جب صدر نے اپنے ہی ’سلیکٹڈ‘ وزیر اعظم کو گھر بھیج دیا

وہ 29 مئی، 1988 کا ایک گرم دن تھا، بے یقینی کا زمانہ، غیر جماعتی جمہوری نظام کی لاحاصلی، اسلامی مارشل لا کا تجربہ، راندہ درگاہ سیاست دان، گرتے ہوئے معیار، مٹتی ہوئی روایات، انتظامیہ کا زوال، غرضیکہ سب کچھ ہماری ’قومی امنگوں‘ کے عین مطابق تھا۔

اسی شام عجلت میں بلائی گئی پریس کانفرنس میں پاکستان کے فوجی حکمران صدر جنرل محمد ضیاء الحق نے آئین کے آرٹیکل 58 (2) بی کے تحت ملنے والے اختیارات کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنے ہی ’سلیکٹڈ‘ وزیر اعظم محمد خان جونیجو کو برطرف کرنے اور قومی اسمبلی اور وفاقی کابینہ توڑنے کا اعلان کر دیا۔

اپنے اس انتہائی اقدام کی وجوہات بتاتے ہوئے صدر جنرل محمد ضیاء الحق نے کہا کہ ’انتخابات کا حقیقی مقصد حاصل نہیں ہو سکا، میرا ضمیر مجھے ملامت کر رہا تھا کیونکہ میں نے نفاذ اسلام کے عمل کو تیز کرنے کی خاطر ہی ریفرینڈم کروایا تھا لیکن اس دوران اسلامی نظام کے سلسلے میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔

’امن و امان کی صورت حال بد سے بدتر ہوتی گئی، عوام کے جان و مال محفوظ نہیں، ملکی سلامتی اور یکجہتی کو خطرہ لاحق ہو گیا، جمہوری عمل سست پڑ گیا، میری دلی خواہش تھی کہ ملک میں اسلامی اقدار فروغ پائیں لیکن جو قومی اسمبلی توڑی گئی ہے وہ جمہوریت اور نفاذ اسلام دونوں ہی کے بارے میں عوام کی توقعات پوری نہیں کرسکی۔‘

صدر جنرل محمد ضیاء الحق نے مزید کہا کہ عوام کو مناسب وقت پر اپنے نمائندے ازسرنو منتخب کرنے کا حق دیا جائے گا، ’مجھے یقین ہے کہ نئی حکومت اسلامی نظام کے نفاذ، انصاف کے قیام اور چادر اور چاردیواری کے تقدس کے عمل کو آگے بڑھانے کے لیے کام کرے گی۔‘

اگلے روز 30 مئی، 1988 کو صدر جنرل ضیاء الحق نے ریڈیو اور ٹیلی وژن پر قوم سے خطاب کرتے ہوئے اپنے فیصلے کی تائید میں کہا کہ وزیر اعظم محمد خان جونیجو مکمل طور پر سیاسی دبائو کا شکار ہو چکے تھے جس سے کرپشن، اقربا پروری اور بدنظمی عام ہو چکی تھی اور ملک میں امن وامان کی صورت حال مکمل طور پر بگڑ کر رہ گئی تھی۔

پوری قوم کی طرح جنرل ضیاء الحق کے بعض رفقا کے لیے بھی وزیر اعظم کو گھر بھیجنے کا اقدام ایک انوکھا واقعہ تھا۔

جنرل ضیاء کے ایک پرانے رفیق کار، وائس چیف آف آرمی سٹاف جنرل (ر) کے ایم عارف نے اپنی کتاب ’ورکنگ ود ضیاء‘ میں اس واقعے کے حوالے سے لکھا ’ضیاء نے مرض کی تشخیص کی تھی اس کو اگر قبول کرنا مشکل تھا تو جو انتہائی اقدام انہوں نے اس مرض کے علاج کے سلسلے میں اٹھائے تھے، ان کو تسلیم کرنا اور بھی مشکل تھا، مسٹر جونیجو مثالی وزیراعظم نہ سہی لیکن انہوں نے نہایت مشکل حالات میں عنان حکومت سنبھالی تھی۔

’ایک آمر صدر کے چھاتے تلے جمہوری نظام کو چلانا کوئی آسان کام نہ تھا۔ ملک میں پائی جانے والی تمام بدنظمیوں اور قباحتوں کو وزیر اعظم کی جھولی میں ڈال دینا عدل و انصاف کے تقاضوں کے منافی اور حق و صداقت کی اقدار کے خلاف تھا۔ صدر کا اقدام ایک انتقامی کارروائی تھی۔

’مسٹر جونیجو نے اسے مکمل یک طرفہ قرار دیا اور دعویٰ کیا کہ انہوں نے ملک کی سیاسیات میں وقار و احترام اور شائستگی کو متعارف کروایا تھا اور ان کا یہ دعویٰ بلاجواز نہ تھا۔‘

وزیر اعظم کے منصب پر نامزدگی کے بعد سیاسی طور پر منتشر غیر جماعتی قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لینے والے محمد خان جونیجو کی شہرت پاکستان کے ایسے ایمان دار سیاست دان اور وزیر اعظم کی رہی جن کا دامن کرپشن، اقربا پروری سے پاک تھا۔

وہ سادگی اور شرافت کے پیکر تھے۔ سیاسی تجزیہ نگار اور محققین جونیجو حکومت کی برطرفی کی بہت سی وجوہات بیان کرتے ہیں۔ تاہم ہمارے نزدیک محمد خان جونیجو کا سب سے بڑا جرم ان کی مکمل جمہوری سوچ اور فیصلہ سازی کی قوت تھی جو فوجی آمر کے ساتھ کشیدگی کی اصل وجہ تھی۔

مارشل لا کے خاتمے کے لیے جنرل ضیاء الحق نے یہ شرط رکھی تھی کہ قومی اسمبلی سے آٹھویں آئینی ترمیم منظور کروائی جائے تاکہ ان کے آئین شکن اقدام کو آئینی و قانونی تحفظ حاصل ہو سکے۔

چنانچہ مارشل لا کے خاتمے کے لیے محمد خان جونیجو نے قومی اسمبلی سے آٹھویں آئینی ترمیم منظور کروانے کا کڑوا گھونٹ پیا۔

لیکن اس کے بعد انہوں نے جس طرح جنرل ضیاء الحق کو قومی فیصلہ سازی کے معاملے میں کنارے سے لگایا اور ملک کو واپس جمہوریت، آئین کی بالادستی اور پارلیمان کی خودمختاری کی منزلوں کی جانب لے آئے وہ ان کے سیاسی نظریے، دور رس سوچ اور جمہوریت کے ساتھ وابستگی کی زندہ مثال ہے۔

وزیر اعظم کے طور پر محمد خان جونیجو نے جنرل ضیاء الحق کی ہدایات کو رد کرتے ہوئے جنیوا معاہدے سے قبل آل پارٹیز کانفرنس بلائی۔

تین روز تک وزیر اعظم ہاؤس میں جاری رہنے والی اس کانفرنس میں بےنظیر بھٹو، خان عبدالولی خان، رسول بخش پلیجو، مختلف بلوچ اور پختون قوم پرست رہنما شریک ہوئے اور کھل کر جنرل ضیاء الحق کے خلاف بولے۔

ان سب کی رائے اور حمایت حاصل کر کے وزیر اعظم محمد خان جونیجو نے اسے ’قومی اتفاق رائے‘ قرار دیا جس کے آگے جنرل ضیا کی مرضی کی کوئی حیثیت نہیں تھی۔

آل پارٹیز کانفرنس کے بعد وہ جنیوا روانہ ہوئے اور افغان امن معاہدے میں پاکستان کی شرائط شامل کروا کر اس پر دستخط کیے۔ یہ ان کی مدبرانہ سفارت کاری کی سب سے اعلیٰ مثال تھی۔

یہ وزیر اعظم محمد خان جونیجو کے دور میں ہی ممکن ہوا کہ بے نظیر بھٹو آٹھ سالہ جلاوطنی ختم کر کے اپرل 1986 میں وطن واپس تشریف لائیں۔

محمد خان جونیجو نے جنرل ضیاء الحق کی ہدایات کو رد کرتے ہوئے کہا کہ بےنظیر بھٹو جس وقت چاہیں وطن واپس آ سکتی ہیں، یہ ان کا اپنا وطن ہے جہاں آنے سے ان کو کوئی نہیں روک سکتا۔

وزیر اعظم جونیجو نے اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی حکومت کو ہدایات جاری کیں کہ محترمہ کی مرضی سے ان کے لاہور ایئر پورٹ پر اترنے کے لیے تمام انتظامات کیے جائیں۔ محترمہ کے استقبال کے لیے لاکھوں لوگ آئے اور اس استقبال میں کوئی رکاوٹ کھڑی نہیں کی گئی۔

10 اپریل، 1988 کو اوجڑی کیمپ کا سانحہ ہوا۔ جڑواں شہروں اسلام آباد اور راولپنڈی پر راکٹوں کی بارش ہو گئی جس میں لاتعداد شہری ہلاک ہو گئے۔

