پی ایس او افسران کیسے کرپشن کرتے ہیں انتظامیہ خود بتا چکی ۔۔۔۔!

پاکستان اسٹیٹ آئل ملک میں پیٹرولیم مصنوعات کے حوالے سے خدمات انجام دینے والی سب سے بڑی کمپنی ہے اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ پاکستان کی معیشت کو چلانے کے حوالے سے ریڑھ کی ہڈی کا کام کر رہی ہے نہ صرف عام حالات میں بلکہ کسی بھی ہنگامی اور بحرانی زمانے میں اس کا کردار اور بھی زیادہ اہمیت کا حامل ہو جاتا ہے کیونکہ یہ پاکستان کی ڈیفنس سپلائی لائن بھی ہے اور حالت امن میں ملک کی معیشت کا پہیہ چلانے کی ذمہ دار بھی ۔
ایک اہم قومی ادارہ ہونے کی وجہ سے اس کمپنی سے منسلک تمام افسران اور ملازمین پر کمپنی کی ترقی بہتری اور استحکام کے لیے کام کرنا لازم ہے زیادہ تر افسران اور ملازمین اپنا کام بڑی دلچسپی محنت اور لگن سے انجام دیتے ہیں لیکن پی ایس او میں بڑے پیمانے پر کرپشن کرنے والے افسران اور ملازمین بھی اس کمپنی کی بدنامی کا باعث بن چکے ہیں احتساب بیورو میں ایسے افسران اور ملازمین کے خلاف الزامات کی بھرمار ہے مختلف عدالتوں میں پی ایس او کے بدعنوانی کے معاملات زیر بحث آ چکے ہیں اگرچہ ہر دور میں پاکستان اسٹیٹ آئل کی انتظامیہ اس بات کی دعویدار رہی ہے کہ ڈسپلن پر سختی سے عمل کیا جاتا ہے اور بدعنوانی کے خلاف سخت ایکشن لیا جاتا ہے اور اس بات کو یقینی بنایا جاتا ہے کہ کرپشن کے راستے کم سے کم ہو ں اس کے باوجود زمینی حقائق بتاتے ہیں کہ پاکستان اسٹیٹ آئل میں بڑے بڑے ڈاکے ڈالے گئے اور یہ لوٹ مار باہر سے نہیں بلکہ پی ایس او کے ٹھنڈے آرام دے دفاتر میں بیٹھے ہوئے افسران اور ملازمین کرتے رہے ۔
پی ایس او کے بارے میں باہر کے لوگ کیا بتاتے ہیں اور کیا جانتے ہیں یہ الگ بحث ہے لیکن خود پی ایس او کی انتظامیہ اپنے افسران کی کرپشن کے بارے میں کیا کچھ بتا چکی ہے آئیے ایسے معاملات کا جائزہ لیتے ہیں اس طرح آپ کو بخوبی اندازہ ہوگا کہ پی ایس او میں کرپشن کیسے ہوتی ہے کون کرتا ہے اور انتظامیہ کا موقف کیا رہاہے ۔


زیادہ پرانی بات نہیں ۔ستمبر 2018 کا معاملہ ہے ۔پاکستان کے ایک پرائیویٹ ٹی وی چینل 92 TV پر ایک سابق افسر نوید عالم زبیری تو مہمان بنایا گیا اور انہوں نے پی ایس او کے حوالے سے بہت سے انکشافات کیے اور الزامات لگائے ۔
پی ایس او کی انتظامیہ نے اس پروگرام میں اٹھائے جانے والے اعتراضات اور الزامات کی سختی سے تردید کردی اور اس بات پر احتجاج بھی کیا کہ 92 tv والوں نے ایک ایسے شخص کو اپنے پروگرام میں مہمان کیوں بنایا جو کرپشن کے الزامات پر کمپنی سے نکالا جا چکا ہے ۔
پی ایس او انتظامیہ کے مطابق ایف آئی اے نے سال2015 میں نوید عالم زبیری کو سنگین کرپشن الزامات پر گرفتار کیا ۔اسے کمپنی سے نکالا گیا تھا کیونکہ کمپنی کی الگ آزادانہ محکمہ جاتی انکوائری میں بھی الزامات ثابت ہو گئے تھے ۔پی ایس او نے عوام الناس اور میڈیا کو خبردار کیا کہ ایسے لوگ اپنے ذاتی اسکور سیٹل کرنے کے لئے غلط بے بنیاد اور گمراہ کن باتیں پھیلا کر عوام کو سچ پر حقائق جاننے کے بنیادی حق سے محروم کر رہے ہیں ۔پی ایس او نے 92 tv پیمرا اور PBA سے احتجاج کیا تھا اور ایسے لوگوں کو چینل کا پلیٹ فارم استعمال کرنے سے روکنے کی رہنما ہدایات جاری کرنے کی درخواست کی تھی ۔


