جدید ہتھیاروں سے لیس‘ جنوبی پنجاب کا لادی گینگ کون ہے؟

پاکستان کے آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبہ پنجاب کے جنوبی علاقے ڈیرہ غازی خان میں ہونے والے دوہرے قتل کے واقعے کے بعد پولیس اور بارڈر ملٹری فورسز کا جوائنٹ آپریشن لادی گینگ کے خلاف جاری ہے۔
ڈی جی خان کے قبائلی علاقے میں لادی گینگ نے تین افراد کو اغوا کرنے کے بعد دو کو بے دردی سے قتل کر دیا جبکہ ایک اب بھی ان کے قبضے میں ہے۔
واقعے کے بعد پنجاب کے وزیراعلیٰ سردار عثمان بزدار جو پہلے ہی سے ملتان کے دورے پر جانے والے تھے انہوں نے اس واقعے کا نوٹس لے لیا اور پولیس حکام کو ملتان پہنچنے سے پہلے رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی۔

وزیراعلیٰ ہاؤس کے مطابق ابتدائی رپورٹ ملنے کے بعد وزیر اعلی نے گینگ کے خلاف آپریشن کا حکم جاری کیا جو آخری اطلاعات آنے تک جاری ہے۔
وزیراعلیٰ کے احکامات کے مطابق تیسرے مغوی شخص کو زندہ بازیاب کروانے کی ہدایات بھی جاری کی گئی ہیں۔
علاقہ مکینوں کے مطابق ’رمضان، خیر محمد اور عارف نامی تین افراد اپنے گھر پر موجود تھے جب لادی گینگ نے ان کے گھر کا گھیراؤ کر لیا۔ دونوں طرف سے بڑی دیر تک فائرنگ کا تبادلہ ہوتا رہا جس کے بعد گھر میں موجود تینوں افراد کے پاس گولیاں ختم ہو گئیں۔‘
علاقہ مکینوں نے بتایا کہ ’لادی گینگ کے افراد نے گھر میں گھس کر تینوں افراد کو پکڑ لیا اور ایک کو اسی وقت گولی مار دی ، دوسرے شخص کی ویڈیو بنائی گئی اور تیسرے کو لے کر فرار ہو گئے۔‘
ایک مقامی صحافی جاوید فاروقی نے بتایا کہ ’ان دونوں گروپوں کے درمیان عرصہ دراز سے دشمنی چل رہی تھی اور یہ تینوں افراد بڑے عرصے کے بعد علاقے میں واپس آئے تھے اور ان کے آتے ہی یہ واقعہ رونما ہو گیا۔‘