محمد خان جونیجو نے اس عظیم سانحہ پر خاموش تماشائی بننے کی بجائے اس واقعے کے محرکات اور ذمہ داروں کا تعین کرنے کے لیے تحقیقات کا حکم دیا۔ ان کا یہ اقدام جنرل ضیاء الحق کے لیے ناقابل قبول تھا، وہ اس بات پر حیران تھے کہ ان کی مرضی اور منشا کے بغیر محمد خان جونیجو نے یہ کیسی جرات کی کہ ایک حساس معاملے پر تحقیقات کا حکم جاری کر دیا۔

جنرل ضیا اس تحقیقات کا راستہ روکنے کے لیے یوں سامنے آئے کہ انہوں نے اوجڑی کیمپ کا سانحہ رونما ہونے کے 49 دن بعد آئین کی آٹھویں ترمیم کے تحت ملنے والے اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے 29 مئی، 1988 کو محمد خان جونیجو کی حکومت کو برطرف کر دیا۔

بعض سیاسی محققین محمد خان جونیجو کی برطرفی کی وجہ ایک چھوٹی گاڑی کو بھی قرار دیتے ہیں۔ وزیر اعظم محمد خان جونیجو نے ملکی پارلیمان مجلس شوریٰ میں خطاب کرتے ہوئے اعلان کیا کہ اب اعلیٰ افسران شان دار گاڑیاں استعمال نہیں کریں گے اور پاکستان میں بنائی گئی چھوٹی گاڑیوں کو ترجیح دی جائے گی جو کہ اس زمانے میں زیادہ تر سوزوکی ایف ایکس تھی۔

برسبیل تذکرہ یہاں یہ بات بھی انڈپینڈنٹ اردو کے قارئین کے لیے دلچسپی کا باعث ہو گی کہ اپنی حکومت کی برطرفی کے دوران وزیر اعظم محمد خان جونیجو پاکستان مسلم لیگ کے صدر کے طور پر تنظیمی ذمہ داریاں بھی سرانجام دے رہے تھے اور اس حیثیت میں انہوں نے چند دن قبل اسلام آباد میں پاکستان مسلم لیگ کے آل پاکستان کنونشن کا انعقاد کیا تھا۔

کنونشن میں تقریبا دو سو سے زائد ارکان شریک ہوئے، اس موقعے پر پاکستان مسلم لیگ پنجاب کے صدر میاں محمد نواز شریف بھی موجود تھے، ان دنوں ان کے جنرل جیلانی کے ذریعے صدر جنرل ضیاء الحق کے ساتھ گہرے تعلقات قائم ہو چکے تھے جبکہ اپنے جمہوری اقدامات سے وزیر اعظم محمد خان جونیجو صدر جنرل محمد ضیاء الحق کے لیے ناقابل برداشت ہو چکے تھے۔

کنونشن میں انتخابی عمل شروع ہوا تو میاں محمد نواز شریف اور ان کے 27 ساتھیوں کے ایک گروپ نے ہنگامہ برپا کر دیا، یہ لوگ محمد خان جونیجو کی قیادت کے خلاف نعرے لگاتے ہوئے واک آؤٹ کر گئے، اسی روز پاکستان مسلم لیگ دو حصوں، جونیجو گروپ اور نواز گروپ میں تقسیم ہوئی۔

پاکستان مسلم لیگ (ن) میں پہلے دن 27 ارکان تھے، میاں محمد نواز شریف کو پنجاب کی وزارت اعلیٰ اور وزیر اعظم محمد خان جونیجو کی برطرفی کے بعد 30 مئی، 1988 کو نگران وزارت اعلیٰ ہاتھ آ گئی تو چند روز میں ’خلائی مخلوق‘ کی کرامات سے پاکستان مسلم لیگ (جونیجو) کے تقریباً سارے ہی ارکان نواز لیگ میں شامل ہو گئے
————-
نعیم احمد ناز
——-
https://www.independenturdu.com/node/68821/when-general-ziaul-haq-dismissed-muhammad-khan-junejos-government
———————————

29 مئی کو جونیجو حکومت ختم ہوئی مگر ضیا الحق سے جھگڑا کیوں شروع ہوا؟
——-
سید صفدر گردیزی، صحافی۔ اسلام آباد
———–
مئی 1988 کی شام اسلام آباد ایئرپورٹ کا وی آئی پی لاؤنج مقامی صحافیوں سے بھرا ہوا تھا۔ اس وقت کے وزیراعظم محمد خان جونیجو چین، جاپان اور فلپائن کے طویل دورے سے واپسی پر میڈیا کو بریفنگ دے رہے تھے۔
اچانک کچھ سینیئر صحافی ایک ایک کر کے کمرے سے غائب ہونے لگے۔ ایئرپورٹ کی عمارت سے باہر نکلتے ہی انہوں نے افراتفری اور تیزی میں ایوان صدر کی راہ لی۔
وزیراعظم پاکستان کی پریس کانفرنس ادھوری چھوڑ کر پریزیڈنٹ ہاؤس کی طرف لپکنے کی وجہ ایک دھماکہ خیز خبر کی تصدیق اور تفصیل کا حصول تھا۔
مزید پڑھیں

سیاسی، عسکری قیادت کا آئی ایس آئی ہیڈکوارٹرز کا دورہ، ملکی اور علاقائی صورتحال پر غور

’اے این پی اور پیپلز پارٹی کو پی ڈی ایم کی توہین کا ازالہ کرنا ہوگا‘

قومی مفاد کے لیے نواز شریف کے پاؤں پکڑنے کو بھی تیار ہوں: شہباز شریف
اس وقت کے صدر جنرل ضیاء الحق اگلے روز چین جانے والے تھے۔ ان کے سٹاف نے تین گھنٹے کے نوٹس پر اخباری نمائندوں کو پریس کانفرنس کی اطلاع دی۔ رپورٹرز نے غیر ملکی دورے کے بارے میں روایتی بریفنگ سمجھ کر اس کو اہمیت نہ دی اور خبر کے تلاش میں ایئرپورٹ جا پہنچے۔
ادھر محمد خان جونیجو ایئرپورٹ سے پرائم منسٹر ہاؤس پہنچ گئے۔ لان میں بیٹھے چائے پینے کی تیاری کر رہے تھے کہ ایوان صدر کا ایک جوائنٹ سیکرٹری تیزی سے ان کی طرف آیا اور بولا کہ ’سر ایک بری خبر ہے۔ ضیاء الحق نے آپ کی حکومت برطرف کر دی ہے۔‘
جونیجو کے لیے یہ الفاظ کسی دھماکے سے کم نہ تھے۔ وہ کسی ردعمل کا اظہار کیے بغیر ننگے پاؤں چلتے ہوئے اپنے کمرے میں چلے گئے۔
محمد خان جونیجو کی ایوان وزیراعظم میں آمد اور روانگی دونوں دھماکا خیز اور غیر متوقع تھیں۔
سنہ 1985 میں غیر جماعتی انتخابات کے بعد ضیاءالحق نے انتقال اقتدار کے بجائے شراکت اقتدار کے لیے ان کا انتخاب کیا۔ بہت سے بارسوخ اور طاقتور سیاسی شخصیات کی موجودگی میں ایک نسبتاً کم معروف سندھی سیاستدان کے وزیراعظم بننے کو اس دور میں ایک سیاسی انہونی سمجھا گیا۔ عموماً خیال کیا جاتا ہے کہ ان کا نام مارچ 1985 میں بحثیت وزیراعظم پہلی بار سامنے آیا۔
مگر امریکہ میں مقیم 50 سال سے زائد صحافت میں سرگرم رہنے والے عارف الحق عارف اس عمومی تاثر کے برعکس رائے رکھتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ محمد خان جونیجو پیر پگاڑا کے مرید خاص تھے۔ مغربی پاکستان کی اسمبلی کے رکن رہ چکے تھے۔ اس کے علاوہ ریلوے کی وزارت کا تجربہ بھی تھا۔

