بیورو کریسی، خان کے نشانے پر

محاسبہ
ناصر جمال

کوئی آندھی کا کوئی جس کا فریادی ہے
سانس لینے کی یہاں کس قدر آزادی ہے
جو خدوخال سے انسانوں کو پہچانتے ہیں
ہم نے ان تک تری آواز بھی پہنچا دی ہے
اُس کا ماتم نہ سہی ، ذکر تو کرسکتے ہیں
پسِ دیوار!!! ہمیں اتنی تو آزادی ہے
میں تری مدح تو کرسکتا ہوں لیکن اس میں
میرے فن ہی کی نہیں، خلق کی بربادی ہے
مجھے یہ فکر کہیں تو نہ اکیلا رہ جائے
تمجھے یہ زعم!!! زمانہ تیرا امدادی ہے
تیرے اور میرے ستارے جو نہیں ملتے
تجھ میں اور مجھ میں کوئی فرق تو بنیادی ہے
(رامؔ ریاض)
بات عوام کے ’’بروٹس اعظم‘‘ کی کروں یا بیورو کریسی کے ’’بروٹس اعظم‘‘ کی۔ چلیں! پہلے منہ کے ذائقے کی تبدیلی کیلئے پہلا لطیفہ سُن لیں۔ کیونکہ اس کے بعد تو تلخ نوائی ہی ہوگی۔
پوری تبدیلی سرکار کو’’سستے بازاروں‘‘ کے دوروں کے دورے پڑے ہوئے ہیں۔ وزیراعظم یوٹرن پر ندامت کی بجائے، فخر کرے تو، صدرمملکت سے لیکر پوری حکومت ’’یوٹرن‘‘ کی فیوض و برکات قوم کو سمجھانے چل پڑتی ہے۔ میں نے ’’مکھن اور چُک کے رکھ‘‘ ماضی میں بھی لگتے اور ہوتے دیکھے ہیں۔ مگر دور جدید جیسے اعلیٰ صفاتی مکھن اور تیز ترین چُک کے رکھ نہیں دیکھے۔
وزیراعظم سنسان سستے بازاروں کا دورہ کرنے چل پڑے۔ ویسے ان کی بڑی ہی ہمت ہے کہ انہوں نے یہ ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل بھی کردیں۔ جعلی اسٹالوں پر وہی آئی۔ بی، سپیشل برانچ اور پولیس کے اہلکار کھڑے تھے۔ یقینی طورپر ان کے ساتھ بھی شوکت عزیز والی واردات ہی ہوئی ہوگی۔
شوکت عزیز کسی ایسے ہی بازار میں گوشت والے اسٹال پر گئے۔ دکاندار نے کہا مہنگائی ہے کام کا مندا ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ میں تم سے دس کلو گوشت خرید لیتا ہوں۔ دکاندار نے کہا کہ وہ گوشت نہیں بیچ سکتا۔ وزیراعظم نے کہا کہ گوشت کاٹو، اس نے کہا کہ چھری نہیں ہے۔ وزیراعظم نے حیرانگی سے پوچھا، وہ کیوں نہیں ہے۔ دکاندار نے کہا صُبح ،صُبح پولیس والوں نے لے لی تھی۔ وزیراعظم نے کہا ڈی۔ ایس۔ پی کو بلائو۔ دکاندار نے کہا کہ میں ہی ڈی۔ ایس۔ پی ہوں۔ وزیراعظم نے کہا کہ ایس۔ پی کو بلائو۔ ڈی۔ ایس۔ پی نے کہا کہ وہ ابھی نہیں آسکتے۔ وزیراعظم نے کہا کہ کیوں۔۔۔۔ ڈی۔ ایس۔ پی نے کہا کہ وہ مچھلی والے سٹال پر ، مچھلی فروش کے بہروپ میں ہیں۔
قارئین!!!
