سی پیک اور گوادر بندرگاہ کے منصوبے خطے کی معاشی تقدیر بدل دیں گے-سینیٹر کہدہ بابرکی خصوصی گفتگو

سی پیک اور گوادر بندرگاہ کے منصوبے خطے کی معاشی تقدیر بدل دیں گے
بلوچستان کی پس ماندگی اور احساس محرومی کے ذمہ دار ماضی کے بدعنوان حکم راں اور حکومتیں ہیں
اہلیان گوادر کے لئے کچھ نہ کر سکا تو مستعفی ہو جاؤں گا،92نیوزسے سینیٹر کہدہ بابرکی خصوصی گفتگو

جنرل (ر) پرویز مشرف کا دور 2000ء میں بلوچستان اور اس کے عوام کے لئے سنہری ثابت ہوا
بلوچستان میں سیاسی بے چینی غربت کی وجہ سے تھی، ترقی کا نیا دور شروع ہوچکا، عوام مطمئن ہیں

پاکستان کے ازلی دشمن بلوچستان کا امن تہہ و بالا کر کے ریاست پاکستان کو کمزور کرنا چاہتے ہیں
حکومت پرائیویٹ سیکٹر کو پرکشش ترغیبات دے کر انہیں یہاں سرمایہ کاری کے لئے آمادہ کرے

گوادر کے نوجوانوں میں ہنرمندی کو فروغ دینے کے لئے ایک مثالی ٹیکنیکل ادارہ زیر تعمیر ہے
ٹیکنیکل انسٹی ٹیوٹ کی تکمیل کے بعد مقامی افرادکے لئے روزگار کے مواقع بڑھ جائیں گے

عام بلوچ سے لے کر مسلح افواج تک دشمن کی سازشوں کو ناکام بنانے کے لئے شانہ بہ شانہ ہیں
ماضی میں ملنے والے فنڈز اللوں تللوں پر اڑائے گئے جس سے حالات دگرگوں ہوتے چلے گئے

ملاقات: سعید خاور
گوادر ایک خوب صورت قدرتی بندرگاہ ہے جو پاکستان کے سب سے بڑے صوبے بلوچستان میں پاکستان کے ساحل پر بحیرہ عرب کے شمال مغرب میں واقع ہے۔ گوادر ضلع گوادر کا ضلعی صدر مقام بھی ہے۔ گوادر کی بلوچوں کی طرف سے عمان کو منتقلی اور پھر پاکستان کے ساتھ الحاق کی کہانی بہت دلچسپ اور طویل ہے لیکن ہم یہاں مختصراً اس کے بارے میں بتائے دیتے ہیں۔ گوادر تاریخی طور پر پاکستان کے ساتھ منسلک بلوچ علاقوں اور سرداروں کی ملکیت تھا اور تاریخی کتابوں میں صراحت کے ساتھ مذکور ہے کہ یہ علاقہ سکندر اعظم کے دور ہی سے مکران کا حصہ تھا۔ گوادر کے عین اس طرف عمان کی عرب ریاست ہے۔عمان کا شہزادہ سعید سلطان جانشینی کی جنگ میں ناکامی کے بعد 1783ء میں کواڈہ کے راستے مکران کے میرواری قبیلے کے ایک گاوں ”زک“ میں پہنچا اور قبیلے کے سردار داد کریم میرواری کے توسط سے خان آف قلات اور دوسرے بلوچ سرداروں سے ملاقات کر کے امداد طلب کی۔ شہزادہ سعید چاہتا تھا کہ تاج و تخت کی اس لڑائی میں اسے بلوچ قبائل کی فوجی حمایت فراہم کی جائے لیکن مقامی سرداروں نے عمان کی اندرونی لڑائی کا حصہ بننے کے بجائے گوادر کا علاقہ اس شرط پر اسے دے دیا کہ اگر اس کا اقتدار بحال ہو گیا تو وہ گوادر بلوچ سرداروں کو واپس کر دے گا۔ جب سلطان نے عمان کو دوبارہ فتح کیا تو اس نے گوادر پر اپنی حکومت دوبارہ قائم کی اور یہاں ایک گورنر تعینات کر دیا لیکن دارالحکومت مسقط اور گوادر کے درمیان 419 کلومیٹر سمندر حائل ہونے اور انتظامی مشکلات کے پیش نظر اسے بیچنے کی ٹھان لی۔ 8 ستمبر 1958ء میں پاکستان نے عمان سے گوادر کو خریدا۔ اور 8 دسمبر 1958ء کو اسے پاکستان کا سرکاری طور پر حصہ بنا دیا۔اگر تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ بھارت کی ایک زمانے سے گوادر پر نظر تھی اور اس نے اسے بہر صورت عمان سے حاصل کرنے کی کوششیں کیں جو بارآور ثابت نہ ہو سکیں اور پاکستان اسے دوبارہ اپنے صوبے بلوچستان کا حصہ بنانے میں کامیاب ہو گیا جس کا ملال بھارت کو آج تک ہے اور وہ آئے روز گوادر بندرگاہ کی فعالیت روکنے اور بلوچستان کی ترقی میں روڑے اٹکاتا رہتا ہے اور مقامی آبادی کو جذباتی طور پر بلیک میل کر کے بھڑکاتا رہتا ہے۔ گوادر کو بندرگاہ کے طور پر ترقی دینے کی باتیں تو بہت ہوتی رہیں لیکن اس پر عملی کام کئی دہائیوں بعد 2002ء میں جنرل مشرف نے کیا۔ 1954ء میں امریکی جیالوجیکل سروے نے گوادر کو ڈیپ سی بندرگاہ کے لیے بہترین مقام قرار دیا تھا۔ اس وقت کے فوجی صدر جنرل پرویز مشرف نے گوادر میں بندرگاہ کی تعمیر کے کام کا افتتاح کیا اور 24 کروڑ ڈالر کی لاگت سے یہ منصوبہ 2007ء میں مکمل ہو گیا۔ حکومت نے اس نئی نویلی بندرگاہ کو چلانے کا ٹھیکہ سنگاپور کی ایک کمپنی کو بین الاقوامی بولی کے بعد دے دیا لیکن 2013ء میں حکومت نے اس بندرگاہ کو چلانے کا ٹھیکہ سنگاپور کی کمپنی سے لے کر ایک چینی کمپنی کے حوالے کر دیا۔ چین پاکستان راہداری منصوبے کے بعد گوادر بندرگاہ اقتصادی دنیا کی آنکھ کا تارہ بن گئی ہے۔ جن دنوں گوادر عمان کی ملکیت میں تھا تو یہاں تین طبقوں کا اثر و رسوخ بہت زیادہ تھا، ان میں عرب، دوسرے آغا خانی اور تیسرے بلوچوں کے نمائندہ کہدہ۔ یہ بلوچ عمائدین ایران میں کت خدا اور بلوچستان میں کد خدا اور اب کہدہ کے لقب سے موجود ہیں۔ ان بلوچ اکابرین کی دھرتی اور پاکستان سے وفا ناقابل فراموش ہے۔ بلوچستان سے 2018ء میں آزاد حیثیت سینیٹر منتخب ہونے والے گوادر کے کہدہ بابر ایک مقبول سیاسی رہنما ہیں۔ وہ مسقط میں بینک افسر تھے لیکن گوادر اور پاکستان کی محبت انہیں واپس وطن کھینچ لائی اور وہ 2001ء میں پاکستان آ گئے۔ عوام سے محبت کا یہ درس انہیں اپنے والد کہدہ محمد انور سے ورثے میں ملا جو پاکستان اور بلوچستان سے محبت کو جزو جاں سمجھتے تھے۔ سینیٹر بننے کے بعد کہدہ بابر گوادر بندرگاہ کی فعالیت، گوادر کے عوام اور بلوچستان کی ترقی کے لئے ہمہ وقت کوشاں ہیں۔ گزشتہ دنوں ان سے گوادر اور بلوچستان کی ترقی کے حوالے سے ان کی رہائش گاہ پر خصوصی گفتگو ہوئی جو نذر قارئین ہے:
