میرے زخموں نے کیے کتنے فلسطیں آباد

ڈاکٹر توصیف احمد خان

فلسطینی عوام کی جدوجہد کو صدی ہوگئی مگر مذہبی ریاست اسرائیل کے مظالم کم نہیں ہو پا رہے ہیں۔ یہودیوں نے تیس اور چالیس کی دہائی میں دریائے اردن کے مغربی کنارے بیت المقدس اور اطراف کے علاقوں میں زمینیں خریدنا شروع کیں۔

دوسری جنگ کے عظیم کے خاتمہ میں برطانیہ اور فرانس کی مدد سے 2 مئی 1948 میں اسرائیل کی ریاست قائم ہوئی۔ اسرائیل نے ایک منظم منصوبہ کے تحت ارض فلسطین سے عربوں کو بے دخل کرنا شروع کیا۔ 7لاکھ سے زائد فلسطینی اپنے آبائی علاقوں کو چھوڑنے پر مجبور ہوئے اور اردن، لبنان ، شام ، مصر اور عراق وغیرہ میں پناہ گزیر ہوئے۔ 50ء کی دہائی میں مشرق وسطی میں اہم تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ مصر میں شاہ فاروق کا تختہ الٹا گیا۔

قوم پرست رہنما جمال عبدالناصر نے مصر کا اقتدار سنبھال۔ مصر کے صدر جمال عبدالناصر نے برطانیہ اور فرانس کے تسلط سے نہر سوئزکو آزاد کرایا اور عرب قوم پرستی اور سوشل ازم کے نعروں کو اپنے بیانیے کا حصہ بنا لیا۔ پہلی دفعہ فلسطینیوں کی منظم جدوجہد کے لیے کوشش شروع ہوئی اور عرب لیگ قائم ہوئی۔ عرب لیگ کی 1964 میں ہونے والی سربراہ کانفرنس میں فلسطین لبریشن آرگنائزیشن (P.L.O) کا قیام عمل میں آیا اور چھوٹے بڑے فلسطینی گروہ پی ایل او میں شامل ہوئے۔
Ahmed Shunad پی ایل او کے سربراہ بنے۔ یوں سوویت یونین نے پی ایل او کو منظم کرنے اور پی ایل او میں شامل گروہوں کوگوریلا ٹریننگ اور جدید اسلحہ دینے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ پی ایل او کی نیشنل کونسل میں جارج ہباش کے پاپولر فرنٹ کی قیادت میں کمیونسٹ فدائین میں شامل تھے۔ اسرائیل نے 1967 میں مصر ، شام اور اردن پر حملہ کیا اور جنگ میں عرب ممالک کے کئی اہم علاقوں پر قبضہ کرلیا۔

1967 کی جنگ میں عربوں کی ناکامی کے بعد پی ایل او کے تمام گروپ دوبارہ منظم ہوئے اور پی ایل او میں شامل الفتح کے قائد یاسر عرفات نے پی ایل او کی قیادت سنبھال لی اور اسرائیل کے خلاف پہلی دفعہ منظم گوریلا جنگ شروع ہوئی۔ تیسری دہائی میں جارج ہباش گروپ کی لیلیٰ خالد نے جو مذہباً عیسائی تھیں کی قیادت میں اسرائیل کا مسافر طیارہ اغواء کیا اور جیل میں بند اپنے ساتھیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا، یوں پوری دنیا کے نوجوانوں کے لیے لیلیٰ خالد ایک آئیڈیل شخصیت بن گئیں۔ پی ایل او کی سرگرمیوں کا سب سے بڑا مرکز اردن تھا۔

اردن کی سرحدوں سے اسرائیل کے خلاف گوریلا کارروائیاں زیادہ آسانی سے ہوسکتی تھیں۔ اس زمانہ میں مصر ، شام اور عراق پی ایل او کی سب سے زیادہ حمایت کرتے تھے۔ یوں عراق کی فوجیں بھی اردن میں موجود تھیں۔ اردن کے شاہ حسین امریکا کے ایجنٹوں میں شمار ہوتے تھے، یہی وجہ تھی کہ شاہ حسین نے پی ایل او کی حوصلہ افزائی کے بجائے فوجی ایکشن شروع کیا۔ پاکستان کے سابق صدر جنرل ضیاء الحق اس زمانہ میں بریگیڈیئر تھے اور اردن میں تعینات تھے۔

کہا جاتا ہے کہ اردن کی فوج کے ساتھ جنرل ضیاء الحق نے فلسطینیوں کو کچلنے میں اہم کردار اد ا کیا اور تاریخ میں Black September کا باب درج ہوا۔ پی ایل او نے اپنا ہیڈ کوارٹر لبنان کے دارالحکومت بیروت منتقل کردیا گیا۔ ہزاروں فلسطینی اردن چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔ شاہ حسین نے ضیاء الحق کو خصوصی فوجی اعزاز سے نوازا۔ انھوں نے ہی وزیر اعظم بھٹو سے سفارش کی تھی کہ ضیاء الحق کو فوج کا سربراہ مقرر کیا جائے۔