آپ یقین کیجئے گا۔ عمران خان کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوا ہوگا۔ فرق صرف یہ ہے کہ اس بار دکاندار کے بہروپ میں عہدے دار شاید زیادہ اعلیٰ ہوں۔ مگر میں وزیراعظم ، ان کی ٹیم کے اعتماد اور اطمینان پر لُوٹ، پُوٹ ہوں۔ پوری قوم، جنرل باجوہ اور جنرل فیض ان سے ’’انقلاب‘‘ کی اُمید لگائے بیٹھے ہیں۔ ان سے تو ایک ڈرامہ بھی ڈھنگ سے نہیں ہوتا۔ اب جبکہ ٹکٹوں کی تقسیم ، وزارتوں کی ریوڑیوں اور دھوتیوں کی تبدیلیوں پر موصوف گلگت بلتستان میں خود ہی بول پڑے ہیں۔ باقی، پیچھے کیا بچتا ہے۔ ٹریلر نمبر 1۔۔۔۔ باجی فردوس نے سیالکوٹ میں دکھایا۔ خاتون اے۔ سی کے ساتھ انہوں نے جس بدتہذیبی، بدتمیزی اور غیرمہذب رویے کا مظاہرہ کیا ہے۔ وہ انتہائی قابل مذمت ہے۔ ان کا کوئی قصور نہیں ہے۔ تبدیلی سرکار کا حکومت میں آنے سے پہلے یہی سافٹ ویئر تھا۔ابھی تک وہی ہے۔ پہلے یہ کام صرف خان کرتا تھا۔ اب ماشاء اللہ اکثریت خود کفیل ہوگئی ہے۔ حکومت سے لیکر کھلاڑیوں تک رویئے۔ سب کے سب آشکار ہوچکے ہیں۔
معتبر ذرائع کے مطابق چند روز قبل پسر ٍفراز، نئی وزارت کی بریفنگ میں اور کسی سے نہیں، اپنے سیکرٹری سے اُلجھ پڑے۔ انھیں باقاعدہ’’ڈانٹ‘‘ پلائی۔ کہا کہ وہ نہ بولیں۔ اس پر سیکرٹری نے انھیں کہا کہ پرنسپل اکائونٹنگ آفیسر ہیں۔ اُن کی اجازت کے بغیر اُن کے ماتحت کیسے بات کریں گے۔ مگر ’’مجروح‘‘ وزیر نہیں مانے۔ اس سے قبل وہ پوری قوم کے سامنے مصطفیٰ نوازکھوکھر سے میڈیا پر کیا خوب اُلجھے تھے۔ آپ ان کی اکثریتی وزارتوں میں چلے جائیں۔ آپ کو ایسے ہی لطیفے سننے کو ملیں گے۔ پسرِ فراز، فواد چوہدری پر بہت برہم ہیں۔ ان کے ہر منصوبے کو ’’ریورس‘‘ کرنے کے خواہشمند ہیں۔ فواد چوہدری نےوینٹیلیٹرز پر خوب مذاحمت کی۔ جنہیں پسرِ فراز نے غیر معیاری کہا تھا۔بعد ازاں جب پسرِ فراز کو پتہ چلا کہ اس منصوبے میں ’’دوست‘‘ بھی ہیں تو، وہ پگھل گئے۔ جیسے باجی فردوس، پگھلی، پگھلی جارہی ہیں۔ اب وضاحت پر وضاحت دے رہی ہیں۔مگر اپنے غلط فعل پر معافی مانگنے پر تیار نہیں ہیں۔42ویں کامن کی اے۔ سی۔ صدف، پریذیڈنٹ گولڈ میڈلسٹ ہیں۔ اس نے ٹریننگ میں ٹاپ کیا ہے۔ اب اُسے پی۔ ٹی۔ آئی کا سوشل میڈیا، گھٹیا فوٹو شاپس کے ذریعے بدنام کرنے کی مہم پر ہے۔ ایسے میں ایک اور ایم۔ پی۔ اے خرم لغاری اور اے ۔ سی(ورک) کا جھگڑا بھی سوشل میڈیا کی زینت بناہے۔ایم۔ پی۔ اے آپے سےباہر ہے اور اے۔ سی کو لڑنے کی دعوت دے رہا ہے۔ یہ سب کچھ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ہورہا ہے۔ایسے میں سندھی قوم پرست رہنماء ایاز لطیف پلیجو، فردوس عاشق اعوان کی مدد کو آئے۔ انھوںنے ٹویٹ بھی کیا۔ میں نے اس پر لکھا کہ اگر اے۔ سی۔ صدف، کا تعلق سندھ سے ہوتا تو ، سندھی قوم پرست سوشل میڈیا پر طوفان برپا کردیتے۔ کیا عظیم سندھ کی یہی روایات رہ گئی ہیں۔یہ سوچ انتہائی قابل افسوس اور متعصبانہ ہے۔ افسوس، صد افسوس عظیم پلیجو کا بیٹا کتنی سطحی بات کررہا ہے۔
قارئین!!!
