مشی گن اسٹیٹ یونیورسٹی کی تحقیق

مشی گن اسٹیٹ یونیورسٹی کی تحقیق کے مطابق ماہرین کا کہنا ہے کہ’’ اگر میاں بیوی کے تعلقات کشیدہ رہتے ہیں تو اس سے مرد کو شوگر ہونے کے خطرات کم ہوجاتے ہیں‘‘۔امریکی یونیورسٹی کے مطابق یہ ثابت ہوا ہے کہ شادی کے بعد نوک جھونک اور خاتون کی شکایتیں ہمیشہ نقصان دہ نہیں ہوتیں بلکہ اس کے صحت پر اچھے اثرات بھی مرتب ہوتے ہیں۔ ماہرین نے اس کے لئے ایک ہزار سے زائد شادی شدہ جوڑوں کا 5 سال تک مطالعہ کیا اور نوٹ کیا کہ منفی ازدواجی زندگی نہ صرف مردوں میں شوگر کو روکتی ہے بلکہ اگر کوئی اس مرض کا شکار ہو تو وہ اس کی بہتر نگرانی اور علاج میں بھی معاون ثابت ہوتی ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ شکایتی بیویاں شوہر کے کھانے پینے اور صحت کے معاملات پر بھی نکتہ چینی کرتی رہتی ہیں اور یوں وہ شوگر کے مرض سے دور رہتے ہیں۔ یونیورسٹی کے مطابق خواتین میں اس کا الٹ اثر ہوتا ہے یعنی خوشگوار زندگی گزارنے والی خواتین میں شوگر سے متاثر ہونے کا خدشہ بہت کم ہوتاہے…تحقیق ختم ہوئی!

اگر یہ واقعی درست ہے تو اصولی طور پر پاکستان میں کسی شوہر کو شوگر نہیں ہونی چاہیے۔دوسرے لفظوں میں جس شادی شدہ بندے کو شوگر نہ ہو ‘ سمجھ جانا چاہیے کہ موصوف گھرمیں نہایت’’عزت‘‘ سے رہتے ہیں۔میں نے تو جب سے یہ تحقیق پڑھی ہے احتیاطاً عوامی مقامات پر چینی کا استعمال کم کردیا ہے تاکہ احباب کو تاثردیاجاسکے کہ گھریلو فضا کتنی خوشگوار ہے۔میرے وہ دوست جنہیں ابھی تک شوگر نہیں ہوئی انہیں بھی یہ مرض لاحق کروانے کے لئے سنجیدگی سے کوششیں کرنی چاہئیں، کہیں ایسا نہ ہو شوگر نہ ہونے کے چکر میں عزت ِ سادات بھی جائے۔آج کے بعد اگرآپ کا کوئی دوست چائے میں دو چمچ چینی کی ڈیمانڈ کرے تو ایک لمحے میں سمجھ جائیں کہ قبلہ اور ان کی بیگم ایک پیج پر نہیں۔

