سرگرداں

نہیں جناب، اب یہ سب کچھ اس طرح نہیں چل سکتا۔ان سب بچوں کے غبارے کسی دن پھٹ جائیں گے۔ کوئی پکاروکہ اک عمر ہونے آئی ہے فلک کو قافلہ ء صبح و شام ٹھہرائے ہموار پانیوں میں بھی کوئی ناؤ رواں نہیں رہ سکتی اگر کئی ملاح ایک دوسرے سے الجھتے رہیں۔ سمت اور ساحل کا اگر تعین ہی نہ ہو؛چہ جائیکہ طوفان درپیش ہو اور کھیون ہار ایک دوسرے کے گریباں گیر۔ افغانستان میں قتل و غارت کا بازار گرم ہے۔سب کے سب فریق عدم اعتماد اور عدمِ تحفظ کا شکار ہیں۔ امریکہ بہادر سی پیک پر پاکستان پہ برہم ہیں۔ تزویراتی حلیف، اسے ختم کرنے پر تلے بھارت کا ہے اور جنگی اڈوں کا مطالبہ پاکستان سے۔ فلسطین میں پانی سر سے گزر گیا۔ اندمال کا امکان تو کیا، ڈھنگ کی کوئی تجویز تک نہیں۔ چند روزہ نشیب کے بعد کرونا میں پھر سے فراز ہے۔روزکیڑے مکوڑوں کی طرح انسان مرتے ہیں۔ سارے مقتدر گروہ ایک دوسرے کے درپے ہیں۔ اپوزیشن کیا، اب وزیرِ اعظم اسٹیبلشمنٹ سے بھی نالاں ہیں۔ مریم نواز شیخو پورہ پہنچیں کہ جناب جاوید لطیف کو دادِ شجاعت دیں۔ کہا کہ اگر وہ غدار ہیں تو پورا پاکستان غدار ہے۔ غداری کا نہیں، بار بار گنوار پن کا مظاہرہ کرنے والے لیڈر پر بغاوت کا مقدمہ ہے۔ زیادہ سے زیادہ چند ماہ کی سزا ہی کا امکان۔ ان صاحب نے کوئی دن پہلے کہا تھا کہ فلاں لیڈر اس لیے فلاں کے گھر خاندان کی خواتین کے لیے جاتے ہیں۔ مریم نواز نے جب مادرِ ملت پہ غدّاری کے طعنے کا ذکر کیا تو پہلو میں کھڑے خرم دستگیر بھونچکا کھڑے تھے۔ اس باب میں سب سے بڑا کارنامہ آنجناب کے والدِ گرامی نے انجام دیا تھا۔ بااثر افراد کو باری کے بغیر کرونا ویکسین مرحمت فرمانے پر لاہور میں اٹھارہ افسر معطل کر دیے گئے۔ سندھ میں ایسی خبریں پہلے سے چلی آتی ہیں۔ بلاول بھٹو اب چلّا رہے ہیں کہ ان کے حصے کا دریائی پانی روکا گیا ہے۔جواب ملا: حصہ رسدی سے زیادہ سندھ کو ملا ہے۔ اب جنوبی پنجاب کی باری ہے۔ جاوید ہاشمی نے ٹھیک کہا کہ تعمیرات گرانے سے پہلے نوٹس دیا ہوتا۔ ملتان کے اخبار نویسوں سے پوچھا تو اکثر نے یہ کہا:انتظامیہ درست ہے کہ نقشوں کی منظوری کے بغیر مکانات کی فصل اگادی گئی۔ اسٹیبلشمنٹ پہ تنقید بجامگر چند روز سے جہاندیدہ سیاستدان پہ ایسا ہولناک ہیجان کیوں طاری تھا۔ دوسرا سوال یہ کہ کارروائی ہی کرنا تھی تو چندے انتظار کیا ہوتا۔ انہی دنوں یلغار کیوں ضروری تھی؟ جڑواں شہروں کی رنگ روڈ کے بارے میں میڈیا کی اطلاعات تشنہ ہی نہیں، بعض سرے سے غلط ہیں۔ اوّل یہ کہ 2017ء نہیں، یہ منصوبہ 2006ء میں بنا تھا۔ 2007ء کے موسمِ بہار میں ایک دن راجہ بشارت نے ناچیز کو بتایا تھا کہ 48گھنٹے میں سڑک کی تعمیر شروع ہو جائے گی۔ 2009ء میں وزیرِ اعلیٰ شہباز شریف اور چوہدری نثار علی خان غریب خانے پر تشریف لائے تو انکشاف کیا کہ چین سے معاہدے پر دستخط ہو چکے۔ کوئی دن میں آغاز ہو جائے گا۔زلفی بخاری اور غلام سرورخان شاید بے قصور ہی ہوں۔ بخاری صاحب مگر خود الگ نہیں ہوئے۔ استعفیٰ ان سے طلب کیا گیا۔ ان کے اپنے علاقے میں اتنی بڑی حماقت برپا تھی۔ سرور خان خاموشی سے تماشا کیوں دیکھتے رہے؟ یقینی طور پر اس منصوبے کی منظوری وزیرِ اعظم نے دی۔ اس سے پہلے پنجاب کے وزیرِ اعلیٰ نے بھی۔ بیچارے عثمان بزدار سے کیا گلہ کہ سیاست میں یہ ان کا بچپن ہے، بے چارے دیہاتی کا برقرار رہنے والا بچپن۔ وزیرِ اعظم نے اتنے بڑے گھپلے کو کیسے نظر انداز کر دیا۔ درجنوں رہائشی سکیموں کے درمیان چار کی بجائے نو عدد جنکشن کیسے تخلیق ہو ئے۔ شاہراہ کے طول میں دو گنا اضافہ۔ پھر اس برق رفتاری کے ساتھ قطعات پر اربوں روپے کی ادائیگی۔ سامنے کی بات یہ ہے کہ بی آر ٹی پشاور ایسے المناک واقعہ کے باوجود وزیرِ اعظم نے اہم ترین معاملات مشیرانِ کرام پہ چھوڑ رکھے ہیں۔ مشیر بھی وہ حکمران سے ذاتی نیازمندی کے سوا کوئی ہنر، کوئی سلیقہ،کوئی تجربہ نہیں رکھتے۔ گڑبڑ ہوگئی، چلیے ہو گئی۔ مگر یہ کیا کہ اتنے اہم منصوبے کو کھٹائی میں ڈال دیا جائے۔ 2017ء کا نک سک سے درست خاکہ موجود ہے، اس پہ عمل درآمد کے احکامات کیوں جاری نہ فرمائے۔ تحقیقات ہوںگی اور جیسا کہ جناب جسٹس جاوید اقبال نے کہا: تفصیل کے ساتھ ایک ایک گوشہ کھنگالا جائے گا۔ ایک ایک قصوروار کا تعین ہو گا۔ سبحان اللہ، یہ تفتیش نیب کو کرنا ہے۔ وہی نیب جو لاہور ہائی کورٹ میں شہباز شریف پہ کالا دھن سفید کرنے کا کوئی ایک بھی ثبوت پیش نہ کر سکی۔ اعلیٰ عدالتوں میں آئے دن، جس کے افسر خوار ہوتے ہیں۔ کٹہرے میں کھڑے ہوتے اور ڈانٹ ڈپٹ کے مستحق ٹھہرتے ہیں۔ ایک لطیفہ اور بھی ہے۔ پورے ملک میں راولپنڈی اور اسلام آباد ہی دو شہر ہیں کہ رنگ روڈ تو کیا، جن میں پہلو کا راستہ یعنی By pass تک نہیں۔ کوہِ مری، آزاد کشمیر کے دونوں حصوں، پختون خوا اور گلگت بلتستان کی ساری ٹریفک مرکزی شاہراہوں سے دندناتی ہوئی گزرتی ہے۔ پندرہ بیس ہزار گاڑیاں روزانہ اگر داخل ہوں تو کتنا قومی سرمایہ رائیگاں ہوتا ہے؟ بیس پچیس کلومیٹر کا زائد فاصلہ۔ کاریں اور چھوٹے بڑے ٹرک کم از کم تین چار سو روپے سے لے کر ایک ہزار روپے کا زاید تیل۔ اندرونِ شہر سفر کرنے والوں کے لاکھوں کروڑوں گھنٹے برباد۔ سڑکوں کی تباہی اس کے سوا۔ محتاط ترین اندازے کے مطابق کم از کم ایک ارب روپے سالانہ! یہ سب کیا ہے اور یہ سب کیوں ہے؟ حکومت قصوروار ہے کہ ان شعبوں میں بھی اصلاحات کا آغاز نہیں کر سکی۔ سرمایہ نہیں، جہاں صرف توجہ درکار تھی۔مگر اپوزیشن؟ مگر افسر شاہی؟مگر شیخ صاحب ایسے مشیرانِ کرام؟ وزیرِ اعظم کے چند پسندیدہ افسر اہم ترین عہدوں کے لیے انتخاب فرمایا کرتے ہیں۔۔۔اور نگرانی کا کوئی نظام ہی نہیں۔ سوشل میڈیا ہی نہیں، گاہے ذمہ دار اخبارات اور ٹی وی چینلز پر افواہوں کا ہجوم۔ بے معنی ٹاک شو۔ الزامات اور جوابی الزامات۔ جھوٹ اور سفید جھوٹ۔ دیوتا اور ان کے پیروکار۔ کیا ہم قرونِ وسطیٰ کے مزارعین ہیں جو جاگیرداروں کی جنگیں لڑا کرتے۔ بحران در بحران ہیں تو اتنے ہی عظیم الشان مواقع بھی۔ ایران کی طرح، چین پاکستان میں بھی تین چار سو ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کیوں نہیں کر سکتا۔ اگر ہم اس کے اہل ہوں۔ استحکام اگر کارفرما ہو۔ نظام اگر قابلِ اعتماد سمجھا جائے۔ افغانستان میں امن قائم ہو سکے اور گوادر بروئے کا رآئے تو وسطی ایشیا ہی نہیں، ترکی اور ترکی سے آگے سرزمینِ یورپ کی بے کنار وسعت۔ چینی کہتے ہیں کہ نیوزی لینڈ یا آسٹریلیا کی بجائے، پاکستان سے وہ گوشت درآمد کرنے کے آرزومند ہیں، بیس ارب ڈالر سالانہ؟ کیا اس کے لیے کالا جادو سیکھنے کی ضرور ہے؟ فقط کسان اور چرواہوں کی تعلیم۔ زرعی تعلیمی اور تحقیقاتی اداروں کی تنظیمِ نو۔ خطابت کے جادو جگاتے جغادری لیڈر،فلک آثاراسٹیبلشمنٹ، تاریخ ساز تبدیلیوں کے دعوے دار عظیم رہنما خان عمران خاں کی تبدیلی سرکار۔ کیا وہ سب کنفیوژن کے مارے نہیں۔سرگرداں اور بوکھلاہٹ کا شکار۔ نہیں جناب، اب یہ سب کچھ اس طرح نہیں چل سکتا۔ان سب بچوں کے غبارے کسی دن پھٹ جائیں گے۔ کوئی پکاروکہ اک عمر ہونے آئی ہے فلک کو قافلہء صبح و شام ٹھہرائے