عارف الحق نے ایک ملاقات میں پیر پگاڑا کے سامنے ایک مفروضے کے طور پر محمد خان جونیجو کا نام بھی لے لیا۔ پیر پگاڑا نے ان کا نام سن کر جواب دیا کہ ’میں اپنا وزیراعظم ادھار دے سکتا ہوں اگر چل گیا تو ٹھیک نہیں تو واپس لے لوں گا۔‘
10 مارچ 1985 کو صدر ضیاء الحق نے آئین کی بحالی کا فرمان جاری کیا۔ اس کے تحت صدر کو اپنی صوابدید پر قومی اسمبلی کے اراکین میں سے وزیراعظم کی نامزدگی کا اختیار حاصل تھا۔
وہ منقسم اور آزاد اسمبلیوں کے ذریعے اختیارات اپنے ہاتھ میں رکھنے کے خواہش مند تھے۔ 23 مارچ 1985 کو انہوں نے محمد خان جونیجو کو وزیراعظم نامزد کر دیا ۔
عارف الحق عارف کے مطابق اس فیصلے کے محرکات میں پیرپگاڑا کے حمایت یافتہ امیدواروں کی اسمبلی میں اکثریت اور ایم آر ڈی کی تحریک کے نتیجے میں سندھ میں عوامی بے چینی اور غصے کے جذبات کو ٹھنڈا کرنا شامل تھا۔
’جمہوریت کا پودا مارشل لا کے درخت تلے پروان چڑھے گا‘ ضیاء الحق کا یہ بیان نئی سویلین حکومت کو تابع اور مطیع رکھنے کی خواہش کا آئینہ دار تھا۔ کم گو اور منکسر المزاج جونیجو اس کے لیے موزوں سمجھے گئے۔
اپنے انتخاب کے اگلے روز اسمبلی کے فلور پر جب ان کے منہ سے یہ الفاظ نکلے کہ ’سویلین حکومت مارشل لا کے ساتھ زیادہ دیر تک نہیں چل سکتی۔ اس لیے جتنا جلدی ممکن ہو مارشل لا اٹھا لیا جائے‘ تو سیاسی محرکات پر نگاہ رکھنے والوں کو احساس ہوا کہ وہ اتنے بھی تابع فرمان ثابت نہیں ہوں گے۔
اسی سال اکتوبر میں آئین میں آٹھویں ترمیم کے بل پر قومی اسمبلی میں بحث ہوئی۔ آزاد پارلیمانی گروپ نے آئینی ترامیم کے بل میں ترامیم تجویز کرنی شروع کر دیں۔ وزیراعظم نے اگرچہ ان کی حمایت نہیں کی مگر ان کے معتدل رویے کی وجہ سے ضیاء الحق کو بہت سارے نکات پر مصلحت دکھانی پڑی۔

معروف قانون دان حامد خان ایڈوکیٹ اپنی کتاب ’پاکستان کی آئینی و سیاسی تاریخ‘ میں اسے محمد خان جونیجو کی جمہوریت اور آئین نوازی قرار دیتے ہیں۔
نومنتخب وزیراعظم کی کابینہ میں تجربہ کار سیاستدان اور ٹیکنوکریٹس شامل تھے۔ آنے والے دور میں وزیراعظم پاکستان رہنے والے ظفر اللہ خان جمالی اور سید یوسف رضا گیلانی ان کی ابتدائی کابینہ کا حصہ تھے۔
21 وزرا کی بھاری بھر کم کابینہ میں انہوں نے آنے والے وقت میں تین بار تبدیلیاں کیں۔ ان کا چونکا دینے والا اور غیر متوقع فیصلہ ضیاء الحق کے نامزد کردہ تین ٹیکنوکریٹس ڈاکٹر محبوب الحق، ڈاکٹر اسد اور ڈاکٹر عطیہ عنایت اللہ کو مختلف اوقات میں ان کے عہدوں سے ہٹانا تھا۔
محمد خان جونیجو کے معاون خصوصی اور کابینہ کے رکن سرتاج عزیز اپنی کتابBetween Dreams and Realities میں لکھتے ہیں کہ ڈاکٹر محبوب الحق کو وزارت خزانہ سے ہٹا کر یاسین وٹو کو یہ منصب سونپا گیا۔ یہ ان کی آزادانہ اور خود مختاری کی سوچ کو ظاہر کرتا تھا۔
ان کے مطابق محمد خان جونیجو نے شناخت سے محروم اور بحرانوں سے نیم مردہ ہو جانے والی مسلم لیگ کا احیا کیا۔ وہ لکھتے ہیں کہ قومی اسمبلی میں ’آفیشل پارلیمانی گروپ‘ کے نام سے ممبران کی اکثریت کو مسلم لیگ پارلیمانی پارٹی میں تبدیل کرنے کا سہرا محمد خان جونیجو کے سر ہے۔
انہوں نے پولیٹیکل پارٹیز ایکٹ پاس کروایا جس میں ضیاء الحق کے سنہ 1979 کے پولیٹیکل پارٹیز ایکٹ میں ترامیم کی گئیں۔ اس کے نتیجے میں وہ آل پاکستان مسلم لیگ کے صدر اور پارلیمانی پارٹی کے سربراہ بن گئے۔
اسی طرح اب بنیادی حقوق کی بحالی اور ایمرجنسی کے خاتمے نے سیاسی جماعتوں کے لیے تنظیمی سرگرمیوں کی راہ کھول دیں۔ پیپلز پارٹی کی جلاوطن رہنما بے نظیر بھٹو کی وطن واپسی نے سیاسی سرگرمیوں میں تیزی پیدا کر دی۔

بے نظیر بھٹو نے ایک سیاسی حکمت عملی کے تحت وزیراعظم سے زیادہ صدر پر تنقید شروع کر دی۔ (فوٹو: اے ایف پی)

سرتاج عزیز کے مطابق 10 اپریل 1986 کو بینظیر بھٹو کی وطن واپسی پر ضیاء الحق کی منشا کے برعکس جونیجو حکومت نے نرم رویے کا مظاہرہ کیا اور ان کے استقبالیہ جلوس میں کسی طرح کی رکاوٹ نہ ڈالی۔
بے نظیر بھٹو نے ایک سیاسی حکمت عملی کے تحت وزیراعظم سے زیادہ صدر پر تنقید شروع کر دی۔
حامد خان لکھتے ہیں کہ ’بے نظیر بھٹو کی اس حکمت عملی نے ضیاء الحق کو شک میں مبتلا کر دیا کہ جونیجو کسی نہ کسی طرح بےنظیر سے ساز باز کر رہے ہیں۔‘
’بینظیر بھٹو کو صدر پر تنقید کی آزادی دی جا رہی ہے۔ کابینہ کے اکثر وزراء صدر کا دفاع نہیں کرتے۔ بدلے میں بے نظیر بھٹو وزیراعظم پر تنقید سے اجتناب کرتی ہیں۔‘
مصنف کے نزدیک ضیاءالحق کو یہ بھی شک تھا کہ محمد خان جونیجو جان بوجھ کر ان کی حیثیت گھٹانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہیں سے دونوں کے درمیان انتظامی نوعیت کے اختلافات ابھرنا شروع ہوں گے۔
دسمبر 1985 میں مارشل لا کے خاتمے کے بعد صدر اور وزیراعظم کے درمیان پروٹوکول اور سٹاف پر محاذ آرائی شروع ہوئی۔ اس میں سکرٹریوں اور سفیروں کی تعیناتی اور حتیٰ کہ ’فالکن طیارے‘ کے استعمال جیسے معمولی نوعیت کے مسائل بھی شامل تھے۔
حامد خان کے مطابق صدر نے اکثر وزیروں اور ان کے سٹاف سے ان کے محکمے کے حوالے سے فوری نوعیت کے جوابات طلب کیے۔ رولز آف بزنس کے مطابق وزیر صدر کو وزیراعظم سیکریٹریٹ کے ذریعے جواب دینے کے پابند ہیں۔ جب یہ باتیں ضیاء الحق کے علم میں لائی گئیں تو انہیں غصہ آ گیا اور انہوں نے محمد خان جونیجو کو اس تاخیر کا ذمہ دار ٹھہرایا۔

وزیراعظم محمد خان جونیجو کی طرف سے وزیروں، اعلیٰ فوجی افسروں اور سول بیورو کریسی کے افسران کو 800 سی سی گاڑیوں کے استعمال کے پابند کرنے کے فیصلے کو اس دور میں بہت سراہا گیا۔
اس غیر روایتی فیصلے پر عملدرآمد صرف چھ ماہ تک ممکن ہو سکا۔ اس دور کے ایک سینیئر بیوروکریٹ سید ارتقاء احمد زیدی اپنی آپ بیتی ’ارتقاء کہانی ایک سرکاری ملازم کی‘ میں لکھتے ہیں کہ اس دور کے ڈپٹی چیئرمین پلاننگ کمیشن اے جی این قاضی اپنی طویل القامتی کی وجہ سے 800 سی سی کی سوزوکی کار میں مشکل سے پھنس کر بیٹھتے تھے۔ ان کے مطابق تھوڑے ہی عرصے میں بیوروکریسی نے مختلف توجیہات اور بہانوں سے وزیراعظم کو یہ فیصلہ ختم کرنے پر قائل کر لیا۔
ان تمام واقعات کا تعلق انتظامی، سیاسی اور قانونی معاملات سے تھا۔ تاہم جونیجو حکومت کی رخصتی کے حتمی سفر کا آغاز نومبر 1987 سے ہوا۔ اس کا تعلق افغانستان سے روسی افواج کے انخلا سے تھا۔
ضیاءالحق اپنے قریبی مشیروں کی مدد سے آٹھ سالوں سے افغان پالیسی کے سیاہ و سفید کے مالک تھے۔ ادھر وزیراعظم یہ سمجھتے تھے کہ منتخب عوامی نمائندہ ہونے کی حیثیت سے انہیں آزادانہ خارجہ پالیسی اپنانی چاہیے۔
وزیر خارجہ صاحبزادہ یعقوب علی خان ضیاء الحق سے قربت کی وجہ سے خارجہ پالیسی میں ان کی ترجیحات اور مفادات کو مقدم رکھتے تھے۔
دفاعی تجزیہ نگار شجاع نواز اپنی کتاب Cross Swords میں لکھتے ہیں کہ سنہ 1987 میں کچھ امریکی عہدیدار افغانستان میں روسی انخلا کے بعد سابق بادشاہ ظاہر شاہ کو کابل حکومت کا سربراہ بنانے کا مجوزہ منصوبہ لے کر پاکستان آئے۔
پاکستانی وزیر خارجہ اس منصوبے کو افغان مسئلے کا حل سمجھتے تھے۔ وزیراعظم محمد خان جونیجو نے محسوس کیا کہ یہ منصوبہ ان سے بالا ہی بالا طے کیا جا رہا ہے۔ اسی سوچ کے زیراثر انہوں نے صاحبزادہ یعقوب علی خان کو ان کے عہدے سے برطرف کردیا۔
سنہ 1988 کی پہلی سہ ماہی میں دو واقعات سے طاقت کے ان دو مراکز کے درمیان ناقابل عبور خلیج حائل ہو گئی۔ جس نے آگے چل کر وزیراعظم کی قسمت کا فیصلہ کیا۔