لادی گینگ ہے کیا؟
ڈیرہ غازی خان جنوبی پنجاب کا سب سے پسماندہ ضلع تصور کیا جاتا ہے جس کا 52 فیصد حصہ قبائلی نظام پر مشتمل ہے جبکہ 48 فیصد حصے پر حکومتی عمل داری ہے۔
قبائلی علاقے میں کوہ سلمان کا پہاڑی سلسلہ ہے اور اس میں کئی طرح کے قبائل آباد ہیں۔ یہاں پر پرانے فاٹا طرز پر ایک پولیٹیکل اسسٹنٹ تعینات ہے جو یہاں کی ایگزیکٹو اتھارٹی ہے جبکہ یہاں عام پولیس کی بجائے بارڈر ملٹری فورس اور بلوچ لیوی کے اہکار تعینات ہیں۔
علاقے کے پولیٹیکل اسسٹنٹ حمزہ سالک کے مطابق ’لادی گینگ گذشتہ 10 سالوں سے متحرک ہے ان کے موجودہ سربراہ کا نام خدا بخش ہے اور یہ جدید ہتھیاروں سے لیس ہے۔ حتیٰ کہ اس گینگ کے پاس راکٹ لانچر بھی ہیں۔ پہلے اس گروہ کا کام چھوٹی موٹی ڈکیتیاں تھا لیکن اب یہ خاصے فعال ہو چکے ہیں۔ ناہموار علاقے کی وجہ سے ان کے خلاف کارروائی کرنا قدرے مشکل ہوتا ہے۔‘
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ ’پہلی دفعہ ان کے خلاف ایک موثر آپریشن کرنے جا رہے ہیں جس میں ہمیں پولیس اور رینجرز کی مدد بھی حاصل ہے۔ یہ علاقہ ایک پرامن علاقہ ہے جس میں کئی قبائل آباد ہیں اور کبھی بھی لا اینڈ آرڈر کی صورت حال کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ صرف لادی قبیلے کے کچھ افراد اب مشکلات پیدا کر رہے ہیں۔‘
لادی بنیادی طور پر ایک ذات ہے اور یہ کھوسہ قبیلے کا ذیلی قبیلہ ہے۔ مقامی صحافی جاوید فاروقی نے بتایا کہ ’لادی گینگ کا سردار خدا بخش نامی ایک نوجوان ہے۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’اس گروہ میں شامل افراد سمجھتے ہیں کہ کسی نہ کسی طرح پولیس نے ماضی میں ان کے ساتھ ناانصافیاں کی ہیں۔ حالیہ واقعے میں بھی تشدد اور ہلاکت کا شکار ہونے والے افراد پر انہوں نے یہ الزام لگایا کہ یہ پولیس کے مخبر تھے۔‘
جاوید فاروقی کے بقول ’پولیس اس علاقے میں نہیں آتی، اس کے لیے محکمہ داخلہ سے اجازت لینا پڑتی ہے۔ یہاں صرف بارڈر ملٹری فروس اور بلوچ لیوی ہی موجود ہوتی ہے جنہیں سوار کہا جاتا ہے۔ کیونکہ یہاں سڑکیں نہیں ہیں اس لیے قانون نافذ کرنے والے اہلکار گھوڑے یا موٹرسائیکل پر گشت کرتے ہیں۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ’یہ گروپ ڈیرہ غازی خان کے آباد علاقوں میں ایک دو بڑی فیکٹریوں سے بھتہ اور کسانوں سے اناج لیتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ چھوٹی موٹی ڈکیتیوں میں بھی ملوث ہے۔ یہ پہلی بار ہو رہا ہے کہ ان کے خلاف اس بڑے پیمانے پر آپریشن کیا جا رہا ہے۔ یہ بھی اندیشہ ہے کہ پہاڑی علاقے کا فائدہ اٹھا کر بلوچستان بھی داخل ہو سکتے ہیں۔‘
وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے اس گینگ کے خلاف فیصلہ کن آپریشن کے احکامات ملتان کے سرکٹ ہاؤس میں ابتدائی رپورٹس دیکھنے کے بعد دیے جس میں اس علاقے کے پرامن قبائل بھی ساتھ دے رہے ہیں۔

رائے شاہنواز -اردو نیوز، لاہور
https://www.urdunews.com/node/568871
——————————–

وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید نے کہا ہے کہ وزیراعظم عمران خان سندھ کے معاملات میں مداخلت نہیں کرنا چاہتے اور نہ ہی صوبے میں کوئی گورنر راج آرہا ہے تاہم سندھ میں ڈاکوراج ختم کرکے رہیں گے‘ وزیراعلیٰ سندھ کی ہرطرح مددکریں گے ‘سیاسی لوگ ڈاکوؤں کی سرپرستی کرتے ہیں۔

ڈاکوؤں کے خلاف آپریشن میں پولیس کے ساتھ سندھ رینجرز بھی کام کرنے کو تیار ہے ‘سندھ حکومت کی صوابدید ہے کہ وہ رینجرز کو جہاں چاہے استعمال کرے‘امن صوبہ سندھ اور وفاق کا مشترکہ مسئلہ ہے‘ سندھ کے مسائل کے حوالے سے وزیراعظم کو رپورٹ دوں گا۔

عمران خان پانچ سال پورے کریں گے اور کوشش ہے کہ اگلے الیکشن میں بھی عمران خان کی حکومت آئے‘ ن لیگ میں سے شین نکل چکی ‘ایم کیو ایم کے ساتھ بچپن سے اچھے تعلقات ہیں‘ نادرا کراچی میں کرپٹ افسران پر جھاڑو پھیرا جائے گا۔ان خیالات کا اظہار انہوںنے جمعرات کوکراچی میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔

شیخ رشید نے گورنرسندھ عمران اسماعیل اور وزیراعلیٰ سندھ سید مرادعلی شاہ سے بھی علیحدہ علیحدہ ملاقاتیں کیں ۔ پریس کانفرنس میں شیخ رشید کاکہناتھاکہ سوشل میڈیا پر ڈاکو راج کا طوفان اٹھایا گیا۔