سوال: کہدہ بابر صاحب! بلوچستان میں سیاسی بے چینی ہے، کچھ عناصر بلوچستان کی محرومی کا پروپیگنڈہ کرتے رہتے ہیں، بلوچستان کے احساس محرومی کا خاتمہ کیوں کر ممکن ہو گا؟
کہدہ بابر: بلاشبہ بلوچستان میں غربت اور محرومی زوروں پر رہی ہے، جہاں غربت ہو وہاں وقت کے ساتھ احساس محرومی بڑھ ہی جاتا ہے، جب تک علاقے میں مواقع پیدا نہیں ہوں گے لوگوں کی زندگی میں

آسانیاں پیدا نہیں ہوں گی۔ اب صورت حال میں بہتری آ رہی ہے۔ اس سے پہلے وسائل نہیں تھے جس کی وجہ سے مسائل بڑھتے گئے۔ جو وسائل ملتے تھے وہ ہڑپ ہوتے رہے، بلوچستان کی ابتری کے ذمہ دار ماضی کے حکمران ہیں۔ اگر انہوں نے ذمہ داری اور ایمان داری سے کام کیا ہوتا اور دستیاب وسائل کو دیانت داری سے اپنے لوگوں پر خرچ کیا ہوتا تو آج بلوچستان کی تصویر یکسر مختلف ہوتی۔ ماضی میں بلوچستان کو ملنے والے فنڈز اللوں تللوں پر اڑائے گئے جس سے حالات دگرگوں ہوتے چلے گئے اور بلوچ عوام غریب سے غریب تر ہو کر رہ گئے۔ لوگوں کی غربت اور بے کسی کا فائدہ دشمنوں نے اٹھایا اور وہ اپنے گماشتوں کے ذریعے سادہ لوح بلوچوں میں گھس گئے اور نوجوانوں کو ورغلا کر انہیں ریاست اور اداروں کے خلاف استعمال کیا جس سے بلوچستان کا روایتی امن متاثر ہوا۔ در اصل پاکستان کے ازلی دشمن بلوچستان کا امن تہہ و بالا کرکے ریاست پاکستان کو کمزور کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن یہ ان کی خام خیالی ہے، بلوچ عوام کی اکثریت محب وطن ہے اور اب شعور کی بیداری کے بعد وہ دشمن کے جال سے نکل آئے ہیں۔ خاص طور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے بلوچستان کی مقدس سر زمین کو دشمنوں کے نا پاک عزائم سے بچانے کے لئے جو قربانیاں دیں وہ تاریخ ساز اور قابل ستائش ہیں –
سوال: لیکن اب تو وفاق بلوچستان کو فراخدلی سے وسائل فراہم کررہا ہے، اب تو احساس محرومی کا زور ٹوٹنا چاہیے، اب بھی لوگوں کے ریاست کے خلاف کوئی شکوے شکایتیں ہیں یا اب ہواؤں کا رخ بدل گیا ہے؟
کہدہ بابر: جی ہاں! جنرل مشرف کا دور 2000ء میں بلوچستان اور اس کے عوام کے لئے سنہری دور ثابت ہوا، اس دور میں یہاں پہلی بارصوبے میں بے پناہ کام ہوئے، اس دور میں کئی میگا پراجیکٹ مکمل ہوئے۔سب سے بڑا کام تو گوادر کی بندرگاہ کا ہے، اس دور میں گوادر کی جدید ترین بندرگاہ تعمیر ہوئی، میرانی ڈیم بنا، مکران کوسٹل تعمیر ہوئی، 892 کلومیٹر طویل ایسٹ ویسٹ موٹر وے ایم 8 رتو ڈیرو سے گوادر تک تعمیر ہوئی، تعلیم اور صحت کے میدان میں بھی کئی غیر معمولی کام ہوئے۔ بلوچستان میں اتنے زیادہ کام ہوئے تو دشمن اور زیادہ متحرک ہو گیا لیکن اب لوگ زیادہ سمجھ دار ہو گئے ہیں، میڈیا سوشل میڈیا نے شعور بیدار کر دیا ہے، اب بلوچستان میں عام آدمی سے لے کر مسلح افواج تک دشمن کی سازشوں کو ناکام بنانے کے لئے شانہ بہ شانہ کھڑے ہو گئے ہیں، لوگوں میں اس عرصے میں سیاسی شعور بہت بڑھا ہے، اب کوئی بلوچستان کے عوام کو گمراہ نہیں کر سکتا، الحمدللہ! اب بلوچستان ایک پر امن صوبہ ہے۔
سوال: اس دور میں بلوچستان کو کیا ریلیف ملا ہے، موجودہ دور کی کارکردگی کو آپ کس طرح سے بیان کرتے ہیں؟
کہدہ بابر: ہم نے ترقی کا یہ تسلسل قائم رکھا ہے، ہمارے اس موجودہ دور میں بھی ترقی کا یہ سفر اور تیزی سے آگے بڑھا ہے جس کی وجہ سے بلوچستان میں سلامتی کی صورت حال غیر معمولی حد تک بہتر ہو گئی ہے۔پہلے یہاں صرف ایک یونیورسٹی تھی اب پورے صوبے میں درجنوں تعلیمی ادارے کھل گئے ہیں، جا بہ جا اسکول، کالج، تیکنیکی ادارے اور اسپتال کھل گئے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اب بھی تعلیم اور صحت کے شعبوں میں مزید کام کرنے کی ضرورت ہے، اور ان شا اللہ ہم دن رات گوادر اور بلوچستان کی ہر شعبے میں ترقی اور نوجوانوں کے لئے روزگار کے وسائل مہیا کرنے کے لئے کوشاں ہیں۔ الحمدللہ آج کا بلوچستان 20 برس پہلے کے بلوچستان کی نسبت بہت بہتر ہے۔ بلوچستان میں سیاسی بے چینی غربت اور پس ماندگی کی وجہ سے تھی، ترقی کا نیا اور حقیقی دور شروع ہونے سے یہ بے چینی اب ماضی کا قصہ بن چکی ہے۔ اب ان شااللہ آپ بلوچستان سے خوش خبریاں ہی سنیں گے۔

سوال: اب جب کہ بلوچستان میں امن کی خبریں ملنے لگی ہیں تو آپ لوگ پرائیویٹ سیکٹر کو صوبے میں اپنا کردار بڑھانے کے لئے ترغیب کیوں نہیں دیتے؟
کہدہ بابر: جی ہاں! یہ اہم ترین معاملہ ہے، وفاقی یا صوبائی حکومتیں سب کچھ اپنے وسائل سے نہیں کر سکتیں، ان کے اپنے مسائل ہیں، اس کے لئے پرائیویٹ شعبے اور سرمایہ کاروں کو آگے آنا ہو گا۔ بلوچستان میں کام کرنے کے بہت مواقع ہیں۔ اس صوبے میں آئی ٹی، معدنیات، آبی حیات، سیاحت اور ثقافت میں سرمایہ کاری کی بڑی کشش ہے اور طویل ساحلی پٹی کو کارآمد بنانے کے لئے بھی بہت کام کیا جا سکتا ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت سرمایہ کاروں اور پرائیویٹ سیکٹر کو پرکشش ترغیبات اور ضروری سہولتیں دے کر انہیں یہاں کام کے لئے آمادہ کرے۔ اس سے نہ صرف بلوچستان کو مزید ترقی ملے گی بلکہ غیر معمولی حد تک روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے اور بلوچستان کے لوگوں کی زندگی میں بڑی آسانیاں پیدا ہوں گی۔ اس حوالے سے چیئرمین سینیٹ سردار صادق سنجرانی بھی بہت سرگرم ہیں وہ بلوچستان کی ترقی کے لئے بہت کام کر رہے ہیں۔