پہلے واقعے کا تعلق پاکستان کے اعلی فوجی اور سول اہلکاروں کا افغان مسئلہ کے حل کے بارے میں امریکی اور روسی اہلکاروں کے ساتھ ایک مشترکہ میٹنگ کے حوالے سے تھا۔
سرتاج عزیز کے مطابق اس میٹنگ میں صدر، اعلیٰ فوجی افسروں کے ساتھ ساتھ سول اہلکاروں نے بھی شرکت کی۔ سول اہلکاروں میں غلام اسحاق خان، ڈاکٹر محبوب الحق اور وہ خود شامل تھے۔
ان کے مطابق اس اعلی سطحی میٹنگ میں وزیراعظم کو نہ بلانا معنی خیز تھا۔ وزیراعظم کے بے اختیار ہونے کا احساس اور گہرا ہو گیا اور انہوں نے جوابی حکمت عملی اختیار کرنے کا فیصلہ کیا۔
مارچ 1988 میں افغان مسئلے کے حل کے سمجھوتے کا آخری مرحلہ درپیش تھا۔ وزیراعظم نے مشاورت کے لیے آل پارٹیز کانفرنس طلب کی۔ تمام سیاسی قیادت بشمول بے نظیر بھٹو کی شرکت سے جونیجو نے نظر انداز کیے جانے کے تاثر کو زائل کرنے کی کوشش کی۔ دلچسپ بات ہے کہ اس کانفرنس میں صدر ضیاءالحق کو مدعو ہی نہیں کیا گیا تھا۔
قومی سیاسی قیادت کے مثبت ردعمل نے وزیراعظم کا حوصلہ بڑھا دیا۔ انہوں نے زین نورانی کو وزارت خارجہ کا انچارج بنا کر جنیوا بھیج دیا۔ یوں مشہور زمانہ جنیوا معاہدے پر پاکستان نے بھی دستخط کیے۔ جونیجو کے اس اقدام نے ضیاء الحق کو آگ بگولا کر دیا۔
10 اپریل 1988 کو راولپنڈی اور اسلام آباد کے سنگم پر واقع اوجڑی کیمپ میں بارودی ذخیرے میں دھماکوں اور جانی نقصان نے ساری دنیا کی توجہ حاصل کر لی۔
عوامی رد عمل اور بے چینی کے سبب وزیراعظم نے اسلم خٹک کی سربراہی میں اس حادثے کے اسباب جاننے کے لیے پارلیمانی کمیٹی قائم کی۔ سرتاج عزیز کے مطابق کمیٹی کی رپورٹ کے حوالے سے مختلف افواہوں نے جنم لیا جن میں ضیاء الحق کے کچھ قریبی مصاحبین کو واقعہ کا ذمہ دار قرار دیا گیا تھا۔

اسی دوران آٹھ جون کو قومی اسمبلی کا اجلاس بلایا گیا۔ یہ توقع کی جا رہی تھی کہ اس رپورٹ کے حوالے سے اسمبلی میں گرما گرم بحث ہوگی۔ یہ افواہیں صحیح تھیں یا غلط مگر انہوں نے جونیجو حکومت کی رخصتی کے راستے سے آخری رکاوٹ بھی ہٹا دی۔
حکومت کی برطرفی کے اگلے روز ضیاء الحق نے اپنی نشری تقریر میں وزیراعظم کے خلاف پوری چارج شیٹ پڑھ کر سنائی۔ اس میں اقربا پروری، رشوت ستانی، معاشی بحران، لسانی اورعلاقائی اختلافات، امن و امان کے مسائل، سیاسی کرپشن، پارلیمانی نظام کی ناکامی اور اسلامائزیشن کے عمل میں حکومت کی عدم دلچسپی سمیت دیگر وجوہات بیان کی گئیں۔ صدر مملکت نے وزیراعظم کے بغیر کابینہ بھی تشکیل دی۔ 16 نومبر 1988 کو انتخابات کا اعلان بھی کیا گیا۔
ضیاءالحق اس نیم جمہوری تجربے کے اثرات سے بھی خوش نہ تھے۔ سرتاج عزیر کتاب میں لکھتے ہیں کہ ضیاء الحق نے ذہن بنا لیا تھا کہ اگر آئندہ غیر جماعتی انتخابات میں ان کی مرضی کے نتائج نہ آئے تو وہ ایک بار پھر آئین کو معطل کر کے مارشل لا یا ایمرجنسی لگا کر تمام اختیارات اپنے ہاتھ میں لے لیں گے۔
وزیراعظم اور اسمبلیوں کی برطرفی کے حکم کو لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کیا گیا۔ فل بینچ نے محمد شریف بنام وفاق پاکستان کیس میں صدارتی اقدام کو غیر آئینی قرار دیا۔ البتہ عدالت نے داد رسی کے سوال پر اسمبلی اور کابینہ کو بحال کرنے سے انکار کر دیا۔
بعد ازاں سپریم کورٹ نے وفاق پاکستان بنام حاجی سیف اللہ خان کیس میں اسمبلی تحلیل کے اقدام کو بلا جواز قرار دیا۔ یہاں بھی داد رسی کے سوال پر لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ برقرار رکھا گیا۔
محمد خان جونیجو کی حکومت سے رخصتی کے بعد مسلم لیگ پر ان کی تنظیمی گرفت ڈھیلی ہو گئی۔ پنجاب کے وزیراعلیٰ نواز شریف کے حمایتیوں نے فدا محمد خان کی قیادت میں اپنا علیحدہ گروپ قائم کر لیا۔
انتخابات سے کچھ عرصہ قبل دونوں میں اتفاق رائے بھی ہوگیا مگر محمد خان جونیجو بتدریج پس منظر میں جاتے گئے۔ سنہ 1990کے انتخابات کے بعد نواز شریف وزیراعظم بن گئے اور اپریل 1993 میں محمد خان جونیجو کی وفات کے بعد مسلم لیگ کی صدارت نواز شریف کے حصے میں آ گئی
https://www.urdunews.com/node/569346
———————

یہ جنوری کی ایک یخ بستہ شام تھی، راولپنڈی شہر کے نواح میں اس وقت کے وزیر اعظم ہاؤس کے قریب واقع سٹیٹ گیسٹ ہاؤس میں وزیراعظم محمد خان جونیجو قومی اخبارات و جرائد کے مقامی کارکنوں سے مخاطب تھے۔

یہ ایک درمیانے سائز کا ہال تھا جس کے تمام دروازے بند کر دیے گئے تھے۔ وزارت اطلاعات کے افسروں کو بھی ہال کے اندر بیٹھنے کی اجازت نہیں دی گئی تھی، مدوعین میں مقامی اخبارات کے ایڈیٹر، نیوز ایڈیٹر، سب ایڈیٹر، سٹی پیج کے انچارج، چیدہ چیدہ رپورٹر جن میں جونیئر اور سینئر سب شامل تھے۔

آئیڈیا یہ تھا کہ صدر جنرل ضیا الحق کے ساتھ بطور وزیراعظم فرائض انجام دینے والے محمد خان جونیجو عوام کے اصل مسائل اور عوامی سوچ کے بارے میں آگہی حاصل کرنے کے خواہشمند تھے۔

کسی نے انھیں مشورہ دیا کہ اصل بات تو آپ کو اخبارات کے نیوز روم میں کام کرنے والے صحافتی کارکن اور عوام کے معاملات کی براہ راست کوریج کرنے والے رپورٹر ہی بتا سکتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

اوجڑی کیمپ: جب 33 برس قبل راولپنڈی، اسلام آباد پر قیامت ٹوٹ پڑی

سٹنگر میزائل: افغان جنگ کا فیصلہ کن ہتھیار جو روسی افواج پر قیامت بن کر ٹوٹا

کارساز حملہ: جب کارکن بینظیر بھٹو کے گرد ڈھال بن گئے

ذوالفقار علی بھٹو کی وہ ’غلطیاں‘ جو فوجی بغاوت کا باعث بنیں

اس لیے محمد خان جونیجو سے سٹیٹ گیسٹ ہاؤس میں ایک شاندار عشائیے کا اہتمام کیا لیکن اس سے قبل ایک نشست سوال جواب کی تھی جس میں سامنے اکلوتی چیئر پر محمد خان جونیجو خود بیٹھے اور سامنے قطار در قطار صحافتی کارکنوں کو بٹھایا گیا۔ چونکہ اس زمانے میں کوئی پرائیویٹ چینل موجود نہیں تھا اور ٹیلی ویژن کا مطلب صرف پاکستان ٹیلی ویژن تھا اس لیے چیزیں بہت سیدھی سادی تھیں۔

