پاکستان اسٹیٹ آئل ۔اربوں روپے کی کرپشن کے لیے ماحول دوست ادارہ ۔ نیب کی آنکھوں کا تارا


پاکستان میں پیٹرولیم مصنوعات کی مارکیٹنگ کا سب سے بڑا ادارہ پاکستان اسٹیٹ آئل بدقسمتی سے ملک میں اربوں روپے کی کرپشن کے لیے ماحول دوست ادارہ بن چکا ہے اور قومی احتساب بیورو نیب کے پاس اس کے متعدد کے کیسز اور انکوائریاں پہنچ چکی ہیں جن پر تحقیقات کے بعد نیب عدالت نے نیب ریفرنس بھی فائر کئے گئے پاکستان اسٹیٹ اور ان کے بعض افسران سمیت مختلف پرائیویٹ شخصیات کی گرفتاریاں بھی عمل میں آئی ان میں سے بعض شخصیات نے اپنے جرم کا ایک اعتراف کیا اور لوٹی گئی رقم واپس کرنے پر رضامندی کا اظہار کیا جس کے بعد نیب نے وہ رقم وصول کی اور اس کے بعد کچھ رقم پی ایس او کو واپس بھی مل گئی ۔
پاکستان اسٹیٹ آئل میں میں ایسی کیا گڑبڑ ہے کہ یہاں ہر تھوڑے عرصے بعد اربوں روپے کی کرپشن کے کیسے سامنے آ جاتے ہیں حیران کن بات یہ ہے کہ جب یہاں پر اربوں روپے کے ڈاکے ڈالے جارہے ہوتے ہیں تو تمام واچ ڈاگ خاموش ہوتے ہیں اور انتظامیہ سب اچھا ہے کا راگ الاپ رہی ہوتی ہے جیسے ہی حکومت بدلتی ہے یا انتظامیہ بدلتی ہے اچانک پتہ چلتا ہے کہ اربوں روپے کی کرپشن ہوئی اور وہ لوگ بھاگ گئے پھر ان کا پیچھا کیا جاتا ہے پکڑ کی کوشش ہوتی ہے اور بالآخر وہ کر دیے جاتے ہیں اور پھر عدالتوں میں مقدمات چلتے ہیں وکیلوں کی خدمات لی جاتی ہیں ضمانت کی کوشش کی جاتی ہے لیکن یہ ماننا پڑتا ہے کہ کرپشن ہوئی ہے اور جب احتساب کرنے والے گھیرا تنگ کرتے ہیں تو سچ زبان پر آ ہی جاتا ہے ۔
پاکستان اسٹیٹ آئل میں بڑے پیمانے پر ہونے والی کرپشن لوٹ مار اور قومی خزانے کو پہنچائے جانے والے نقصان کی ویسے تو بہت سی مثالیں موجود ہیں اور مختلف کیسز کا حوالہ دیا جاسکتا ہے لیکن ایک کیس بہت ہی دلچسپ ہے اس کا ذکر ضرور ی ہے۔
پی ایس او میں 63 ارب روپے کا ڈاکہ ڈالا گیا ۔قومی احتساب بیورو نے اس کے حوالے سے تحقیقات کی اور مقدمہ تیار کر کے عدالت میں بھیجا ۔
یہ جولائی 2018 کی بات ہے 5بڑے ملزمان کو کراچی اسلام آباد اور ہنزہ سے گرفتار کیا گیا ۔ان ملزمان میں پی ایس او اور پرائیویٹ آئیل فرمز کے لوگ شامل تھے ۔گرفتار ہونے والے ملزمان میں سابق جنرل مینجر سپلائی ڈاکٹر ضمیر ،سابق چیف آپریٹنگ آفیسر بائیکو پٹرولیم کامران افتخار لاری اور ان کے ساتھ سابق چیف ایگزیکٹو آفیسر بائیکو پٹرولیم قیصر جمال کو 11 جولائی 2018 کو کراچی سے گرفتار کیا گیا ۔ان کے کے علاوہ چیف ایگزیکٹو آفیسر Jinn پیٹرولیم کمپنی سید ذوالفقار علی جعفری کو اسلام آباد سے گرفتار کیا گیا اور سینئر جنرل مینیجر مارکیٹنگ پاکستان اسٹیٹ آئل ڈاکٹر سید نظر زیدی کو گلگت بلتستان ہنزہ سے گرفتار کیا گیا ۔
قومی احتساب بیورو کی جانب سے الزام عائد کیا گیا تھا کہ سال دو ہزار آٹھ اور سال 2009 کے دوران بائیکو پٹرولیم کو کروڈ آئل فراہم کیا گیا لیکن پیمنٹ pso کو نہیں ملی .2 ارب 43 کروڑ کا مال دیا گیا تھا ۔
ںیب کے مطابق پی ایس او افسران نے سال 2012 میں سپلائی پرچیز کا جو وعدہ کیا اس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں تھی کیوں کہ بائیکو پٹرولیم سال 2013 میں کام کرنا شروع ہوئی تھی اس لیے غیر معیاری مصنوعات کی سپلائی کی گئی اور قومی خزانے کو 60 ارب روپے سے زائد کا نقصان پہنچایا گیا ۔پی ایس او کے افسران نے بائیکو پیٹرولیم سے ایک اور غیر قانونی معاہدہ کیا جس کے تحت نارمل ریٹ پر مہنگی مصنوعات فراہم کر کے خزانے کو نقصان پہنچایا ۔نیب کے مطابق مجموعی طور پر 63 ارب اور آٹھ کروڑ روپے کا سکینڈل تھا
ان ملزمان کو گرفتاری کے بعد تحقیقات سے گزارا گیا اور دسمبر 2018 میں سندھ ہائی کورٹ سے پانچ ملزمان کی ضمانت منظور ہوگئی ۔