وزیر اعلی سے ملاقات میں اتفاق ہوا کہ صوبہ اور وفاق مل کر ڈاکوئوں سے نمٹیں گے‘سندھ حکومت چاہے تو پورے صوبے میں رینجرز مہیا کرنے کے لیے تیار ہیں ‘پولیس کو ڈرون بھی دینے کو تیار ہیں۔انسانی جانوں کے مسئلے پر صوبے یا مرکز میں کوئی فرق نہیں ہے ۔
https://jang.com.pk/news/933097?_ga=2.246221958.3006171.1622209906-250177633.1622209906
————————–
شکارپور میں پولیس اہلکاروں کی شہادت کے بعد ڈاکووں کے خلاف شروع کیا جانے والا آپریشن کمانڈر کی تبدیلی کے باعث تعطل کا شکار ہوگیا جبکہ کشمور کے جنگلات میں آپریشن میں تیزی آگئی ہے، ایس ایس پی کشمور امجد احمد شیخ آپریشن کی خود کمانڈ کررہے ہیں۔ متعدد ٹھکانے تباہ، ڈاکووں کے ٹھکانوں کو مسمار کرکے آگ لگادی گئی ۔ذرائع کے مطابق آخری اطلاعات آنے تک شکارپور میں ڈاکووں کے خلاف آپریشن میں کوئی خاص پیش رفت نہیں ہوسکی اور نہ ہی 5 روز کے دوران پولیس کو ڈاکووں کے خلاف کوئی خاطر خواہ کامیابی مل سکی ہے۔ گزشتہ روز وزیراعلی سندھ سید مراد علی شاہ اور آئی جی سندھ مشتاق احمد مہر نے شکارپور کا دورہ کیا آپریشن کا جائزہ اور بریفنگ لی جس کے چند گھنٹوں کے دوران آپریشن کی کمانڈ کرنے والے ڈی آئی جی لاڑکانہ ناصر آفتاب اور ایس ایس پی شکارپور امیر سعود مگسی کا تبادلہ کردیا گیا، جس کے باعث جاری آپریشن بھی تعطل شکار ہوگیا ہے۔ نئے تعینات ہونے والے ڈی آئی جی مظہر نواز شیخ اور ایس ایس پی تنویر حسین تنیو آج 28 مئی کو لاڑکانہ اور شکارپور پہنچ کر اپنے عہدوں کا چارج سنبھالیں گے۔ جس کے بعد ایس ایس پی شکارپور تنویر حسین تنیو ڈاکووں کے خلاف آپریشن کی مکمل کمانڈ سنبھالیں گے اور امید کی جارہی ہے کہ ڈاکووں کے خلاف تعطل کا شکار ہونے والا آپریشن آئندہ ایک سے دو روز میں شروع ہوجائے گا۔

https://jang.com.pk/news/933138?_ga=2.209216528.3006171.1622209906-250177633.1622209906
—————–

کچے کے پکے ڈاکو، اور حکومتی رٹ

ان سے میری ملاقات ایک دوست کے گھر پر ہوئی ان کا نام عبد الواحد ہے بیالیس سال عمر چہرے پر ہلکی داڑھی یہ کراچی کے ایک متمول درمیانے بزنس میں ہیں کراچی کے پوش علاقے گھر ہے اس کا شہر کی بڑی مارکیٹ میں خام لکڑی کا گودام ہے، ان کی ایک نیک دل بیوی اور چار بچے بھی ہیں۔ زندگی اپنی ڈگر پر چل رہی تھی عبدالواحد کو فون کال موصول ہوئی۔ دوسری طرف نسوانی خوبصورت آواز تھی یہ عبدالواحد کے لیے منفرد تجربہ تھا ان کے زیادہ تر فون کاروبار متعلق لوگوں کے ہوتے تھے خاتون کی کال معمول سے ہٹ کر تھی خاتون کا کہنا تھا وہ واجد علی سے بات کرنا چاہتی ہے انہوں نے رانگ نمبر کا کہہ کر فون رکھنا چاہا خاتون بضد رہی کہ یہ واجد علی ہیں یہ انکار کرتے رہے۔