محمد خان جونیجو نے تقریبِ ملاقات کی غرض و غایت بیان کی اور آخر میں کہا ‘ہمیشہ ہر پریس کانفرنس میں سوال آپ صحافی لوگ کرتے ہیں اور میں جواب دیتا ہوں لیکن آج الٹا چکر ہو گا۔ سوال میں کروں گا اور جواب آپ لوگ دیں گے۔’

اس کے بعد انھوں نے براہِ راست سوال داغ دیا کہ ‘میرے بارے میں پاکستان کے عوام کیا رائے رکھتے ہیں؟’

جنیجو
،تصویر کا ذریعہGETTY IMAGES
‘سائیں، یہ مارشل لا کی یادگار بھی تو میرے سر سے ہٹے’
انھوں نے جواب کے لیے حاضرین پر نگاہ دوڑائی، درمیان کی قطار میں موجود روزنامہ جسارت کراچی کے سینیئر رپورٹر حافظ عبدالخالق اٹھے اور بولے: ‘جناب آپ کے بارے میں عوام میں تاثر یہ ہے کہ آپ ایک کمزور اور قوت فیصلہ سے محروم وزیر اعظم ہیں۔’

‘اچھا!’ محمد خان جونیجو چونک گئے اور چہرے پر تیز مسکراہٹ آ گئی، مخصوص سندھی انداز میں بولے: ‘بابا، ذرا تفصیل سے بتاؤ کی عوام ایسا کیوں سوچتے ہیں؟’

حافظ عبدالخالق نے کہا ‘جناب وزیراعظم، عوام اس لیے ایسا سوچتے ہیں کہ آپ نے وزیراعظم بنتے ہوئے عوام سے جو وعدے کیے ان میں سے کوئی بھی تو پورا نہیں ہوا۔ سیاسی کارکن ابھی تک جیلوں میں بند ہیں، جو لوگ مارشل لا کے خلاف لڑتے ہوئے سزا یاب ہوئے ابھی تک انھیں کوئی ریلیف نہیں ملا’ اس کے علاوہ بھی حافظ عبدالخالق نے کچھ اور مثالیں دیں۔

وزیر اعظم محمد خان جونیجو نے اپنا سر ایک لمحے کو جھکایا پھر اوپر دیکھ کر بہت سنجیدگی سے کہا: ‘سائیں، یہ مارشل لا کی یادگار بھی تو میرے سر سے ہٹے۔’

وزیر اعظم کے اس جواب پر ہال میں سناٹا چھا گیا۔

اس کے بعد وزیر اعظم کی طرف سے سوالات اور حاضرین کی طرف سے جوابات کا طویل سلسلہ شروع ہوا جو رات گئے تک جاری رہا۔

سوال جواب کی اس انوکھی نشست کے آخر میں کارکن صحافیوں کو ایک شاندار عشائیہ دیا گیا جس میں راؤنڈ ٹیبل کے گرد بیٹھے مہمانوں کو ان کی نشست پر ہی سرخ شیروانیوں میں ملبوس، کلے باندھے ہوئے اہلکاروں نے کھانا پیش کیا۔

اس تقریب میں مجھے وزیر اعظم کے مین ٹیبل پر جگہ ملی تھی اس لیے کھانے کے دوران وزیر اعظم کی گفتگو سے اندازہ ہوا کہ وہ اب بطور وزیر اعظم اپنا کردار ادا کرنے کا ذہن بنا چکے ہیں۔

تقریب کے اختتام پر محمد خان جونیجو باہر لاؤنج میں کھڑے ہو گئے اور ایک ایک مہمان کو خود رخصت کیا۔

راقم الحروف نے دیکھا کہ محمد خان جونیجو نے اپنے پہلو میں کھڑے اس وقت کے وفاقی سیکرٹری اطلاعات عبدالمجید مفتی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ‘مفتی صاحب اتنی معلومات تمام ایجنسیوں نے آج تک مجھے فراہم نہیں کی ہوں گی، جتنی آج ایک نشست میں مجھے ملی ہیں کیونکہ ان تمام لوگوں کو عوام سے براہ راست رابطہ ہے، اس لیے آئندہ ہر تین ماہ بعد اسی جگہ پر ایسی ہی نشست کا اہتمام کرنا آپ کی ذمہ داری ہے۔’

لیکن صحافتی کارکنوں سے یہ وزیر اعظم محمد خان جونیجو کی اس انداز میں پہلی اور آخری ملاقات تھی۔

انہی تین ماہ کے اندر اندر اوجھڑی کیمپ کا سانحہ ہوا اور ابھی وہ اس سے سنبھل نہ پائے تھے کہ 29 مئی آ گیا اور محمد خان جونیجو ایوان وزیر اعظم سے بیک بینی و دو گوش نکال باہر کر دیے گئے۔

جنیجو
،تصویر کا ذریعہGETTY IMAGES
محمد خان جونیجو ہی وزیر اعظم کیوں؟
سینیٹ کے طویل عرصے تک قائد ایوان اور قائد حزب اختلادف رہنے والے راجہ محمد ظفر الحق چار سال تک جنرل ضیا کی کابینہ میں اطلاعات و نشریات کے ایسے وزیر رہے کہ جن کے اختیارات اور سج دھج پر آنے والے صرف رشک ہی کر سکتے ہیں۔

راجہ ظفر الحق وزیر اعظم محمد خان جونیجو کے سیاسی امور کے مشیر بھی رہے۔

اس سوال کے جواب میں راجہ ظفر الحق کا کہنا ہے کہ جنرل ضیاء الحق کے گرد موجود کرتا دھرتا جرنیلوں کی رائے تھی کہ سندھ سے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے بعد اگلا وزیر اعظم سندھ سے ہی لانا ہو گا تاکہ اسے قبولیت کی سند مل سکے اور ایسی ہی رائے پیر صاحب پگارا کی بھی تھی۔

وہ کہتے ہیں کہ ‘پھر معاملہ فہمی اور دیانتداری کا جو درجہ محمد خان جونیجو کو حاصل تھا وہ کسی دوسرے میں کم ہی تھا۔ الٰہی بخش سومرو بھی امیدوار تھے لیکن راجہ ظفرالحق کے بقول: ‘فیصلہ سازوں کا اتفاق رائے محمد خان جونیجو پر ہی تھا۔’

سینیئر صحافی اور دی نیوز اور دی نیشن کے سابق ایگزیکٹو ایڈیٹر سلیم بخاری کہتے ہیں کہ ‘جنرل ضیاء الحق کو ایک نرم گفتار سیاستدان کی ضرورت تھی جس کے اپنے کوئی عزائم نہ ہوں اس لیے ان کی نظر انتخاب محمد خان جونیجو پر پڑی۔’

سینیئر صحافی اظہر سہیل اپنی کتاب ‘سندھڑی سے اوجھڑی کیمپ تک’ میں لکھتے ہیں کہ: ’21 مارچ 1985 کی رات تک کسی کے سان گمان میں بھی نہیں تھا کہ سندھ کے ایک چھوٹے سے گاؤں سندھڑی سے تعلق رکھنے والے منکسر المزاج زمیندار محمد خان جونیجو، جنھیں ان کے سیاسی پیشوا پیر پگارا سابق وزیر ریلوے ہونے کے باعث پیار سے ریلوے بابو کہا کرتے تھے، اچانک ملک کے وزیر اعظم بن جائیں گے۔

‘اگرچہ پیر پگارا نے انتخابات سے بھی قبل یہ بات کہہ دی تھی کہ ہم وزیر اعظم کے لیے محمد خان جونیجو ادھار پر دے دیں گے۔ تب وزارت عظمیٰ کے ظاہری طور پر دو اور اصل امیدوار پانچ تھے، میر ظفر اللہ جمالی کا تعلق بلوچستان سے، محمد خان جونیجو اور الہیٰ بخش سومرو کا تعلق سندھ سے، محمد اسلم خان خٹک کا تعلق سرحد سے اور مخدوم حامد رضا گیلانی کا تعلق پنجاب سے تھا۔’

وہ لکھتے ہیں کہ ‘جمالی صاحب کو کم عمر اور جذباتی نوجوان سمجھ کر مسترد کر دیا گیا۔ حامد رضا گیلانی پنجابی ہونے کے باعث رہ گئے اور محمد اسلم خان خٹک چیئرمین سینیٹ غلام اسحاق خان کی وجہ سے چھوڑ دیے گئے سو قرعہ فال کسی ایک کے نام پڑنے والا تھا۔ دونوں سندھی اور تقریباً ایک ہی حیثیت کے زمیندار تھے، ایک کو پیرصاحب کی مکمل حمایت حاصل تھی تو دوسرے بھی ان کے دوست ہی تھے۔

