ملک ریاض تمہیں یاد ہو یا نہ یاد ہو

تحریر عمران پیرزادہ
——————

ملک ریاض صاحب میں آپکے بارے میں زیادہ کچھ نہیں جانتا نہ ہی جاننا چاہتا ہوں لیکِن آپکو وہ ایک دن یاد کرواتا چالوں جس روز آپکی بڑی بیٹی انتہائی بیمار تھی آپ کے پاس ڈاکٹر کو دیکھانے کیلیے ڈاکٹر کی فیس تک کے پیسے نہ تھے آپکی جیب اور آپکے گھر میں 50 روپے تک نہ تھے کے آپ اپنی بیٹی کو ڈاکٹر کو دیکھا سکیں اس دن آپ نے اپنے گھر کا برتن بیچ کے ڈاکٹر کی فیس اور ٹیکسی کا کرایہ ادا کیا تھا شاید یہ دن آپکی زندگی کا بدترین دن تھا، پھر ایک روز آپکے ہاتھ آلہ دین کا چراغ لگا اور آپ کے دن پھر گئے پھر آپ نے جائز نہ جائز کچھ نہیں دیکھا بس آپ ترقی کی راہوں پر چل نکلے، ترقی آپکے قدم بہ قدم چومتی رہی اور شاید آپ اپنی بیٹی کی بیماری کا دن بھولنے لگے، آپ انسان سے جانور بنتے چلے گئے آپ وہ دن بھول گئے کے میری طرح پاکستان میں نہ جانے کتنے غریب غوربا ہوں گے جن کے گھر میں برتن بیچ کے بیٹی کا علاج کروانے کی بھی حیثیت نہیں ہوگی اور اس طرح آپ پوری طرح سے انسان سے جانور بن گئے لیکن طاقت کے نشہ میں چور دولت کی ہوس نے آپکو اور جانور سے حیوان کردیا شاید اللّٰہ تعالیٰ کو یہی منظور تھا پھر آپ پاکستان کے امیر ترین شخصیات میں شُمار حاصل کرنے میں بھی کامیاب رہے آپ نے دکھاوے کی دنیا پر پوری طرح سے عبور حاصل کرلیا آپکے خلاف کوئی لب کوشائی کی گستاخی نہیں کر سکتا تھا کیوں کے آپ نے تمام لب سلائی کر ڈالے تھے یہ وقت آپکی طاقت کی انتہا کا وقت تھا لیکن پھر آپ سے ایک غلطی ہو چکی جو آپ نے اپنے برے وقت سے نہیں سیکھا اور غریب سندھیوں کی خاندانی زمین کی طرف میلی نظر کرڈالی آپکی طاقت کا سر چشمہ ڈوبنے کی نذیر پہ ہے یہ آپکو ابھی اندازہ بھی نہیں ہے کے جو آپ کے اشاروں پر لب سلائی ہوئی تھی اب وہ آپکی ایک غلطی سے آہستہ آہستہ لب کشائی ہو چکی ہے اب آپ پر برے وقت کے بادل منڈلا رہے ہیں اب صرف سندھ نہیں بلکہ آپ کے تمام بحریہ ٹاؤن کے پروجیکٹس پر بحران کا سایہ منڈلا رہا ہے اور آپکے گلے پڑنے جا رہے ہیں اب آپ سے حساب کتاب کیلئے سندھ کے نامور صحافی شخصیات بالخصوص عجز جمالی اور شوکت علی زرداری میدان میں آچکے ہیں میں بہت چھوٹا صحافی ہوں جو اس تحریر کے ذریعہ سے تمام صحافتی برادری بالخصوص عجز جمالی اور شوکت علی زرداری کا صحافتی جہاد میں بحریہ ٹاؤن کے خلاف ایک چھوٹا سا حصہ ڈالنے جا رہا ہوں مجھے یقین ہے کے میری اس کاوش سے تمام صحافتی برادری کو حوصلا افزائی ہوگی اور بحریہ ٹاؤن پر بحران تک یہ تحریریں جنم لیتی رہیں گی اور اُس وقت تک یہ تحریریں جنم لیتی رہیں گی جب تک آپکو اپنی بڑی بیٹی کی بیماری کا وہ دن یاد نہ آجائے اُس روز آپ نے اپنی بیٹی کے علاج کے لیے برتن بیچ تھے، جب تک یہ تحریر زندہ رہے گی جب تک آپ سندھی کا حق واپس نہیں کرتے، میں انتہائی مشکور ہوں عجز جمالی اور شوکت علی زرداری کا جنہوں نے بحریہ ٹاؤن کے خلاف آواز بلند کی
—————