صدرنیشنل بینک عارف عثمانی اور دیگر کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں مقدمے کی سماعت ۔وکلاء کے اہم دلائل

اسلام آباد ہائیکورٹ میں جسٹس محسن کیانی کی عدالت میں آج عارف عثمانی، زبیر سومرو اور دیگر افسران کے خلاف درخواستوں پر سماعت ہوئی۔ درخواست گزار سید جہانگیر، جاوید اقبال، فضل رحیم اور لطیف قریشی کی جانب سے سید وقار نقوی، شاہد کمال، ڈاکٹر جی ایم چودھری ایڈووکیٹس پیش ہوئے جبک بینک صدر اور چیئرمین کی نمائندگی احمر بلال صوفی، اور فیصل غنی ایڈوکیٹس نے کی۔

90 منٹ پر مشتمل طویل سماعت میں چار رٹ پٹیشنز پر دلائل مکمل ہو گئے۔ عدالت نے فیصلے کیلئے اگلی 2 جون 2021 مقرر کر دی۔

عدالت نے احمر بلال صوفی کے دلائل کے جواب میں کہا کہ ہم نے آپکے جمع شدہ آرٹیکلز کا مطالعہ کیا ہے

جس میں فزکس کے گریجویٹ وال سٹریٹ میں کامیاب ہوئے ۔ یہ آرٹیکلز مخصوص افراد کے ایماء پر لکھے گئے تھے اور ان کا پاکستان کے قانون سے کوئی واسطہ نہیں۔

اگر ڈگری کا کوئی تعلق نہیں تو کوئی جج بھی بینک کا صدر لگ سکتا ہے۔ عدالت کا استفسار

بینک نے بہت منافع کمایا۔ احمر بلال صوفی کا استدلال

تو یوں کرتے ہیں کسی پراپرٹی ٹایئکون کو صدر بنا دیتے ہیں اگر صرف پیسے ہی کمانے ہیں۔ عدالت کے ریمارکس

فزکس میں ٹاپ کرنے والے اور بھی موجود تھے اس طرح تو ان کا حق مارا گیا وہ بھی درخواست دے دیتے۔ کیا بینک نے ایٹم بم بنوانا تھا جو طی ایس سی فزکس کو لایا گیا۔ جی ایم چودھری ایڈوکیٹ

یہ درخواستیں بد نیتی پر مبنی ہیں درخواست گزار اس میں متاثر پارٹی نہیں ہے۔ اور اس پر laches کا اصول لگتا ہے۔ چیئرمین بورڈ کے وکیل فیصل غنی کے دلائل

پی آئ اے کے فیصلے اور آرٹیکل 199 بی کے مطابق درخواست گزار کا متاثرہ فریق ہونا ضروری نہیں۔ 2013 سپریم کورٹ 513 کے مطابق غیر قانونی تقرری میں ہر گزرتا دن ایک نیا کاز آف ایکشن ہوتا ہے۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے کرپشن رپورٹ کی ہے۔ ہر روز نیشنل بینک میں ایک نیا سکینڈل آ رہا ہے۔ نیشنل بینک کی بیرون ملک برانچیں بند ہو رہی ہیں۔ وقار نقوی ایڈووکیٹ کے دلائل

ہاں، بیرون ملک برانچوں کے معاملات کی ہم کو خبر ہے اور درخواست گزار کے متعلقہ فریق ہونے کے دلائل سے ہم اتفاق کرتے ہیں۔ عدالت کے ریمارکس

کیا سٹیٹ بینک کو فزکس کی ڈگری نظر نہیں آئی کیسے ان کا نام پینل میں شامل کیا؟ 2 جون کو سٹیٹ بینک کے نمائندے کو بلایا جائے۔عدالت کی برہمی۔

چیئرمین کی تقرری کے لیے اشتہار دینا ضروری ہے اس میں کوئی دو رائے نہیں ہیں۔ عدالت کے ریمارکس

اسد عمر کو واٹس ایپ پر سی وی بھیجا اور اس کا اعتراف صدر نے بارہا کیا۔ شاہد کمال ایڈوکیٹ۔ عدالت میں عثمانی صاحب کے انٹرویو کا ٹرانسکرپٹ پڑھ کر سنایا گیا۔

بحث سن کر لگتا ہے چیئرمین اور صدر دونوں تقرریوں میں گرے ایریاز موجود ہیں۔ دلائل مکمل ہو چکے ہیں۔ عدالت کے ریمارکس

عدالت 2 جون کو فیصلہ سنائے گی مگر عدالت کے ریمارکس سے لگتا ہے کہ یہ مہلت عدالت نے صدر اور چیئرمین کو با عزت استعفا دینے کے لیے عطا کی ہے۔ کمرہ عدالت کا ماحول کافی گرم رہا اور بینک کے صدر اور چیئرمین کے وکیل عدالت کے سوالات کا جواب دینے سے قاصر نظر آئے جبک منسٹری آف فنانس نے دونوں تقرریوں میں اپنی غلطی تسلیم کر لی۔