اب اکثر اس خاتون کا فون آنے لگا یہ بھی خاتون سے بات کرنے لگے خاتون سے ان کی دوستی ہو گئی اس نے ان کو اپنی تصاویر بھیجیں۔ یہ خاتون کو اپنی پوری معلومات پورا پروفائل تک بتا گئے انہوں نے کرائے پر دیے مکانات اور دکانوں کی آمدن سے لے کر لکڑی کے کام سے بننے والا بینک بیلنس بھی بتا دیا۔ انہوں نے کئی بار خاتون سے ملنے کا کہا جسے وہ خاندانی پابندیوں کا بہانہ بناتی ایک ماہ بعد خاتون نے عبدالواحد سے سے ملنے پر رضا مندی ظاہر کی اور انہیں شکارپور آنے کا کہا کی یہ اپنی بیش قیمت گاڑی میں بیٹھے اور شکار پور روانہ ہو گئے یہ سارا راستہ خاتون سے بات کرتے رہے خاتون بھی ان سے سفر کے متعلق معلومات حاصل کرتی رہیں آخر شکارپور میں طے شدہ جگہ پر پہنچے اور خاتون کو فون کیا خاتون نے پانچ منٹ میں پہنچنے کا کہا ان کی گاڑی کھڑی کرتے ہی گاڑی کو چاروں طرف سے کلاشنکوف بردار افراد نے گھیر لیا اور انہیں اپنے ساتھ لے گئے یہ اغوا ہوچکے تھے۔

ڈاکو انہیں کچے کے علاقے میں لے گئے جہاں سے یہ بھاری تاوان دے کر ایک ماہ بعد رہا ہوئے۔ یہ کہانی کراچی کے واحد، واجد، قادر کئی سیٹھوں کی ہے، یہ کہانی سکھر نوابشاہ اور حیدر آباد کے سیٹھوں کی بھی ہے۔ کچے کا علاقہ سندھ کے بدنام ڈاکووں کے ٹھکانوں کے طور پر شہرت رکھتا ہے جیکب آباد، کشمور کندھ کوٹ، شکارپور، لاڑکانہ، گھوٹکی، قمبر شہداد کوٹ، خیرپور اور دادو، شمالی سندھ کے اضلاع ہیں اکثریت کی سرحدیں دریائے سندھ سے ملتی ہیں یہ کچے کا علاقہ کہلاتا ہے۔

دریائے سندھ کے دونوں اطراف مٹی کی موٹی دیواریں ہیں یہ دریا کا پانی باہر نکلنے سے روکتی ہیں ان دیواروں کے درمیان دریا کا فاصلہ کہیں دس، بارہ کلومیٹر ہے تو کہیں دو سے پانچ کلومیٹر ہے جون اور جولائی کے بعد جب مون سون بارشیں ہوتی ہیں تب دریا کی پوری چوڑائی پانی سے بھری ہوتی ہے مگر سردیوں میں دریا صرف درمیان میں ایک پتلی لکیر کی صورت بہتا ہے اور باقی علاقہ خالی رہتا ہے۔ دریا کے دونوں اطراف کی دیواروں کے درمیان والے علاقے کو کچا کہا جاتا ہے۔

شمالی سندھ کے کچے کے علاقے 1980 کی دہائی سے ڈاکوؤں کی پنا گاہیں ہیں یہ ڈاکو گروہ لوٹ مار، اغوا برائے تاوان، بھتہ خوری کی وارداتیں کرتے ہیں یہ اکثر مخبری، پولیس کو اطلاع، یا قبائل کی آپسی دشمنی میں خونریزی میں بھی حصہ لیتے ہیں ان کے پاس راکٹ لانچر، اینٹی ائر کرافٹ رائفل، دستی بم اور جدید اسلحہ ہے۔ یہاں اگر اصلی پولیس مقابلے ہوں تو نقصان عام طور پر پولیس کا زیادہ ہوتا ہے۔ ان اضلاع میں درجنوں افراد اغوا چکے ہیں جو ڈاکووں کے قبضے میں ہیں ڈاکووں نے انہیں مختلف مقامات سے اغوا کیا۔