اکتوبر 2020 میں یہ خبر آئی کے کامران افتخار لاری سابق چیف آپریٹنگ آفیسر بائیکو پٹرولیم نیب کی تاریخ کی سب سے بڑی پلی بارگین آفر پر راضی ہے اور نیب کو 1 ارب 29 کروڑ روپے واپس کرنے پر راضی ہو گیا ہے اس کیس کے شریک ملزم میں ڈاکٹر عاصم حسین نمایاں تھے ان کے علاوہ بائیکو پٹرولیم کے چیف ایگزیکٹو آفیسر بھی ملوث تھے کراچی میں نیب کورٹ نمبر 4 کے جذبوں پلی بارگین کی درخواست موصول ہوئی۔ملزم کے وکیل نے بتایا کہ چیئرمین نیب نے صوابدیدی اختیار کے تحت ملزم کی پلی بارگین کی درخواست منظور کر لی ہے اور منظوری کے لئے معاملہ عدالت کے پاس آیا ہے سرکاری وکیل کا کہنا تھا کہ 7 سال بعد بھی بائیکو پیٹرولیم نے پی پی ایل کو وہ رقم ادا نہیں کی جو ہالا بلاک خرید کے لئے دینی تھی ۔


عدالت کو بتایا گیا کہ ملزم پہلا پے آرڈر پینتالیس کروڑ روپے کا دے رہا ہے ۔جبکہ 42 کروڑ کے دو چیک الگ الگ تاریخوں میں قسطوں میں دے گا ۔
یہ نیب کی تاریخ کی کراچی ڈویژن کی سب سے بڑی پلی بارگین ثابت ہوئی ۔
میں وصول شدہ رقم میں سے بعد ازاں پی ایس او اور پاکستان پٹرولیم لمیٹڈ کو بھی رقم ادا کی اور یہ رقم ادا کرنے کے لئے ایک تقریب منعقد کی گئی ۔
اس بات سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان اسٹیٹ آئل میں کرپشن کا بازار گرم ہے اور یہاں موجود افسران باآسانی مختلف کمپنیوں کے ساتھ مل کر قومی خزانے کو اربوں روپے کا نقصان پہنچاتے آئے ہیں جب کرپشن ہو رہی ہوتی ہے انتظامیہ اپنی آنکھیں بند رکھتی ہے جب لوٹ مار کا پیسہ مختلف جذبوں اور کاؤنٹ میں چلا جاتا ہے اور کافی وقت گزر جاتا ہے تو پھر ہو ش آتی ہے ۔۔۔۔۔ہر دور میں پی ایس او کی انتظامیہ یہ کہتی رہتی ہے کہ سب اچھا ہے سب معاملات ٹرانسپیرنٹ چل رہے ہیں کوئی گڑبڑ نہیں ہے سالانہ رپورٹ میں بھی سب اچھا ہے بتایا جاتا ہے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے اجلاس میں کمپنی کو منافع میں بتایا جاتا ہے ہر جگہ سب اچھا ہے کی رپورٹ ہوتی ہے ۔

سوال تو یہ اٹھتا ہے کہ جس وقت بورڈ آف ڈائریکٹرز نے کمپنی کی جانب سے پیش کردہ رپورٹ سب اچھا ہے کو منظور کیا ہوتا ہے اور بعد میں اسی دور کی کرپشن سامنے آتی ہے تو ان بورڈ آف ڈائریکٹر سے پھر کیا سوال جواب ہوتے ہیں کیا انہوں نے اپنے فرائض صحیح طریقے سے ادا کیے ہوتے تو یہ صورتحال ہوتی ؟لیکن ان سے جواب طلبی نہیں ہوتی ۔کمپنی میں خوف کا ماحول رہتا ہے اس لیے لوگ اپنی زبان بند رکھتے ہیں اور وقت پر بولتے نہیں ۔
پی ایس او کے متعدد کرپشن کیسز اس بات کا ثبوت ہیں کہ اس کمپنی میں سب اچھا ہے ۔۔۔کی رپورٹ قابل اعتبار نہیں ہے ۔
—————–
Salik-Majeed
——————–Jeeveypakistan.com-report—–
whatsapp—-
92-300-9253034