ھائر ایجوکیشن کمشن پاکستان اور متوسط طبقہ کے نوجوانوں کے لیے علم دشمنی پالیسیاں

تحریر ۔۔۔شہزاد بھٹہ۔۔

ھم نے 72 سال سے پاکستان کو ایک تجربہ گاہ بنا رکھا ھے تقریباً ہر شعبہ زندگی میں  کوئی مستقل پالیسی نہیں بلکہ  روز روز نئے نئے تحربات کیے جا رھے ہیں خاص طور پر تعیلم اور صحت  کا شعبہ تو اس کا شدید شکار نظر آتا ھے ائے روز نئی نئی پالیسی بنائی جاتی ھیں لاکھوں کروڑوں روپے خرچ کیے جاتے اور پھر ناکامی کا منہ دیکھنا پڑتا ھے
مثال کے طور پر ہاہر ایجوکیش کمیشن نے چند سال پہلے گورنمنٹ  کالجز میں سالوں سے جاری دو سالہ ڈگری پروگرام بی اے ختم کر کے ایف اے کے بعد بی ایس انرز  چار سالہ پروگرام شروع کیا۔۔
اس کے برعکس ھائر ایجوکیشن کمشن نے نجی تعلیمی اداروں کو بی اے پروگرام جاری کرنے کی اجازت دے دی ۔جہاں سے نوجوان بھاری فیسز ادا کر کے بی اے کی ڈگریاں حاصل کررھے ھیں کیونکہ بی اے کی اہمیت مسلمہ ھے
بی اے کے بعد غریب اور درمیانہ درجہ کے لوگوں کے لیے ملازمت کے بے شمار مواقع موجود ہیں بلکہ متوسط خاندانوں کے نوجوان کمیشن کا امتحان دے کر اچھی ملازمت حاصل کرلیتے تھے
مگر ہائر ایجوکیش کمیشن پاکستان نے سالوں سے جاری ایجوکیش کی ڈگری پروگرام بی ایڈ, ایم ایڈ / ایم اے ایجوکیش و اسپشل ایجوکیشن دیگر ماسڑ پوگرامز ختم کرکے چار سال بی ایڈ / بی ایس (انرز) شروع کرکے غریب اور متوسط طبقہ کے لیے تعلیم کے دروازے بند کیے جارھے ہیں۔۔۔پہلے ایف اے / ایف ایس سی کرنے کے بعد نوجوان اسانی سے دو سالہ بی اے / بی ایس سی کر لیتے تھے جس پر مالی اخراجات اور وقت بھی کم خرچ ھوتا تھا ۔۔نوجوان دو سالہ بی اے / بی ایس سی کرنے کے بعد مختلف شعبوں میں باسانی نوکری حاصل کرلیتے تھے اور اپنے خاندانوں کی کفالیت کرتے ھیں ۔
یہ بھی دیکھا گیا ھے کہ متوسط کلاس سے تعلق رکھنے وقلے نوجوان لوگ جاب کے ساتھ ساتھ اپنی تعلیم کو بھی جاری رکھتے تھے ایسے افراد کے لیے بھٹو شہید کی حکومت نے علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام اباد میں قائم کی اور پاکستان بھر میں اس کے سب کمپیس بھی بنائے۔علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی نے فاصلیاتی لرننگ سسٹم کے تحت میڑک سے لیکر پی ایچ ڈی تک مختلف مضامین میں پروگرام شروع کیے ۔۔لاکھوں نوجوانوں نے اپنی نوکریوں کے ساتھ ساتھ اعلی تعلیم کی ڈگریاں حاصل کرکے اعلی عہدوں پر پہنچ گئے ۔
اخر کیوں سالوں سے جاری کامیاب بی اے / بی ایس سی/ بی ایڈ / بی ایس ایڈ ۔ ایم اے / ایم ایس سی تعلیمی پوگرامز ختم کر کے نئے چار سالہ بی ایس / بی ایڈ انرز پروگرام شروع کردیئے جن پر خرچ بھی زیادہ اور قیمتی وقت کا ضیا بھی جو متوسط طبقہ کے نوجوانوں کے خلاف ایک سازش تو نہیں ۔
ایک سروے کے مطابق سرکاری تعلیمی کالجز کے بی ایس انرز پروگرام میں داخلہ لینے والے زیادہ تر نوجوان دوران سٹڈی ھی یہ چار سالہ بی ایس( انرز) ڈگری پروگرام چھوڑ کر چلے جاتے ہیں.کیونکہ متوسط طبقہ کے پاس نہ تو اتنے پیسے ھوتے ھیں اور نہ فالتو وقت ۔۔زیادہ تر نوجوان طبقہ اپنی تعلیم چھوڑ کر چنگچی رکشہ چلانے پر مجبور ھیں یا کوئی اور معمولی کام کرکے اپنا اور اپنی فیملی کا پیٹ پا رھے ھیں
جن کے پاس وسائل ھیں وہ پرائیوٹ سیکٹر کے تعلیمی ادارے سے بی اے کی ڈگریاں حاصل کر رھے ھیں۔۔
سوچنے کی بات ھے کہ ھائر کمشن پاکستان اپنے ایسے اقدامات سے غریب اور متوسط خاندانوں کے لیے تعلیم کے دروازے غیر محسوس انداز سے اہستہ اہستہ بند تو نہیں کر رھا
حکومت پاکستان سے درخواست ھے کہ وہ ھائر ایجوکیشن کمشن کو یدایت جاری کرے کہ وہ علم دشمنی چھوڑ کر صدیوں پرانی دو سالہ بی اے / بی ایس سی / ایم اے / ایم ایس سی ڈگری پروگرام دوبارہ سے شروع کرے تاکہ پاکستان کی مڈل کلاس باسانی تعلیم حاصل کر کے ملک و قوم کے لیے کارامد شہری ثابت ھو سکیں۔
۔ذرا سوچیے کہ ھمارے ساتھ کیا ھو رھا ھے