پی ایس او کے مطابق نوید عالم زبیری کو اس وقت کے ایم ڈی پی ایس او جہانگیر علی شاہ اور ڈی ایم ڈی فنانس کی یعقوب سوتر سے ذاتی عناد اور مخالفت تھی ۔نوید زبیری نے سال 2011 میں پی ایس او میں ڈی ایم ڈی کے عہدے کے لیے اپلائی کیا تھا لیکن وزارت پٹرولیم نے جہانگیر علی شاہ کو ڈی ایم ڈی بنا دیا تھا ۔نوید زبیری نے سال 2011 میں قائم مقام مینیجنگ ڈائریکٹر بننے پر بھی جہانگیر علی شاہ کی مخالفت کی تھی اور عدالت میں درخواست بھی دائر کی گئی تھی لیکن یہ فیصلہ حکومت پاکستان کی صوابدید پر مبنی تھا لہذا عدالت سے درخواست مسترد ہو گئی تھی ۔
19 جولائی سال 2010 کو نوید زبیری کو کمپنی نے ایکسپلینیشن لیٹر جاری کیا جو فنانشل گھپلوں کے حوالے سے تھا جب وہ MD- APL ایشیا پٹرولیم لمیٹڈ تھے ۔یہ انکوائری مقررہ مدت میں مکمل نہ ہو سکی اور ایف آئی اے نے انہیں گرفتار کر لیا کے حوالے سے ایف آئی آر نمبر 18/2015 ۔۔۔۔۔جس میں رشوت وصولی اور دیگر قسم کے الزامات عائد کیے گئے تھے ۔
کمپنی کے بورڈ آف ڈائریکٹرز نے زبیری کیس کو دوبارہ کھلوایا اور محکمہ جاتی انکوائری کرائی گئی یعقوب سوتر انکوائری افسر بنے 14 اکتوبر سال دو ہزار سولہ 2016 تو انہوں نے اپنی رپورٹ پیش کی جس میں پرانے الزامات کو درست قرار دیا گیا ۔
30 جولائی 2018 کو نوید زبیری کو کمپنی سے ڈسمس کر دیا گیا ۔پی ایس او انتظامیہ کا موقف تھا کہ نوید بیری ایک ایجنڈے کے تحت پی ایس او کے دو اعلی افسران کے خلاف ٹی وی پر منفی مہم چلا رہے ہیں ۔
پی ایس او نے قائم مقام ایم ڈی اور سی ای او جہانگیر علی شاہ پر لگائے گئے الزامات مسترد کردیئے اور بتایا کہ چونتیس سالہ کیریئر میں وہ تمام پرموشن قواعد کے مطابق لیتے رہے ہیں 1984 میں انہوں نے کمپنی میں شمولیت اختیار کی تھی ان کی تعلیمی قابلیت اور ڈگریوں کو چیلنج کرنے کے حوالے سے الزامات بھی ادارے نے مسترد کر دیئے ۔
ڈی ایم ڈی فنانس اور سی ایف او یعقوب سوتر پر لگائے جانے والے الزامات بھی کمپنی نے مسترد کیے اور بتایا کہ وہ ایک قابل چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ ہیں تیس سال کا تجربہ ہے ان کے حوالے سے مراعات کو جان بوجھ کر بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا کمپنی نے یہ بھی کہا کہ جان بوجھ کر پی ایس او کو دس سال سے ناکامی کے دہانے پر کھڑا کر دیا گیا ہے حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے پی ایس او ایک شاندار مالی نتائج حاصل کرنے والی کمپنی ہے اور یہ واحد کمپنی ہے جو ایک ٹریلین روپے کا ریونیو دے رہی ہے لہذا کمپنی میں کرپشن کے الزامات غلط اور بے بنیاد ہیں پروگرام کے میزبان نے 15 کھرب کی کرپشن کے الزامات لگائے جو مذاق ہیں ۔پی ایس او کے بارے میں ٹی وی پروگرام میں لفظ مافیا کا استعمال پر بھی انتظامیہ نے سخت احتجاج کیا ۔ایک ship ان لوڈ نہ ہونے کے معاملے پر پی ایس او کا کہنا تھا کہ pacific poineer نامی ship کے معاملے پر عدالت میں بحث ہو رہی ہے لہذا کمنٹری مناسب نہیں ۔جہاز کو برتھ ہونے میں تاخیر کا تنازعہ عدالت میں زیر سماعت ہے ۔پی ایس او کے مطابق پروگرام میں کریڈٹ کنٹرول ڈیپارٹمنٹ میں 94 ملین روپے کے نقصانات کا حوالہ دیا گیا اور الزام لگانے والا بھول گیا کہ کمپنی کے انٹرنل چیکنگ سے یہ معاملہ سامنے آیا تھا اور پچاس ملین روپے سے زیادہ ملزم سے ریکور کیے گئے تھے ۔پی ایس او نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ذریعے ملزم سے تیس ملین روپے کی پراپرٹی بھی ضبط کی تھی ۔


