پیٹرول پمپ پر چوری اور ہیرا پھیری، ایم ڈی بھی نہیں روک سکتا ۔۔۔۔!


پاکستان اسٹیٹ آئل سمیت مختلف آئل کمپنیوں نے اپنے پٹرول پمپس پر پیمانہ پورا رکھنے اور کوالٹی اینڈ اسٹینڈرڈ کو برقرار رکھنے کے معاملے کی چیکنگ کے لیے اسپیکنگ کا نظام وضع کر رکھا ہے جس کے تحت اچانک کسی بھی پٹرول پمپ کی چیکنگ کی جاتی ہے ۔اس مقصد کے لیے موبائل ٹیسٹنگ لیبارٹری اور ٹیمیں اپنا کام کرتی ہیں ۔شکایات موصول ہونے کی صورت میں ایکشن لیا جاتا ہے عوام بھی مختلف کمپنیوں کو شکایات درج کرا سکتے ہیں مختلف کمپنیاں اس قسم کی شکایت پر ایکشن بھی لیتی ہیں اور جرمانے بھی کرتی ہیں سنیل خلاف ورزیوں پر بعض پٹرول پمپ کے خلاف سخت ایکشن لیا جاتا ہے ۔


دوسری جانب پیٹرول پمپ پر کام کرنے والا فرید مختلف صارفین سے اس قسم کی باتیں سنتا رہتا ہے کہ مختلف پٹرول پمپ پر کافی گڑ بڑ ہوتی ہے کم پٹرول پمپ ایسے ہیں جن پر عوام کو اعتماد ہوتا ہے کہ وہاں پر چوری نہیں ہوگی لیکن زیادہ تر صارفین یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے ساتھ کوئی نہ کوئی گڑبڑ اور ہیراپھیری ضرور ہوتی ہے بعض پیٹرول پمپ مالکان خود غرض بڑھنے میں ملوث ہوتے ہیں یا ان کا عملہ گڑ بڑ اور ہیرا پھیری کرتا ہے ۔پٹرول پمپ پر ہونے والی چوری اور ہیرا پھیری کی کوئی ایک قسم نہیں ہے بلکہ مختلف اقسام ہیں ہر جگہ الگ داو کھیلا جاتا ہے ۔ایک دن فرید اپنے ساتھی شہزاد سے پوچھ رہا تھا کہ کیا واقعی مختلف پیٹرول پمپ پر چوری اور ہیرا پھیری کے مختلف طریقے اختیار کیے جا رہے ہیں شہزاد نے کہا کہ تمہیں کس نے بتایا ہے ۔فرید بولا ۔جو کسٹمر آتے ہیں ان میں سے کچھ بتاتے ہیں کہ فلاں فلاں جگہ چوری ہو رہی ہے ۔شہزاد نے کہا اچھا ۔۔۔۔۔کس قسم کی چوری اور ہیرا پھیری ؟۔۔۔۔۔۔۔۔


فرید بولا۔۔۔ وہ بتا رہے تھے کہ کہیں پر پٹرول میں مکسنگ کی جاتی ہے ۔بعض پٹرول پمپس پر مشینوں کی گراری سے چھیڑ چھاڑ کی جاتی ہے ۔میٹر پر کچھ اور ادادوشمار آتے ہیں اور ٹینکی میں پٹرول کم جاتا ہے ۔ہر سو روپے پر پانچ چھ روپے کا پیٹرول چوری کیا جاتا ہے سو روپے ۔۔۔۔پانچ سو روپے ۔۔۔ہزار روپے ۔۔۔جیسے راونڈ فیگرز پر میٹر کو اس طرح سیٹ کیا جاتا ہے کہ مخصوص روپوں کی چوری کر لی جاتی ہے ۔اور عام صارف اس کو پکڑ نہیں پاتا ۔معیار اور مقدار دونوں میں چوری ہو رہی ہے ہیراپھیری ہوتی ہے اس کے علاوہ جب صارف پٹرول ڈلوانے آتا ہے تو اس کی نظر بچا کر میٹر زیرو سے شروع کرنے کی بجائے پچاس یا سو روپے سے شروع کر کے جلدی جلدی 500 یا ہزار روپے کا پیٹرول ڈال دیا جاتا ہے اس قسم کی چوریوں میں عملے کی کالی بھیڑیں ملوث ہوتی ہیں۔ یہ اور اس قسم کی اور بہت سی چوریاں اور ہیرا پھیریاں پٹرول پمپ پر عام ہیں۔ ۔۔۔۔۔۔۔