سوال:لیکن ایک تاثر تو یہ ہے کہ سی پیک پر چین اور پاکستان کی دل چسپیاں کمزور پڑ گئی ہیں، آپ کا کیا خیال ہے؟
کہدہ بابر: یہ سارا دشمنوں کا منفی پروپیگنڈہ ہے، سی پیک ایک گیم چینجر منصوبہ ہے، یہ اللہ کے حکم سے پاکستان کی معاشی تقدیر بدل کر رکھ دے گا، چین اور پاکستان اس منصوبے سے دست برداری کے متحمل ہی نہیں ہو سکتے، یہ ہماری معاشی بقا کی لائف لائن ہے، اس منصوبے پر پاکستان اور چین دونوں ممالک بہت سرگرم ہیں۔ سی پیک کے تحت بلوچستان میں سڑکوں کا جال بچھایا جارہا ہے۔ پاکستان اور چین کے تعاون سے باہمی تجارت کی راہیں کھل رہی ہیں۔سی پیک اتھارٹی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ دن رات اس کی تکمیل کے لئے کوشاں ہیں۔ میری پچھلے دنوں اسلام آباد میں چینی سفیر عزت مآب نونگ رونگ سے بھی تفصیلی ملاقات ہوئی، وہ سی پیک کی تکمیل کے لئے بہت پرجوش ہیں۔ اس تاریخی منصوبے پر بڑی سنجیدگی اور تیزی سے کام ہو رہا ہے۔ ہم سب کو احساس ہے کہ گوادر کی اس پورے خطے میں غیر معمولی اسٹریٹیجک پوزیشن ہے، گوادر بندرگاہ صرف پاکستان اور چین ہی کے لئے نہیں بلکہ پورے خطے کے لئے موزوں ترین بندرگاہ ہے اور یہ مکمل فعالیت کے بعد پاکستان کو خوش حال ملکوں میں لا کھڑا کرے گی، یہ قومی نوعیت کے منصوبے ہیں، اس لئے ان منصوبوں سے کنارہ کشی کا ہم تصور بھی نہیں کر سکتے۔
سوال: آپ فرزند گوادر ہیں، آپ کو سینیٹر منتخب ہوئے تیسرا سال ہو چلا ہے، آپ نے گوادر، یہاں کے عوام کی ترقی اور گوادر پورٹ کی فعالیت کے لئے کیا کچھ کیا ہے، ذرا اس بارے میں بتایئے؟
کہدہ بابر: جی! مجھے فرزند گوادر اور بلوچستان کا بیٹا ہونے پر فخر ہے۔ میں نے جب سے سینیٹر کا عہدہ سنبھالا ہے میں گوادر شہر کی ترقی اور مقامی آبادی کے بنیادی حقوق کے تحفظ کے لئے دن رات کوشاں ہوں، کچھ عرصہ قبل میں نے اسی پلیٹ فارم سے اعلان کیا تھا کہ گوادر کے نئے ماسٹر پلان کے منصوبے میں گوادر کی قدیم آبادی یعنی اولڈ سٹی کو شفٹ نہیں کیا جائے گا، الحمدللہ میری کوششوں سے گوادر کی آبادی کو تحفظ فراہم کیا گیا ہے۔ گوادر بندرگاہ کی فعالیت بھی میری کوششوں سے ممکن ہو گئی ہے، پانچ سال سے گوادر بندرگاہ کو فعال کرنے کے حوالے سے زبانی کلامی دعووں پر انحصار کیا جا رہا تھا، گوادر بندرگاہ سے ٹیکس چھوٹ کی کوئی قانونی حیثیت نہیں تھی، وفاقی حکومت اور چیئرمین سینیٹ کے تعاون سے قانون سازی کر کے گوادر بندرگاہ کو 23 سال کے لئے ٹیکس چھوٹ کا درجہ دلایا گیا ہے جبکہ گوادر بندرگاہ سے افغان ٹرانزٹ ٹریڈ