مکمل انکوائری کے بعد ملزم کو کمپنی سے نکالا گیا اور معاملہ ایف آئی اے کے حوالے کیا گیا جس نے عدالت میں اپنی رپورٹ جمع کرائی۔
پی ایس او نے تسلیم کیا کہ پروگرام میں افسران کے نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ہونے کا کہا گیا جو درحقیقت حکومت پاکستان کا فیصلہ ہے اور نام ای سی ایل میں ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ کوئی افسر عہدہ اپنے پاس نہیں رکھ سکتا ۔پروگرام میں جن دو سینئر افسران کے نام لیےگئے وہ نا صرف انویسٹیگیشن ادارے سے بھرپور تعاون کر رہے ہیں بلکہ قانون کے مطابق بیرون ملک سفر بھی کر کے واپس پاکستان آ چکے ہیں یہ دورے ذاتی اور بزنس امور کی ادائیگی کے حوالے سے تھے ۔

محترم قارئین ۔۔آپ نے ملاحظہ فرمایا کے پی ایس او انتظامیہ خود اعتراف کر چکی ہے کہ ایک افسر نوید عالم زبیری پی ایس او میں رہتے ہوئے بڑے پیمانے پر کرپشن کرتا رہا بعد میں پی ایس او نے انٹرنل چیکنگ سسٹم کے ذریعے اس کی کرپشن کا پتہ لگایا 50 ملین روپے ریکور کیے 30 ملین روپے کی پراپرٹی قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مدد سے ضبط کی ۔یہ سب اعتراف بتا رہے ہیں کہ پی ایس او میں کس طرح بڑے پیمانے پر افسران کرپشن کرتے رہے ہیں جب وہ بڑے پیمانے پر لوٹ مار اور کرپشن میں ملوث ہوتے ہیں ان کا ہاتھ روکنے والا کوئی نہیں ہوتا پی ایس او کا انٹرنل سسٹم کچھ تو گڑبڑ ضرور رکھتا ہے سسٹم میں ایسی کمزوریاں ہیں جن کا فائدہ اٹھا کر پی ایس او کے بے ایمان افسران کرپشن کرنے میں مصروف رہتے ہیں اور برسوں بعد ان کی کرپشن اور لوٹ مار کا پتہ چلتا ہے سسٹم کی ان کمزوریوں کی نشاندہی اور انہیں جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے اقدامات کی ضرورت ہے ۔