‘آج کسی کو یہ بات کیسی بھی لگے مگر واقعہ یہی ہے کہ 22 مارچ 1985 کی دوپہر جب صدر مملکت اراکین قومی اسمبلی کے پہلے گروپ کو محمد خان جونیجو کے بارے میں اپنے فیصلے سے مطلع کر رہے تھے، اس وقت الہیٰ بخش سومرو، پیر صاحب پگارا کے اسلام آباد والے گھر میں بیٹھے، انھیں رام کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ مگر پیر صاحب کے لیے اپنا فیصلہ بدلنا کسی طرح بھی ممکن نہیں تھا۔ وہ صدر صاحب سے صاف کہہ چکے تھے کہ وزیر اعظم کا تعلق اگر سندھ سے ہو گا تو وہ صرف محمد خان ہو گا۔’

اوجڑی

مارشل لا کب اٹھے گا؟ فوجی صدر سے اختلافات کا آغاز
طویل عرصہ روزنامہ جنگ سے وابستہ رہنے والے صحافی عظیم چوہدری کا کہنا ہے کہ صدر ضیا الحق سے اختلافات تو جونیجو صاحب کے وزیراعظم بننے سے پہلے ہی شروع ہو گئے تھے۔

صدر جنرل ضیاالحق نے اپنا صوابدیدی اختیار استعمال کرتے ہوئے جب محمد خان جونیجو کو وزیراعظم نامزد کر دیا تو پہلی ملاقات جس میں جنرل کے ایم عارف بھی موجود تھے۔

وہ بتاتے ہیں کہ جب جونیجو صاحب نے جنرل ضیا الحق سے سوال کیا کہ مارشل لا کب اٹھے گا؟ کیونکہ جب وزیراعظم ہو گا تو مارشل لا تو نہیں چل سکتا، تو پہلے 12 منٹ میں ہی اختلاف سامنے آ گیا تھا کیونکہ راوی بتاتے ہیں کہ جنرل ضیا الحق کے چہرے پر ناگوار تاثرات تھے۔

سلیم بخاری کا کہنا ہے کہ ‘جب محمد خان جونیجو نے وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھال یا تو انھوں نے پر پرزے نکالنے شروع کیے، ان کے لیے ہوئے کئی فیصلوں سے صدر ضیا الحق کو اتفاق نہیں تھا اور بعض معاملات پر ان کا خیال تھا کہ جونیجو صاحب ان کے دائرہ کار میں مداخلت کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ جنرل ضیا بہرحال ایک آمر تھے اور وہ نہیں چاہتے تھے کہ انہی کا نامزد کیا ہوا وزیر اعظم ان کےسامنے ریڈ لائن کراس کرے کیونکہ اس وزیراعظم کو تو لایا ہی اس لیے گیا تھا کہ دنیا کو دکھایا جا سکے کہ پاکستان میں جمہوری نظام نافذ ہے۔’

راجہ ظفر الحق صدر جنرل ضیا الحق اور وزیر اعظم محمد خان جونیجو کے درمیان اختلافات اور ان کی وجوہات کی تفصیلات سے خوب واقف ہیں۔

وہ بتاتے ہیں کہ ‘اپریل 1986 میں بے نظیر بھٹو کی واپسی کے بعد سے ملک میں سرگرم اپوزیشن جماعتوں سے وزیر اعظم جونیجو کے رابطوں کو فوجی قیادت پسندیدگی کی نگاہ سے نہیں دیکھتی تھی۔ جب جنیوا معاہدے سے قبل جونیجو صاحب نے اپوزیشن جماعتوں کی آل پارٹیز کانفرنس مشورے کے لیے طلب کی تو جنرل ضیا الحق نے انھیں کہا کہ وہ اس آل پارٹیز کانفرنس میں شرکت اور خطاب کرنے کے خواہشمند ہیں۔

‘جنرل ضیا الحق نے محمد خان جونیجو سے کہا کہ میں جنیوا مذاکرات کے حوالے سے اپنا مؤقف ان لوگوں کے سامنےرکھنا چاہتا ہوں کہ میں کیوں معاہدے کے حق میں نہیں ہوں (جنرل ضیاء الحق افغانستان میں مستحکم سیاسی حکومت کے قیام سے قبل جینوا معاہدے پر دستخط کرنے کے حق میں نہیں تھے) لیکن محمد خان جونیجو نے صاف منع کر دیا اور کہا کہ آپ کو بلایا تو ان میں کوئی بھی اے پی سی میں شریک نہیں ہو گا۔

جنرل ضیاء
،تصویر کا ذریعہGETTY IMAGES
‘راجہ ظفر الحق کہتے ہیں اس آل پارٹیز کانفرنس میں اپوزیشن جماعتوں نے محمد خان جونیجو کو ہر طرح سے تعاون کا یقین دلایا اور یہ جنرل ضیاء الحق کے لیے بڑا دھچکا تھا۔’

اس واقعے کے بارے میں عظیم چوہدری کا کہنا ہے کہ ‘جنرل ضیا الحق کے منع کرنے کے باوجود جنیوا معاہدہ کیا گیا اس حوالے سے جونیجو صاحب نے گول میز کانفرنس بھی منعقد کرائی جس میں بے نظیر بھٹو بھی شریک ہوئیں۔ یہ کانفرنس ایک روز میں ختم نہیں ہوئی بلکہ یہ دو روز تک جاری رہی۔‘

اس حوالے سے اس وقت کے وزیر قانون اقبال احمد خان نے مجھے بتایا کہ دوسرے روز جنرل ضیاء الحق نے ان کو فون کیا اور کہا کہ یہ ڈرامہ کب تک چلے گا؟ پھر جنرل ضیا الحق نے کہا کہ میں آپ کو بتا رہا ہوں کہ اگر آپ لوگوں نے جنیوا معاہدے پر دستخط کیے تو:

‘People will lynch you’

افتخار احمد کہتے ہیں کہ جنرل ضیاء الحق کو جنیوا معاہدے کے حوالے سے محمد خان جونیجو کی پالیسی سے شدید اختلاف تھا اور وہ کہتے تھے کہ ‘جونیجو صاحب نے ساری اپوزیشن کا مؤقف لے لیا ہے لیکن یہ میرے مؤقف کو اہمیت دینے پر تیار نہیں ہیں۔’

راجہ ظفر الحق 25 دسمبر 1987 کو ایوان صدر اسلام اباد میں منعقد کی جانے والی اہل دانش کانفرنس کا بھی ذکر کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ‘جنرل ضیا الحق نے مجھ سے اصرار کیا کہ میں اس میں شرکت کروں اور محمد خان جونیجو سے بھی اس میں شرکت کے لیے کہوں لیکن جب میں نے جونیجو صاحب سے ذکر کیا تو انھوں نے کہا کہ مجھے بھی انھوں نے کہا ہے لیکن پارلیمنٹ کی موجودگی میں صدر صاحب کیوں یہ تماشا لگا رہے ہیں۔ وہ منتخب حکومت کو اس کا کام کرنے دیں۔’

راجہ ظفر الحق کہتے ہیں کہ ‘مجھے اندازہ ہو گیا کہ معاملات خراب ہو رہے ہیں اس لیے میں نے دونوں کو اکھٹا کرنے کا فیصلہ کیا اور ایک روز جونیجو صاحب کو ساتھ لے کر آرمی ہاؤس چلا گیا۔ اس ملاقات میں صدر ضیا الحق نے محمد خان جونیجو سے ان کی حکومت اور پارلیمنٹ کی کارکردگی پر عدم اطمینان ظاہر کیا اور کہا کہ آپ کام نہیں کرتے، کوئی قانون سازی نہیں ہو رہی، لوگ میری گاڑی روک روک کر اس پر مکے مارتے ہیں۔’

اس کے جواب میں محمد خان جونیجو نے کہا کہ ‘آپ اتنا طویل عرصہ حکومت کرتے رہے ہیں تو جو ضروری کام تھے وہ آپ کر جاتے، مجھے تو پارلیمنٹ کو ساتھ لے کر چلنا ہے۔’

وہ بتاتے ہیں کہ ‘اس ملاقات میں یہ بھی طے ہوا کہ صدر اور وزیر اعظم کی ہر دو ہفتے میں ایک ملاقات میری موجودگی میں ہوا کرے گی لیکن ایسا ہو نہ سکا۔’

‘پارلیمنٹ کی بالا دستی کا دور صرف محمد خان جونیجو کا ہے’

افتخار احمد، محمد خان جونیجو کی اسی سوچ کے حوالے سے ان کو ایک منفرد لیڈر قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ‘ہم سب پارلیمنٹ کی بالا دستی کی بات تو کرتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں اگر آپ نے پارلیمنٹ کی بالا دستی دیکھنی ہے تو وہ دور صرف محمد خان جونیجو کا ہے۔ محمد خان جونیجو نے ملک کو آئین کے مطابق چلانے کی جو کوشش کی ہے وہ تاریخ کا حصہ ہے۔‘

‘جونیجو صاحب نے دفاعی بجٹ کو پارلیمنٹ میں زیر بحث لانے کی کوشش کی، انھوں نے اوجڑی کیمپ کے سانحہ کی رپورٹ کے حوالے سے دبنگ اعلان کر دیا کہ یہ رپورٹ پارلیمنٹ میں پیش کی جائے گی اور عوام کو بتایا جائے گا کہ کیا ہوا؟ اگر کوئی قومی سلامتی کا معاملہ ہوا تو اس کا خیال رکھا جائے گا لیکن قوم کو اعتماد میں لازمی لیا جائے گا۔’