1974میں اسرائیل نے مصر، شام اور اردن پر حملہ کیا۔ پاکستان کی بھٹو حکومت مصر کی مدد کی ۔ لاہور میں منعقد ہونے والی اسلامی سربراہ کانفرنس میں بھٹو صاحب نے یاسر عرفات کو خصوصی طور پر مدعو کیا اور اس کانفرنس میں تمام مسلمان ممالک کے سربراہوں نے آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کی بھرپور حمایت کی مگر اس کانفرنس میں اہم کردار ادا کرنے والے رہنما ذوالفقار علی بھٹواور شاہ فیصل و دیگر پردہ سیمیں سے لاپتہ کردیے گئے۔

یاسر عرفات نے فیض احمد فیض کوایک ادبی رسالہ Lotus شایع کرنے کے لیے بیروت مدعو کیا۔ فیض صاحب جنرل ضیاء الحق کے دور میں لندن میں جلاوطنی کی زندگی گزارنے پر مجبور تھے۔ انھوںنے یاسر عرفات کی پیشکش کو قبول کیا اور انتہائی معیاری رسالہ بیروت سے شایع ہونے لگا۔ مصر کے صدر انور سادات نے اسرائیل کو تسلیم کرلیا جو فلسطین کی آزادی کی تحریک کے لیے بڑا جھٹکا تھا۔ اس دوران لبنان خانہ جنگی کا شکار ہوا۔ اسرائیل نے پی ایل او کی سرگرمیوں کے تدارک کے لیے بیروت پر بیہمانہ گولہ باری کی۔

فلسطینیوں پر ایک نئی آفت نازل ہوئی۔ پی ایل او کو اپنا ہیڈ کوارٹر تیونس منتقل کرنا پڑا۔فیض صاحب مشکل حالات میں ایک کار کے ذریعہ دمشق پہنچ پائے، یوں پی ایل او کی مزاحمتی تحریک کی عرب دنیا نے حمایت نہیں کی، پھر سوویت یونین بکھر گیا، پی ایل او کی کمر ٹوٹ گئی۔ یاسر عرفات نے اوسلو میں ایک فلسطینی ریاست کی تجویز ماننے پر مجبور ہوئے اور فلسطین کو ایک نیم خودمختار علاقہ مل گیا مگر پی ایل او کی قیادت اچھی طرز حکومت کے تصور کو عملی شکل نہ دے سکی۔ یاسر عرفات جارج ہباش دنیا سے رخصت ہوئے۔

ایران کی مدد سے حزب اﷲ قائم ہوئی، نئے مزاحمتی گروپوں نے حماس قائم کی۔ اب فلسطینیوں کی جدوجہد سیکیولر نہیں رہی۔ حماس اور حزب اﷲ نے مزاحمتی تحریک کو نئے انداز میں منظم کیا مگر اب صورتحال زیادہ خراب ہوئی۔ فلسطینیوں کی جدوجہد میں مذہبی رنگ آنے کی بناء پر یورپ میں حمایت کم ہوئی مگر دنیا بھر کے آزادی سے عشق کرنے والے دانشور ، ادیب، شاعر، کمیونسٹ پارٹیوں، سوشلسٹ پارٹیوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے کارکن اسرائیل کی جارحیت کے خلاف رائے عامہ ہموارکرنے کی جستجو کررہے ہیں۔

لندن میں ایک لاکھ کے قریب افراد نے فلسطینیوں کے ساتھ یکجہتی کے لیے جلوس نکالا ، ایسے جلوس امریکا اور دیگر یورپی ممالک میں نکالے جارہے ہیں۔ موجودہ جنگ بندی اسی دباؤ کا نتیجہ ہے۔ اب ذوالفقار علی بھٹو اور یاسر عرفات تو دنیا میں موجود نہیں مگر امریکا کے سابق صدارتی امیدوار برنی سینڈر اور نوم چومسکی فلسطینیوں کے حقوق کے بیانیہ پر فخر کر رہے ہیں۔ فلسطینیوں کی جدوجہد ایک دن رنگ لائے گی ۔ فیض صاحب نے اہلِ فلسطین کے لیے کہا تھا:

تیرے اعدا نے کیا ایک فلسطیں برباد

میرے زخموں نے کیے کتنے فلسطیں آباد

نوٹ: ترکی کی خارجہ پالیسی کے بارے میں شایع ہونے والے آرٹیکل میں ترکی کی اسرائیل سے تجارت کے اعداد و شمار کے بارے میں کچھ ابہام پیدا ہوا تھا، صحیح اعداد و شمار یہ ہیں:2017 میں ترکی اور اسرائیل کے درمیان 6بلین ڈالر کی تجارت ہوئی جس میں سالانہ 12فیصد اضافہ ہورہا ہے

https://www.express.pk/story/2182278/268/