غلام نبی میمن کی سائیں سرکار کو ضرورت نہیں تھی .. …


تحریر : راؤ محمد جمیل

سندھ پولیس میں یوں تو پولیس افسران کی کمی نہیں ایک عہدہ خالی ہوتا نہیں اور قطار لگ جاتی ہے لیکن شہریوں کو میرٹ پر فراہمی انصاف اور پولیس ملازمین کی داد رسی کے حامل پولیس افسران نصیب سے ہی ملتے ہیں تاہم جو ملتے ہیں جانے کے بعد اپنی یادیں چھوڑ جاتے ہیں ماضی میں ایک دور ایسا بھی تھا کہ آئی جی سندھ با اختیار ہوتے تھے تھانیداروں سمیت پولیس افسران کے تبادلے اور تقرریاں بھی میرٹ پر ہوا کرتی تھی مجھے یاد ہے ایک دور ایسا بھی تھا جب آئی جی سندھ نے حکم جاری کیا کہ جس تھانے کی حدود میں ڈکیتی مزاحمت پر کوئی شہری قتل یا زخمی ہوگا اُس تھانے کے SHO کو مطل کردیا جائے گا پھیر چند تھانیداروں کے معطل ہونے کی دیر تھی کہ اسٹریٹ کرائم کا گراف انتہائی نیچے آگیا 20 سال قبل جب میں روز نامہ کائنات میں کرائم رپورٹر تھا تو ثناء الله عباسی کو SSP ملیر تعینات کیا گیا اور انکے چارج لیتے ہی ملیر بھر سے 80 فیصد جرائم اور جرائم کے اڈوں کا خاتمہ ہوگیا قد آور تھانیداروں اور تھانوں کی اسپیشل پارٹیوں کے انچارجوں کو میں نے نوعمر اور معصوم صورت پولیس افسر ثناء الله عباسی کے سامنے لرزتے ہوئے دیکھا اور پھیر ثناء الله عباسی کا تبادلہ ہوگیا ملیر کے عوام مایوس اور مافیاز نے بھنگڑے ڈالنے شروع کردیئے تاہم قسمت نے ایک نوجوان اور خوبرو پولیس افسر غلام نبی میمن کو SSP ملیر کی صورت میں عوام کے حوالے کیا تو بھنگڑے ڈالنے والوں میں پھیر صف ماتم بچھ گئی اور عوام میں خوشی کی لہر دوڑ گئی غلام نبی میمن نے ثناء الله عباسی کی روایت کو برقرار رکھا تو ثناء الله عباسی نے نئی تعیناتی کے ساتھ ہی لیاری کے علاقے گھاس منڈی میں چلنے والے ملک کے سب سے بڑے جوئے کے اڈے کا خاتمہ کردیا مذکوره جوئے کا اڈہ بااثر شخصیات کی سرپرستی میں چل رہا تھا تو آمدن کا بڑا حصہ اہم سیاسی شخصیات اور اعلیٰ پولیس افسران کو پیش کرنے کے علاوه صحافیوں کی بڑی تعداد میں بھی تقسیم کیا جاتا تھا جوئے کے اڈے کی بندش کے بعد ثناء الله عباسی کو بھاری قیمت پر خریدنے کی کو شش کی گئی اور ناکامی پر وہی رقم ایک اعلیٰ سیاسی شخصیت کو دیکر انکا تبادلہ کرا دیا گیا وقت گزرتا رہا اور پھیر آئی جی پولیس کے اختیارات وزیر اعلیٰ اور صوبائی وزیر داخلہ کو پیش کردیئے گئے پولیس افسران اور ایس ایچ اوز کے تبادلے اہم فیصلے اور تقرریاں وزیر داخلہ کے آستانے سے ہونے لگیں مجھے یہ بھی یاد ہے کہ صوبائی وزیر داخلہ روف صدیقی نے ایس ایچ اوز کی تعیناتی اور قیمت وصولی کیلئے ایک بڑے صحافی کی خدمات بھی حاصل کررکھی تھیں اور وہ صحافی اکثر و بیشتر روف صدیقی کی رہائش گاہ پر ہی پائے جاتے تھے بلکہ اکثر مہمانوں کے لیے دروازه بھی خود ہی کھول دیتے تھے بعض اصول پرست آئی جیز نے اس سیاسی ناانصافی سے بغاوت کرنے کی کوشش کی تو انہیں نشان عبرت بنا دیا گیا تاہم شہر قائد کو پھیر بھی کبھی کبھار اچھے اور دیانت دار افسر ملتے رہے جو پولیس کے نظام کی بہتری کیلئے ناکام کاوشوں کے بعد عہدوں سےمحروم ہونے کے ساتھ ساتھ وفاق کے حوالے بھی کئے گئے غلام نبی میمن کا شمار بھی ایسے ہی سر پھیرے پولیس افسران میں ہوتا ہے جو بطور ایڈیشنل آئی جی کراچی تعیناتی کے بعد محکمہ پولیس میں اصلاحات اور میرٹ کے قیام اور عوام کو فراہمی انصاف کیلئے کوشاں رہے پولیس افسران اور ایس ایچ اوز کی میرٹ پر تعیناتی اور اہلیت کیلئے امتحان میں کامیابی سے مشروط قرار دینے کے علاوه شہری شکایات کے ازالے اور فوری انصاف فراہمی کیلئے واٹس اپ ٹیم متعارف کرائی لیکن اُنکی اصول پرستی کو ہمیشہ ناکام بنایا گیا انکی کاوشوں کو کھلے عام روند دیا گیا میں حیران ہوں کہ ان حالات اور دباؤ میں انہوں نے اتنا عرصہ کیسے گزار لیا شاید نوجوانی کا جوش اس عمر میں کچھ کم ہوگیا تھا تاہم اس ماحول میں جب محکمہ پولیس کے sho تو کیا بعض اوقات ہیڈ محرر کی تعیناتی بھی سائیں سرکار یا انکی ٹیم سرانجام دیتی ہو اور آئی جی سندھ سمیت پولیس افسران کی ذمہ داری صرف آڈرز پر دستخط کرنا ہی رہ جائے تو پولیس کے کسی افسر سے میرٹ یا انصاف کی امید ایک دیوانے کا خواب ہی ہے اب عمران یعقوب منہاس کو نیا ایڈیشنل آئی جی کراچی تعینات کردیا گیا ہے شمار تو انکا بھی دیانت دار ، دلیر اور سرپھرے پولیس افسران میں ہوتا ہے دیکھنا یہ ہے کہ وہ اکیلے اتنی بڑی مافیا اور سائیں سرکار کے روایتی دباؤ کا مقابلہ کب تک کرتے ہیں وہ انقلاب لا کر تاریخ رقم کرینگے یا سسٹم کا حصہ بن کر گم ہو جائیں گئے