افتخار احمد کہتے ہیں کہ ‘محمد خان جونیجو نے اپنے دور میں ان تمام فوجی افسروں کے لیے جو سول انتظامیہ میں خدمات انجام دے رہے تھے یہ حکم جاری کیا کہ ان کی تین سال کی ڈیپوٹیشن پوری ہونے کے بعد ان کو واپس ان کے محکموں میں بھیجا جائے اور توسیع نہ دی جائے۔

‘محمد خان جونیجو کے دور میں تمام سیاسی جماعتوں کو کھل کر کام کرنے کی اجازت تھی۔ بے نظیر بھٹو اس کے دور میں پاکستان واپس آئیں اور ملک بھر اس نے تاریخی جلسے کیے اور کسی مقام پر کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی گئی بلکہ کئی شہروں میں تو پانی اور بجلی کی سہولت بھی دی گئی۔’

بھٹو
،تصویر کا ذریعہGETTY IMAGES
افتخار احمد کہتے ہیں کہ ‘اس وقت کے آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل اختر عبدالرحمان کی مدت ملازمت میں غیر معینہ مدت کی توسیع پر محمد خان جونیجو کو سخت اعتراض تھا، ان کا کہنا تھا کہ ان کی مدت ملازمت بھی پوری ہو گئی ہے اور منصب کی مدت بھی تو پھر یہ کیوں اس پر قائم ہیں اور محمد خان جونیجو ان کے حوالے سے اختلاف رائے کا کھلم کھلا اظہار بھی کرتے تھے۔’

افتخار احمد یہ انکشاف بھی کرتے ہیں کہ ‘جونیجو صاحب نے کہہ دیا تھا کہ اگر صدر مملکت 23 مارچ کو سلامی لیتے تو 14 اگست کو سلامی اور پرچم کشائی کا حق وزیر اعظم کو دیا جائے۔’

عظیم چوہدری بھی جنرل اختر عبدالرحمان اور محمد خان جونیجو کے حوالے سے ایک مختلف بات بتاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جنرل ضیاء الحق اور محمد خان جونیجو کے درمیان بہت اہم معاملہ جو سنگین صورت اختیار کر گیا تھا وہ جنرل ضیا الحق کے گھر کی خفیہ نگرانی کا تھا۔

وہ بتاتے ہیں کہ ‘جنرل ضیا الحق کو یہی بتایا گیا کہ یہ خفیہ نگرانی محمد خان جونیجو کی ہدایت پر کی جا رہی ہے، آپ کے فون ٹیپ کیے جاتے ہیں اور آمدورفت کی ویڈیو بھی بنتی ہے۔‘

‘اس میں خود محمد خان جونیجو کا کہنا تھا کہ جنرل اختر عبدالرحمان نے یہ غلط فہمی پیدا کی، نہ میرا فون ٹیپ کرنے سے کوئی تعلق تھا نہ ان کے گھر آنے جانے والوں کی ویڈیو بنانے کا نہ میں نے کبھی کہا، نہ ہی میرے علم میں تھا۔ اس بات کی تصدیق تو بیگم شفیق ضیاء الحق نے میرے سامنے بھی کی کہ ان کے گھر کے فون ٹیپ ہوتے تھے، حتیٰ کہ جنرل ضیاء الحق کی والدہ کا فون بھی ٹیپ ہوتا تھا۔’

راجہ ظفر الحق اس حوالے سے ایک دوسرے زاویے سے بتاتے ہیں کہ ‘جنرل ضیا الحق کی کابینہ میں وزیر دفاع رہنے والے میرعلی احمد تالپور حیدرآباد میں وفات پا گئے تو جنرل ضیا الحق کے سی 130 میں میں بھی ان کے ساتھ تھا۔ راستے میں جب کیبن میں جنرل ضیا الحق، اختر عبدالرحمان، جنرل جہانداد خان اور میں خود موجود تھے تو جنرل اختر عبدالرحمان نے مجھ سے مخاطب ہو کر کہا کہ ‘آپ کوئی کردار ادا کریں کیونکہ اگر جونیجو صاحب کا خیال ہے کہ وہ جنرل ضیا الحق کو صدر فضل الہٰی بنا کر رکھ دیں گے تو یہ جونیجو صاحب کے لیے ممکن نہیں ہو گا۔ ان کو بتا دیں کہ وہ اس طریقے سے صدر صاحب کی پوزیشن خراب نہ کریں۔ اس پر جنرل ضیاء الحق نے بہت تحمل سے انھیں کہا کہ ‘بس آپ نے یہ راجہ صاحب سے کہہ دیا یہ کافی ہے۔’

سلیم بخاری کا کہنا ہے کہ ‘محمد خان جونیجو کی وزارت عظمیٰ کے تابوت میں آخری کیل اس وقت ٹھوکی گئی جب انھوں نے فوجی افسروں کی ترقیوں اور تقرریوں کی فائلیں ایوان وزیر اعظم میں روکنا شروع کر دیں۔ وہ بعض افسروں کی فائلیں ازخود طلب کرنے لگے تھے اور جو فائلیں بھجوائی جاتی تھیں ان کو روکنے لگ گئے تھے۔’

عظیم چوہدری کہتے ہیں کہ ‘ایک بڑا اختلاف جنرل مرزا اسلم بیگ کی بطور وائس چیف آف سٹاف کی تقرری کا بھی تھا۔ جنرل ضیا الحق کا خیال تھا کہ یہ تقرری ان کی مرضی سے ہونی چاہیے اور وہ اسلم بیگ کو اس منصب پر فائز نہیں کرنا چاہتے تھے لیکن جونیجو صاحب نے ان سے اتفاق نہیں کیا اور کہا کہ یہ وزیر اعظم کا اختیار ہے اس طرح انھوں نے جنرل اسلم بیگ کو وائس چیف آف آرمی سٹاف مقرر کر دیا جس میں جنرل ضیا الحق کی مرضی شامل نہیں تھی۔’

سلیم بخاری بھی جنرل اسلم بیگ کی بطور وائس چیف آف سٹاف تقرری میں صدر ضیا اور وزیر اعظم جونیجو کے درمیان اختلاف کی تصدیق کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ‘یہ معاملہ بھی سنگین اختلاف میں شمار کیا جا سکتا ہے کیونکہ جونیجو صاحب نے جنرل اسلم بیگ کی تقرری جنرل ضیا الحق کی مرضی کے خلاف کی تھی۔’

جاوید میانداد کی چھکے والی کار اور صوبیدار صادق

اس کے علاوہ بھی دونوں کے درمیان دو اور بظاہر چھوٹے معاملات پر بھی اختلاف تھا۔ عظیم چوہدری کا کہنا ہے کہ ‘جاوید میانداد نے اپنا شہرت یافتہ چھکا لگانے کے بعد ایک قیمتی گاڑی پاکستان لانے کے لیے کسٹم ڈیوٹی کی معافی کی درخواست جنرل ضیا الحق کو بھیجی۔

’جنرل ضیا الحق نے یہ درخواست جونیجو صاحب کو سفارش کے ساتھ بھیج دی کہ یہ رعایت دے دیں لیکن انھوں نے اس کو روک لیا اور لکھا کہ صوابدیدی فنڈ سے ڈیوٹی ادا کر کے گاڑی درآمد کرنے کی اجازت دے دیں کیونکہ کسٹم ڈیوٹی کی معافی کی اجازت قانون نہیں دیتا۔ اسی طرح ایک بیوہ کو سرکاری مکان کی مالکانہ حقوق پر الاٹمنٹ کی جنرل ضیاء الحق نے سفارش کی جس پر جونیجو صاحب نے پھر عذر پیش کرتے ہوئے لکھا کہ انھیں پلاٹ الاٹ کر دیں اور صوابدیدی فنڈ سے مکان کی تعمیر کے لیے رقم جاری کر دیں۔’

راجہ ظفر الحق اس سے ملتے جلتے لیکن زیادہ سنجیدہ اور سنگین معاملے کی تفصیل بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ ‘صوبیدار صادق جنرل ضیا الحق کے ذاتی خدمتگار تھے جو ان کی وردی، ان کی اشیا بشمول ادویات وغیرہ کا خیال رکھتے تھے۔ ان کی ریٹائرمنٹ کی تاریخ آ گئی، جنرل ضیا الحق نے اپنے چیف آف سٹاف لیفٹیننٹ جنرل رفاقت سے کہا کہ اس کی مدت ملازمت میں توسیع کرا دیں کیونکہ مجھے صوبیدار صادق کے علاوہ کسی سے کام کروا کے تسلی نہیں ہوتی۔

جنرل رفاقت نے کہا کہ ‘سر اس کا اختیار تو اب وزیر اعظم کے پاس ہے، میں جونیجو صاحب سے بات کر لیتا ہوں، اس طرح جنرل رفاقت نے بات کی اور فائل بھیج دی، دوسرے دن وزیر اعظم آفس سے فائل واپس آئی جس پر لکھا تھا کہ

