں جانا پڑا۔ سید افضل حیدر کے والد نے پاکپتن میں لاءپریکٹس شروع کی ۔ ان کے والد نے ایم اے انگلش گورنمنٹ کالج لاہور سے کیا۔ پطرس بخاری ان کے کلاس فیلو تھے۔ 1921ءمیں وہ لاہور سے پاکپتن شفٹ ہو گئے۔

رنجیت سنگھ نے حکیم گل محمد اور فقیر خاندان سے دریافت کیا کہ ایسا طریقہ اختیار کیا جائے کہ پنجاب پڑھا لکھا ہو جائے۔ اس سلسلے میں قاعدہ نور تیار کیا گیا جو بازار حکیماں میں لکھا گیا۔ اس قاعدے میں حساب سے لیکر علم کی دوسری جانکاری بھی دی گئی تھی تاکہ عام اور کم پڑھا لکھا شخص آسانی سے تمام ابتدائی علوم سیکھ سکے۔ ہرنمبر دار کو قاعدے کی ایک ایک کاپی دی گئی اور ان کو کہا گیا کہ پانچ پانچ کاپیاں اپنے ہاتھ سے لکھ کر تقسیم کریں۔ جب انگریزوں نے سروے کیا تو پنجاب میں پڑھے لکھے افراد کی تعداد 86 فیصد تھی۔ ان میں خواتین زیادہ تھیں۔ تعلیمی حوالے سے یہ بہت بڑی خدمات تھیں جس کا کریڈٹ بازار حکیماں اندرون بھاٹی گیٹ لاہور کو جاتا ہے۔