سندھ کی سیاست میں ڈاکو فیکٹر ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہو سکتا ہے ؟


دریائے سندھ کے کچے کے علاقے میں چھپے ہوئے ڈاکو اور جرائم پیشہ افراد کی بڑھتی ہوئی کارروائیوں کے بعد بالآخر وفاقی اور صوبائی حکومتیں اس بات پر متفق ہوگئی ہیں کہ ان قانون شکن عناصر کی سرکوبی کی جائے اور انہیں قانون کی گرفت میں لا کر وسیع علاقے میں ہونے والی لاقانونیت پر قابو پایا جائے دریائے سندھ کے کچے کے علاقے میں چھپے ہوئے ڈاکو اور انہیں جدید اسلحہ ہتھیار اور ہر طرح کی طاقت اور معلومات فراہم کرنے والے عناصر کے خلاف آپریشن شروع ہو چکا ہے یہ ایسا علاقہ اور ایسے لوگ ہیں جنہیں سندھ بلوچستان اور پنجاب کی سرحدیں اور قبائلی علاقوں اور قوموں سے مدد ملتی رہی ہے نوے کی دہائی میں بھی سندھ کے کچے کے علاقے میں ڈاکوؤں کے خلاف بڑے پیمانے پر آپریشن کا فیصلہ ہوا تھا بہتر بڑی مچھلیوں کی فہرست تیار ہوئی تھی اور وزیراعظم نواز شریف اور آرمی چیف جنرل آصف نواز جنجوعہ نے فیصلہ کن آپریشن کا حکم دیا تھا لیکن بعض وجوہات پر وہ آپریشن ڈاکوؤں کے خلاف کم اور کراچی اور سندھ کے شہری علاقوں میں مقبول جماعت ایم کیو ایم کے خلاف زیادہ ثابت ہوا ۔


ڈاکوؤں کے خلاف تازہ آپریشن کی ضرورت کیوں پیش آئی اس کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ حالیہ دنوں میں ڈاکو کی بڑھتی ہوئی وارداتوں اور دھمکیوں کی وجہ سے لوگوں کا جینا محال ہے سندھ کے ایک علاقے میں ایک برادری کے دس لوگوں کی لاشیں آئیں جس کے بعد پوری دنیا میں یہ ایک بہت بڑی خبر بنی اسی طرح ڈیرہ غازی خان کے ڈاکو کی جانب سے بھی کچھ ویڈیو وائرل ہوئی اس کا وزیراعظم نے نوٹس لیا سندھ اور پنجاب میں ہونے والے مدد اور لاقانونیت کے ان واقعات کے بعد وفاقی اور صوبائی حکومتیں حرکت میں آئیں۔ سندھ میں پولیس نے آپریشن شروع کیا لیکن ڈاکوؤں کے خلاف کامیابی حاصل کرنے سے پہلے ہی پولیس پر حملہ ہوا اور پولیس کی تیاری ناقص اور مشینری دو نمبر ثابت ہوئی نتیجہ یہ نکلا کہ پولیس کے اہلکار شہید ہوئے وزیراعلی سندھ سید مراد علی شاہ کو خود حرکت میں آنا پڑا صوبے کی بھرپور فورس اس کام پر لگانی پڑی پولیس میں گرینڈ آپریشن سے پہلے بڑے پیمانے پر تبادلے اور تعیناتی ہوئی ۔صوبائی حکومت اس معاملے میں رینجرز اور فوج کو اگے لانے کے حق میں نظر نہیں آتی اس لیے سندھ پولیس کے ذریعے آپریشن کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے دوسری طرف ڈاکو اینٹی ائیر کرافٹ گنز سمیت جدید اسلحہ سے لیس ہیں پولیس نے ان کی مخبری کا نیٹ ورک ہے پولیس کے بعض افسران اور اہلکاروں پر شبہ ہے کہ وہ ڈاکو کے لئے مخبری کرتے ہیں اس لیے بڑے پیمانے پر پولیس افسران اور اہلکاروں کے تبادلے شروع ہو چکے ہیں دوسرے علاقوں سے پولیس پوسٹ بلائی گئی ہے مقامی طور پر سیاسی طاقت ور اور با اثر شخصیات بھی ماضی میں ان ڈاکوؤں اور قانون شکن عناصر کی پشت پناہی میں ملوث ہیں پولیس کی بات کو خفیہ رپورٹ میں سیاستدانوں کے نام آتے رہے ہیں کچھ اراکین اسمبلی اور سابق وزیر اور سابق سرکاری افسران بھی ملوث بتائے جاتے ہیں یہ اطلاعات بھی گردش کر رہی ہیں کہ سندھ کے ڈاکو کو بلوچستان کے علاقے سے جدید اور خطرناک اسلحہ سپلائی کیا گیا ۔صوبائی حکومت کی جانب سے بھی سوالات اٹھائے جاتے ہیں کہ اسلحہ کہاں سے آیا لوگ بھی یہ بات پوچھتے ہیں کہ کیاکیا یہ ہتھیار سندھ میں تیار ہوتے ہیں۔ اگر سمندر پار یا دوسرے ملکوں سے آتے ہیں تو بارڈر پر روکا کیوں نہیں جاتا یہ اسلحہ پکڑا کیوں نہیں جاتا اور سندھ کے کچے کے علاقے تک کیسے پہنچ جاتا ہے اس حوالے سے بعض رپورٹ میں بتاتی ہیں کہ اسلحہ سرکاری نمبر پلیٹ کی گاڑیوں میں پہنچایا گیا جس کا مطلب ہے کہ بااثر سیاسی اور سرکاری شخصیات بھی ملوث رہی ہیں تازہ حالات بتا رہے ہیں کہ پانی سر سے اونچا ہو جانے کے بعد ڈاکوؤں کے خلاف آپریشن کرنے کا فیصلہ ہوا یہ فیصلہ بہت پہلے ہو جانا چاہیے تھا اس میں کافی تاخیر ہو چکی ہے ڈاکوؤں نے عام شہریوں میں سے بڑی تعداد کو نہ صرف اغوا کیا لوٹا تاوان مانگا بلکہ سچ ہے کہ بڑی تعداد میں لوگوں کو کمال بنا رکھا ہے اور اب انہیں ڈھال کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے ان لوگوں کو ہیومین شیلڈ بنا کر ڈاکو اپنی بچت کے لئے استعمال کر سکتے ہیں ۔
بہت سے سوالات ہیں جن کے جواب چاہیے اس آپریشن کے ذریعے بہت سے سوالات کے جواب مل سکتے ہیں اور مزید سوالات کھڑے بھی ہو سکتے ہیں عام بحث ہورہی ہے کہ اس آپریشن کے نتیجے میں کن سیاستدانوں کو نقصان ہوگا اور کن کو فائدہ ۔جن علاقوں میں آپریشن ہو رہا ہے وہاں کے جیتنے والے اراکین قومی اور صوبائی اسمبلی یقینی طور پر پریشان ہوں گے کیونکہ ان کے ووٹرز کافی پریشان ہیں اگر آپریشن کامیاب ہو جاتا ہے تو یہاں پر سیاست کرنے والے سیاست دانوں کو فائدہ ہوگا اور اگر آپریشن میں کچھ ڈاکو پکڑے گئے اور کچھ سرپرستوں کے نام سامنے آگئے تو سرپرستی کرنے میں ملوث سیاستدانوں کو مشکلات کا سامنا ہوگا ۔آنے والے انتخابات پر اس آپریشن کا براہ راست اثر پڑے گا جو سیاستدان ان ڈاکوؤں کی سرپرستی میں ملوث ہیں وہ ان کے ذریعے سیاسی مخالفین وہ خوفزدہ کرتے رہے ہیں تو اب ان کے لیے مشکلات کھڑی ہوسکتی ہیں۔ جو سیاستدان ڈاکوؤں اور جرائم پیشہ عناصر کی وجہ سے سیاست میں مشکلات کا سامنا کرتے رہے ہیں وہ اس آپریشن سے خوش ہوں گے اور انہیں سیاسی فائدہ ہوگا وہ آزاد فضا میں زیادہ بہتر سیاست کر سکیں گے ۔لیکن جب تک آپریشن مکمل طور پر کامیاب نہیں ہوتا اور تمام ڈاکو پکڑے یا مارے نہیں جاتے ۔تب تک خطرات ہیں خطرات رہیں گے مقامی لوگ زیادہ مشکلات کا سامنا کریں گے ان پر خوف بھی ہوگا اور غیر یقینی صورتحال سے دوچار بھی رہیں گے ۔عام لوگوں کی یہی خواہش ہے کہ ایک مرتبہ بھرپور آپریشن کرکے تمام ڈاکوؤں اور جرائم پیشہ عناصر کا خاتمہ کیا جائے اسلحہ برآمد کیا جائے اور اسلحہ کی سپلائی اور ڈاکوؤں کی سرپرستی کرنے والوں کو بے نقاب کیا جائے اور آئندہ کے لئے اس عمل کو روکا جائے ۔صوبائی حکومت اور وفاقی حکومت دونوں کے لیے اب یہ ایک چیلنج ہے وزیراعظم کی ہدایت پر وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے سندھ کا خصوصی دورہ کیا گورنر وزیر اعلیٰ سے ملاقات کی اور صوبائی حکومت بھی وفاقی حکومت کی انتظامیہ کی مدد کے ساتھ آپریشن کو آگے بڑھانے میں سنجیدہ نظر آتی ہے وزیراعلی سندھ سید مراد علی شاہ خود اس آپریشن کی نگرانی کر رہے ہیں اور سندھ کے وزیر داخلہ کی حیثیت سے بھی یہ ان کی ذمہ داری ہے ۔
اس آپریشن کے ساتھ ہی سیاسی حلقوں میں سندھ میں گورنر راج اور وزیراعظم کی تبدیلی کے حوالے سے بازگشت سنائی دے رہی ہے جبکہ وفاقی وزیرداخلہ شیخ رشید احمد واضح الفاظ میں اس بات کی تردید کرکے گئے ہیں کہ ان افواہوں میں کوئی حقیقت نہیں سندھ میں گورنر راج نہیں لگ رہا ۔
————————–
Salik-Majeed
———————–whatsapp—–92-300-9253034