کشمور، گھوٹکی جیکب آباد، قمبر کی صورت حال بھی اغوا کی وارداتوں کے حوالے سے تسلی بخش نہیں ایک اطلاع کے مطابق حال میں کشمور سے گیارہ افراد کو اغوا کر لیا گیا شکار پور کچے کا سب سے خطرناک علاقہ ہے یہ آئی جی سندھ مشتاق مہر کا آبائی شہر بھی ہے یہاں تعینات ہونے والے ہر ایس ایس پی نے کچے میں آپریشن کا دعوی کیا ڈاکوں کی گرفتاری، مارے جانے کے اعلانات بھی ہوئے لیکن کبھی آپریشن کے موثر نتائج نہ نکل سکے جو کچے جو جانتے ہیں ان کے لیے شکار پور کے حوالے سابق ایس ایس پی ڈاکٹر رضوان کی رپورٹ کو نظر انداز کرنا آساں نہیں یہاں نئے ایس ایس پی تعینات ہوئے امیر سعود مگسی انہوں نے ڈاکووں کے قبضے سے چھ مغویوں کو بازیاب کرانے کا فیصلہ کیا تیغو گڑھی میں ڈاکووں کے خلاف آپریشن شروع کر دیا ڈاکووں سے مقابلہ ہوا تین اہلکار شہید ہو گئے پولیس بکتر بند ڈاکووں کے قبضے میں چلی گئی۔

پولیس نے جوابی کارروائی کی تو چھ ڈاکو بھی ہلاک ہوئے لیکن ڈاکووں کا حوصلہ کم ہوتا نظر نہ آیا اس سے قبل ایک واقعہ کشمور کندھ کوٹ کے گاؤں درانی مہر میں پیشی آیا۔ عید کے تیسرے روز یہاں چاچڑ برادری کے گاؤں پر ڈاکووؑں نے حملہ کر دیا جس میں دس افراد جاں بحق ہوئے کچے میں مختلف قبائل آباد ہیں جن میں بجارانی، تیغانی، چاچڑ، جاگیرانی، سبزوئی، بنگوار مھمدانی، نندوانی چولیانی، اور ڈاھانی بھیا قابل ذکر قبائل ہیں۔

ان قبائل کے سب لوگ جرائم پیشہ نہیں لیکن جرائم پیشہ افراد کا تعلق انہیں قبائل سے ہے۔ یہ لوگوں کو اغوا کرتے ہیں، ڈاکے ڈالتے ہیں، موٹر سائیکلیں اور کاریں بھی چھین لیتے ہیں ہائی وے پر بسیں بھی لوٹ لیتے ہیں یہ جرائم رپورٹ بھی ہوتے ہیں لیکن پولیس کے کان پر جوں نہیں رینگتی۔ پولیس ہلچل قبائلی تصادم کے بعد پیدا ہوتی ہے جب اچانک درجن کے قریب لوگ قتل کر دیے جائیں۔

شمالی سندھ میں حکومت کی رٹ دکھائی نہیں دیتی۔ یہاں ریاست کے معنی بھی مشکوک ہو جاتے ہیں۔ پولیس کا کہنا ہے سردار پشت پناہی کرتے ہیں جو سیاست دان بھی ہیں اور وقت کے حکمران جماعت میں شامل ہوتے ہیں۔ ماضی میں ان ضلعوں کو کمانڈ کرنے والے کہتے کسی ایک ضلع میں ڈاکووں کے خلاف آپریشن کامیابی سے ہمکنار نہیں ہو سکتا کچے کے علاقے کی سرحدیں تین صوبوں سے ملتی ہیں۔ شاہ بیلو کے جنگلات کشمور سے شکار پور، گھوٹکی، رحیم یار خان، راجن پور تک پھیلا ہوا ہے شدید متاثرہ پانچ اضلاع کی پولیس کو پنجاب پولیس کی مدد سے پوری طاقت سے آپریشن کرنا ہوگا جس کی مدت ڈاکووں کے خاتمے سے مشروط رکھی جائے یہاں پولیس کو اضافی وسائل، اور فنڈز فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔

سندھ حکومت کو سیاسی دباؤ سے بالاتر ہونا ہوگا اچھے ڈاکو برے ڈاکو، اپنا ڈاکو پرایا ڈاکو کی اصطلاح سے بھی باہر نکلنا ہوگا پیرا ملٹری، ملٹری کی مدد لینی ہوگی۔ پولیس بھی ایرانی ڈیزل چھالیہ، اور نان کسٹم کاروں کی اسمگلنگ، اور کالے دھندوں سے ہونے والی آمدن ضرور جمع کرے لیکن امن کو بھی کہیں کہیں ترجیح دینی ہوگی۔

کچے کے پکے ڈاکو، اور حکومتی رٹ


—————-