امریکن یونیورسٹی نے تو تحقیق میں پانچ سال لگا دیے،اگر وہ مجھ سے رابطہ کرتے تومیں بلاتحقیق انہیں کچھ ایسی چیزیں بتاتا جو سوفیصد درست ثابت ہوتیں۔ مثلاً یہ کہ جن شوہروں کی بیویاں لڑائی کے دوران گھریلوبرتنوں کا استعمال کرتی ہیں ان کے شوہر زندگی میں بہت سے خطرات کو پیشگی بھانپ لیتے ہیں۔جن کی بیویاں شکی ہوتی ہیں ان شوہروں کے موبائل سیکورٹی لاک جیسی خرافات سے پاک رہتے ہیں۔جن کی بیویاں بات بات پر شکوے کرتی ہیں وہ رات کو جلدی سونے اور صبح جلدی دفتر جانے کی روٹین کے عادی ہوجاتے ہیں۔یہ سچ ہے کہ جھگڑالو بیویوں کے بہت سے فائدے ہوتے ہیں لیکن بدقسمتی سے آج تک دریافت نہیں ہوسکے۔میرا ذاتی خیال ہے کہ جس گھرمیں جھگڑالو بیوی ہوتی ہے وہاں آپ کا کوئی رشتہ دار بلاوجہ منہ اٹھائے نہیں چلا آتا۔ یاد رہے کہ یہاں ’’آپ کے رشتہ دار‘‘ سے مراد صرف آپ ہی کے رشتہ دار ہیں، بیوی کے رشتہ دار اس سے مستثنیٰ ہیں۔ جھگڑالو بیوی کے ہوتے ہوئے آپ محلے میں بلاوجہ نیک اور معصوم مشہور ہوجاتے ہیں۔آپ بے شک تین وقت کے جواریے ہوں لیکن اگر بیگم جھگڑالو ہے اور ہر وقت چیختی چلاتی ہے تو یقین کرلیجئے کہ اہل محلہ یہی سمجھتے ہیں کہ یا تو آپ ایک شریف آدمی ہیں یا’’ ڈورے مان‘‘ ہیں۔جھگڑالو بیویاں عموماً دل کی بُری نہیں ہوتیں، صرف ہاتھ کی بُری ہوتی ہیں۔ ایسے میں انسان کو صرف دل پر دھیان دینا چاہیے، دل ٹوٹے تو کبھی نہیں جڑتا،ہاتھ پائوں کی ہڈی کے تو ایک سو ایک ڈاکٹر موجود ہیں۔جھگڑالو بیوی کا یہ فائدہ کیا کم ہے کہ اس کے ساتھ بازار جاتے ہوئے آپ کو ہر وقت ایک تحفظ کا احساس رہتاہے۔بعض بیویاں اونچا بولتی نہیں اونچا سنتی ہیں ۔شوہر اگر کہے کہ آج میری بہن آرہی ہے تو یہ جواب میں یا تو خاموش رہتی ہیں یا ہلکا سا’’ہوں‘‘ کر دیتی ہیں۔ شوہر دوبارہ کنفرمیشن چاہے تو آگے سے ’’والیوم ٹین‘‘ میں آواز آتی ہے…’’آہو!سن لیا اے‘ میں کوئی ڈوری نئیں۔‘‘لیکن کبھی کبھی بندے کا تجزیہ غلط بھی ثابت ہوسکتا ہے، مثلا ً میرے ایک دوست کو شبہ ہوا کہ اُن کی اہلیہ اونچا سننے لگی ہیں۔موصوف ڈاکٹر کے پاس پہنچے اور کوئی دوائی طلب کی۔ ڈاکٹر صاحب نے کہاکہ مریض کو دیکھے بغیر کیسے دواتجویز کی جاسکتی ہے۔ دوست نے درخواست کی کہ چونکہ اہلیہ بہت غصیلی ہیں لہٰذا وہ کبھی تسلیم نہیں کریں گی کہ انہیں ثقل سماعت کا عارضہ ہے لہٰذا آپ اندازے سے کوئی دوا لکھ دیجئے۔ڈاکٹر صاحب نے کچھ لمحے سوچا، پھر بولے’’ایک کام کیجئے! صرف اتنا پتا کرلیجئے کہ آپ کی اہلیہ کتنا اونچا سنتی ہیں؟ اس کے بعد مجھے دواکی مقدار تجویز کرنے میں آسانی رہے گی۔‘‘ دوست نے حیرت سے پوچھا، یہ مجھے کیسے معلوم ہوگا کہ وہ کتنا اونچا سنتی ہیں؟‘‘ ڈاکٹر نے اطمینان دلایا کہ’’ بڑا آسان طریقہ ہے،پہلے اپنی اہلیہ کو 15 فٹ کے فاصلے سے آواز دیجئے۔اگر وہ نہ سنیں توپھر 10 فٹ کے فاصلے سے آواز دیجئے۔اگر پھر بھی کوئی رسپانس نہ آئے تومزید قریب جائیے اور پانچ فٹ کے فاصلے سے آواز دیجئے…جتنے فاصلے سے وہ آواز سن لیں وہ فاصلہ مجھے آکر بتادیجئے ،میںسمجھ جائوں گا کہ دو ا کی مقدار کیا رکھنی ہے،علاج آسان ہوجائے گا‘‘۔قبلہ بہت خوش ہوئے اور فوراً گھر پہنچے۔بیگم کچن میں کھانا تیار کر رہی تھی۔ انہوں نے اپنے بوٹ وغیرہ اتارے ، بیڈ روم سے کچن کا فاصلہ اندازے سے ناپا اور 15فٹ کے فاصلے سے آواز لگائی’’بیگم آج کھانے میں کیاہے؟‘‘۔ جواب میں ’’پن ڈراپ سائلنس‘‘ رہا۔فوراً اٹھے،پانچ قدم آگے بڑھے اور اب کی بار 10 فٹ کے فاصلے سے آواز لگائی’’بیگم ! آج کھانے میں کیا پکا ہے؟‘‘۔ جواب ندارد۔ یہ پانچ قدم مزید آگے بڑھے اور لگ بھگ کچن کے دروازے پر پہنچ کر تیسری دفعہ بولے’’بیگم آج کھانے میں کیا پکا ہے؟‘‘۔ ہانڈی میں ڈوئی گھماتی ہوئی بیگم ایک جھٹکے سے مُڑیں اور پوری قوت سے چلائیں’’وے کنی دفعہ دساں…آلو قیمہ پکا اے‘‘۔
————
گل نو خیز اختر
————

https://jang.com.pk/news/926779?_ga=2.25953661.1945727463.1621056630-1434810643.1621056630