“Prime Minister is pleased to decline the summary”

‘اس پر ظاہر ہے کہ جنرل ضیاء الحق نے کیا محسوس کیا ہو گا لیکن انھوں نے جنرل رفاقت سے کہا کہ ریٹائرمنٹ کے بعد آپ صوبیدار صادق کو یہیں رکھیں اور میری تنخواہ میں سے ان کو ادائیگی کر دیا کریں، اس طرح یہ نظام آگے بڑھا۔’

محمد خان جونیجو کی معاشی پالیسیاں

جب بھی محمد خان جونیجو کی معاشی پالیسیوں کی بات کی جائے اور انھیں جاننے والے ان کی دیانتداری اور کفایت شعاری کی مثالیں پیش کرتے ہیں اور انہی کی روشنی میں محمد خان جونیجو نے پاکستان کی معاشی پالیسی کی سمت مقرر کرنے کی کوشش کی۔

راجہ ظفر الحق وزیر اعظم محمد خان جونیجو کی دیانتداری کی گواہی دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ‘جو شخص بطور وزیر اعظم شام کو وزیر اعظم ہاؤس کی گاڑیوں کی لاگ بک بھی چیک کرے اس کی دیانت پر آپ کیا شبہ کر سکتے ہیں؟’

سینئر صحافی ضیا الدین کا کہنا ہے کہ ‘محمد خان جونیجو کی دور کی معاشی پالیسیوں پر غلام اسحاق کی چھاپ تھی کیونکہ جنرل ضیا کے ساتھ طویل عرصے تک بطور وزیر خزانہ کام کرنے والے غلام اسحاق کے لیے پاکستانی معشیت کے اعداد و شمار انگلیوں پر تھے اور ان کے ساتھ ڈاکٹر محبوب الحق بھی بنیادی طور پر جنرل ضیا الحق کی ہی ٹیم کا حصہ تھے۔

‘اس لیے جونیجو دور میں بھی وہی عمل جاری رہا کہ تعلیم اور صحت کے شعبوں کو پبلک سیکٹر سے پرائیویٹ سیکٹر کی طرف منتقل کیا جائے اور یہ پالیسی عالمی بینک کی طرف سے تجویز کی جا رہی تھی۔ اس پالیسی کے نتیجے میں مڈل کلاس بری طرح متاثر ہو رہی تھی کیونکہ تعلیم اور صحت کی سہولتیں مہنگی ہو رہی تھیں جبکہ مالی وسائل دن بدن سکر رہے تھے۔’

سینئر فوجی افسروں کا سوزوکی ایف ایکس میں بیٹھنے سے انکار

انگریزی اخبار ڈان میں شائع ہونے والے شیخ عزیز کے مضمون می کہا گیا ہے کہ ‘1987-88 کے بجٹ میں محمد خان جونیجو نے کفایت شعاری کی مثال قائم کرتے ہوئے ایک نئی مثال قائم کی۔ انھوں نے سرکاری خزانے سے نئی، بڑی اور درآمدی گاڑیوں کی خریداری کی شق ختم کر دی۔

انھوں نے حکم دیا کہ وہ تمام سرکاری افسر جو سرکاری گاڑی استعمال کرنے کے مجاز ہیں وہ اب درآمدی گاڑیوں کی بجائے مقامی طور پر تیار کردہ سوزوکی گاڑیاں استعمال کریں گے۔

وہ لکھتے ہیں کہ ‘اس میں کوئی شک نہیں کہ اس سے قومی خزانے پر پڑنے والا بہت سا مالی بوجھ کم ہو گیا لیکن دوسری جانب افسران ان کے خلاف ہو گئے۔ فوجی افسروں نے تو جونیجو صاحب کی حکم عدولی اس انداز میں کی کہ انھوں نے وزیر اعظم ی خواہش کے برعکس پرانی جیپوں کے استعمال کو ترجیح دی۔’

سینیئر صحافی احتشام الحق کہتے ہیں کہ جونیجو دور میں ترقیاتی بجٹ میں اضافہ اور غیر ترقیاتی بجٹ میں نمایاں کم کر دی گئی تھی۔ انھوں نے 1987-88 کے بجٹ میں اعلان کیا کہ گریڈ 22 کے افسروں کے لیے ایک ہزار سی سی کی مقامی طور پر تیار کردہ سوزوکی گاڑیاں استعمال کریں گے اور یہی ضابطہ انھوں نے فوجی جرنیلوں کے لیے بھی نافذ کر دیا تھا۔ جونیجو صاحب کا یہ فیصلہ سول اور ملٹری بیوروکریسی کو ہضم نہیں ہوا اور ان کے لیے مشکلات بڑھتی چلی گئیں۔

راجہ ظفر الحق کہتے ہیں کہ ‘جونیجو صاحب ک سوزوکی گاڑیوں والی تقریر سرکاری ٹی وی پر چلنے سے روک دی گئی تھی اور اس کے لیے اس وقت کے سیکریٹری اطلاعات لیفٹیننٹ جنرل مجیب الرحمان سے کہا گیا تھا۔’

وہ پاکستان کے صدر اور وزیر اعظم کے درمیان اختلافات کی خلیج گہری کرنے کا ذمہ دار ان افراد کو قرار دیتے ہیں جو دونوں طرف کان بھرنے کا کام کر رہے تھے، جو ادھر کی باتیں ادھر اور ادھر کی باتیں ادھر کر رہے تھے۔

وہ بتاتے ہیں کہ ‘صدر ضیا الحق کو کہا جاتا تھا کہ آپ نے ان کو وزیر اعظم بنایا اور انھوں نے اپوزیشن کو اپنے ساتھ بٹھا لیا۔ انھی دنوں جرنیلوں کے لیے سوزوکی گاڑیوں والا واقعہ بھی ہوا تو اس وقت کے سیکریٹری اطلاعات لیفٹیننٹ جنرل مجیب الرحمان نے وہ خبر سرکاری ٹی وی پر نہیں چلنے دی، یہ معاملہ بھی ایک وجہ اختلاف بن گیا اور پھر وہ دن آیا جب جونیجو صاحب جاپان کے دورے سے واپس آئے تو ان کے ایئر پورٹ لینڈنگ کے وقت جنرل ضیا الحق نے انھیں وزارت عظمیٰ سے برطرف کر دیا۔’

سلیم بخاری اس صورتحال کو مضحکہ خیز قرار دیتے ہیں کہ ‘ایک شخص غیر ملکی دورے پر بطور وزیر اعظم روانہ ہوا لیکن واپسی پر وہ کچھ بھی نہیں تھا۔’

29 مئی 1988 کی سہ پہر
وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی یہ ایک گرم سہ پہر تھی۔ سورج مغرب کی جانب بہت آہستہ آہستہ گامزن تھا، بلیو ایریا میں امریکن سنٹر کی عمارت کی پارکنگ کے دوسرے کنارے پر پشاور کے انگریزی روزنامے دی فرنٹیئر پوسٹ کا بیورو آفس تھا۔ میں اپنے دوست صحافی طاہر اکرام کے ہمراہ وہاں بیٹھا تھا کہ کسی نے ٹیلی فون پر جونیجو حکومت کی برطرفی کی اطلاع دی۔

میں اور طاہر اکرام دفتر سے نکلے اور غیر ارادی طور پر بائیک پر جناح ایونیو پر نکل کھڑے ہوئے، سامنے سے فوجی جیپ اور اس کے پیچھے گن بردار ٹروپس کی گاڑی آتی دکھائی دی، ہمارا رخ مخالف سمت میں تھا لیکن ہم لوگ بائیک موڑ کر اس کے پیچھے چل پڑے، گاڑیوں کی رفتار بہت آہستہ تھی، ہم لوگ بھی انہی کی رفتار سے چلے، گاڑیوں نے پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے جا کر دائیں طرف شاہراہ آئین کا راستہ لیا اور ریڈیو پاکستان والے چوک سے شاہراہ جمہوریت پر چڑھ گئیں، ان کی منزل وزیر اعظم سیکرٹریٹ تھی، یہ وہی عمارت ہے جہاں اب نادرا ہیڈ کوارٹر ہے۔

مین گیٹ پر پہنچ کر جیپ رک گئی، جیپ سے ایک میجر صاحب اترے اور گیٹ کی جانب چلے، ان کے عقب میں ٹروپس گاڑی میں سوار اہلکاروں نے وائرلیس سیٹ اور اس سے متعلقہ سامان اتارنا شروع کیا۔ طاہر اکرام نے آگے بڑھ کو میجر صاحب کو کہا ‘ایکسکیوز می سر، کین آئی ہیو اے ورڈ ود یو؟’

(Excuse me Sir, Can I have a word with you?)

جواب میں ایک مختصر لیکن خشک لہجے میں جواب ملا، “نو”۔

“No”

میں اور طاہر اکرام وہاں سے واپس ہو گئے، پاکستان کا جمہوری سیاسی نظام ایک نئے راستے پر چل پڑا تھا۔۔۔۔
————ظفر ملک
صحافی————–

https://www.bbc.com/urdu/pakistan-57285390