شہزاد اس کی باتیں سن کر مسکرا دیا ۔۔۔۔۔اور بولا ۔۔۔۔۔یار فرید تم ان باتوں کی فکر نہ کرو ۔۔۔۔تم اپنا دھیان صرف اپنے کام پر دو ۔۔۔۔۔اگر کسی پٹرول پمپ سیٹھ یا مینیجر چوری یا ہری کر رہا ہے تو یہ اس کا دین ایمان ہے ہم تو اپنا کام پوری محنت اور دیانتداری سے کر رہے ہیں کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ اللہ دیکھ رہا ہے ہم کس کس کو دھوکہ دیں گے انسانوں کو دھوکہ دے سکتے ہیں اللہ کو نہیں ۔۔،۔۔۔فرید نے اس سر ہلایا اور شہزاد کی ہاں میں ہاں ملائی ۔۔۔۔۔۔۔
شہزاد نے کہا دیکھو یار فرید ۔۔۔۔مجھے پٹرول پمپ کی نوکری پر بہت عرصہ ہوگیا ہے میں نے مختلف پٹرول پمپوں پر کام کیا ہے مختلف کمپنیوں کا کام دیکھا ہے اور اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ کہ اگر کوئی بےایمان ہو جائے تو اس کی چوری کمپنی کا ایم ڈی بھی نہیں روک سکتا پھر وہ کوئی نہ کوئی طریقہ نکال ہی لیتا ہے اور چوری کر ہی لیتا ہے ویسے بھی تیل کا کام ایسا ہے کہ بڑے لوگ بتاتے ہیں کہ تیل کے کنویں سے نکالنے سے لے کر گاڑی کے انجن کے ذریعے جلنے تک اس میں کہیں نہ کہیں کوئی نہ کوئی چوری اور گڑبڑ کرتا ہی رہتا ہے تیل سے لوگوں کی زندگی بن بھی جاتی ہے اور اس کاروبار میں کئی لوگ تباہ بھی ہوئے ہیں اس کام میں جائز طریقے سے بھی کافی منافع ہے اور ناجائز طریقے بھی بہت ہیں ۔اب یہ انسان پر منحصر ہے کہ وہ کس راستے پر چلتا ہے ایمانداری کے راستے پر یار بے ایمانی کے راستے پر ۔صبر اور سکون کے ساتھ زندگی گزارتا ہے یا راتوں رات امیر بننے کے لیے مختلف غلط اقدام کرتا ہے اچھے کام میں سکون ہے اور غلط کام میں بے سکونی ۔۔۔

شہزاد بولتا جا رہا تھا اور فرید اس کی باتیں غور سے سن رہا تھا ۔۔۔۔۔۔شہزاد نے مزید کہا کہ اس ملک میں کتنے پٹرول پمپس ہیں سینکڑوں بلکہ ہزاروں ۔۔۔۔۔۔یاد رکھو یہ سب کے سب چور نہیں ہیں۔ اس کاروبار میں بہت اچھے ایماندار پرہیز گار اور دیانت دار لوگ بھی ہیں لیکن یہ بھی سچ ہے کہ اس کاروبار میں بہت سے لوگ بے ایمانی بھی کر رہے ہیں اگر پاکستان میں سارے پیٹرول پمپ چور نہیں ہیں تو سارے ایمان دار بھی نہیں ہیں۔ معاشرے میں کسی بھی شعبے میں پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہوتیں اچھے برے لوگ ہر صوبے میں ہوتے ہیں دیگر شعبوں کی طرح پٹرول پمپ کے بزنس میں بھی ہیں رزق کو حلال کرکے کھانا تو ہر انسان کے اپنے اوپر منحصر ہے ۔۔۔۔۔۔یار فرید تم ان باتوں کو چھوڑو ۔۔۔۔۔اور اپنا دھیان کام پر دو ۔۔۔۔۔اللہ بہتر کرے گا ۔۔۔۔۔۔
(جاری ہے )