شروع کیا گیا ہے جس سے ترقی کا ایک نیا در وا ہوا ہے۔ اگلے ماہ گوادر بندرگاہ سے پاور پلانٹ کا منصوبہ جنریٹ کیا جا رہا ہے جس سے مقامی سطح پر انرجی کا بحران کم کیا جا سکتا ہے۔ میں روزنامہ 92 نیوز کے توسط سے اہلیان گوادر کو یہ بھی خوش خبری سنانا چاہتا ہوں کہ اگلے چھ ماہ کے دوران گوادر شہر کی قدیم آبادی کی بحالی اور مقامی لوگوں کی ترقی کا منصوبہ شروع کیا جائے گا جس کے لئے منصوبہ بندی مکمل کر لی گئی ہے اور اس کے لئے پیشہ ور مہارت کاروں کی خدمات حاصل کی گئی ہیں۔ گوادر کا مستقبل تابناک ہے، میں دعوت دیتا ہوں کہ گوادر کی تاجر برادری گوادر بندرگاہ سے استفادہ کرے، گوادر کے مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری کے لئے مقامی کاروباری افراد کے لئے خاص رعایتیں رکھی گئی ہیں، میں سمجھتا ہوں کہ یہی موزوں ترین وقت ہے کہ ہم اس ترقی کا حصہ بن جائیں تاکہ بعد میں ہمیں پچھتاوا نہ ہو۔ میں نے گوادر میں تعلیم و صحت کی سہولتیں بہم پہنچانے کے لئے بہت کام کیا ہے، اب گوادر میں ماضی کے مقابلے میں تعلیم اور صحت کا شعبہ مستحکم دکھائی دے رہا ہے۔ ”گوادر ڈویلپمنٹ اتھارٹی اسپتال“ کی صورت میں میرے شہریوں کو بہترین صحت کا مرکز نصیب ہوا ہے جو آگے چل کر مزید سہولتوں سے آراستہ کیا جائے گا۔ تعلیم کے میدان میں بھی بہت پیش رفت ہوئی ہے، گوادر یونیورسٹی کا قیام میرا دیرینہ خواب ہے جس کی تعبیر کے لئے میں بہت پر جوش ہوں۔ اراضی کا معاملہ طے نہ پانے کی وجہ سے گوادر یونیورسٹی کا منصوبہ تاخیر کا شکار ہو گیا تھا، قوی امید ہے کہ آئندہ مالی سال کے پی ایس ڈی پی میں ”گوادر یونیورسٹی“ کا منصوبہ شامل کر کے اسے شروع کر دیا جائے گا۔ ایک اور اہم منصوبے کا ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ گوادر کے نوجوانوں میں ہنرمندی کو فروغ دینے کے لئے ایک مثالی ٹیکنیکل ادارہ زیر تعمیر ہے جس کی تکمیل کے بعد مقامی افرادی قوت وسیع پیمانے پر صنعت و حرفت میں روزگار کے مواقع حاصل کر پائے گی۔ میں جب سے سینیٹر بنا ہوں میری یہی کوشش ہے کہ میں اپنے لوگوں کو کچھ دے سکوں اور اس کے لئے میں بے پناہ محنت کر رہا ہوں، اگر کسی بھی لمحہ میں نے یہ محسوس کیا کہ میں اپنے لوگوں کی حقیقی معنوں میں ترجمانی نہیں کر سکا یا ان کے لئے عملا کچھ نہیں کر پا رہا تو میں ادھر ادھر منہ چھپانے کی بجائے سب کچھ چھوڑ کر اپنے لوگوں میں آ جاؤں گا۔