آخر مسئلہ کہاں پر ہے۔جی۔۔۔ مسئلہ یہ ہےکہ تبدیلی سرکار میں عمران خان سے لیکر اسد عمر تک ، سیاسی اور انتظامی نالائقوں کا ایک ’’جمگھٹا ‘‘تھا۔ یہ بادشاہوں کی طرح حکومت کرنے آئے تھے۔ انکی سیاسی اور انتظامی ٹیم کا چنائو، سو نہیں، دو سو فیصد غلط تھا۔ آج یہ اپنی ناکامی کا تمام ملبہ بیورو کریسی پر ڈالنا چاہتے ہیں۔ جب عمران خان، ارباب شہزاد اور جہانگیر ترین نے متفقہ طورپر ’’بروٹس اعظم‘‘ کو چنا اور بابوئوں کے معاملات اُس کے حوالے کر دیئے۔ اور اُس نے میاں نواز شریف اور زرداری کے ستائے اور غیر جانبدار، پروفیشنل کیریئر افسران کو آگے لانے کی بجائے، فواد کے یار ہر سمت میں حکومتی اور انتظامی خیمے کے گرد،کھونٹوں کی طرح گاڑ دیئے۔ ’’بروٹس اعظم‘‘ خود فواد حسن فواد کے ’’بڈی کا بڈی‘‘ تھا۔ ان سب لوگوں نے کمال طریقے سے حکومت کو ڈبونا شروع کیا۔ آج جبکہ یہ سیاسی اور انتظامی طور پر برباد ہوچکے ہیں۔ اپنا تمام غُصہ بیورو کریسی پر نکالنا چاہتے ہیں۔ لیکن اپنے لاڈلے بیورو کریٹس کا مکمل تحفظ بھی کررہے ہیں۔
’’بروٹس اعظم‘‘ سے کوئی نہیں پوچھتا کہ’’تم بھی‘‘۔ اب تو سیاسی اور انتظامی نااہلی کا جن، جناب کے قلعےمیں داخل ہوچکا ہے۔ اب کیا ہوسکتا ہے۔ تحریک انصاف کے تمام ارباب اختیار کا ’’ٹارگٹ‘‘ بیورو کریسی ہے۔ یہ ناصر درانی کی بڑی تعریف کیا کرتے تھے۔ پھر کیا ہوا۔ مرحوم کی ان لوگوں نے اتنی عزت افزائی کی کہ ’’انہوں نے ان کے ساتھ کام کرنے سے ہی انکار کر دیا۔‘‘ آٗپ یہ بتائیں کہ یہ بشیر میمن پر تکیہ کیے بیٹھے تھے۔ اس کے اندر تو ریڑھ کی ہڈی ہی نہیں ہے۔ وہ آصف زرداری کے سامنے کہاں ٹھہر سکتا تھا۔ پھر اس نے ،جو سروس دے سکتا تھا۔ دی۔ اچانک بولا، اور اب معافیاں طلب کررہا ہے۔ بدین آئل فیلڈ سے لیکر سینٹرل پنجاب اور فاٹا میں مفادات سے ڈھیر موجود ہیں۔ اس کےحاضر سروس’’پارٹنر‘‘ بھی پریشان ہیں۔
گذشتہ دو حکومتوں کو تیل، گیس، بجلی لے ڈوبے۔اس کو بھی لے ڈوبے ہیں۔ ’’بروٹس اعظم‘‘ نے ان ڈائریکٹ اس شعبے پر اپنے ’’بڈی‘‘ کے ذریعے حکومت کی ہے۔ ابھی تک اُسے بچایا جارہا ہے۔ اس حکومت نے بیورو کریسی میں بھی کمال دھوتیاں بدلی ہیں۔ حرام ہے۔ جو ایک بندہ بھی میرٹ پر لگایا ہو۔ میرٹ والے لوگوں کو کھڈے لائن لگائے رکھا۔ فنکاروں نے اس دور میں کمال رفعتیں پائی ہیں۔ ہر اسکینڈل میں ان کے سیاسیے، گردن، گردن تک دھنسے ہوئے ہیں۔ چینی، آٹا، پیٹرول دیکھ لیں۔ جس نے مزاحمت کی اُسے نشانِ عبرت بنا دیا گیا۔ عمر حمید اور کیپٹن نسیم کو دیکھ لیں۔ افضل لطیف ابھی بھی ناپسندہ ہے۔ کابینہ میں عمر حمید کا بولنا، اس کیلئے عذاب بن گیا۔اُس نے صرف یہی پوچھا تھا کہ جو افسر حکومت کے خلاف سازش کررہے ہیں اُن کے نام لیں۔ غالباً وہ او۔ ایس۔ ڈی شپ میں ہی ریٹائر ہوئے۔ ہر کام کرنے والا سیکرٹری ان سے پناہ مانگتا ہے۔ انہوں نے چیف سیکرٹریز اور آئی۔ جی بدلنے کے ریکارڈ بنا دیئے۔ نتیجہ کیا نکلا۔ صفر+صفر=صفر
قارئین!!!
یہ لوگ چاہے کتنا ناراض ہوں۔ حقائق یہی ہیں۔ایک وفاقی وزیر کے بھائی نے مجھے ہنستے ہوئے کہا کہ وزیراعظم کی سیاسی سمجھ بوجھ صفر ہے۔ میں نے ہنس کر کہا کہ پھر اُس کے ساتھ کیوں ہو۔ اُس نے کہا کہ ہم اپنی وزارت اور حلقے میں کام کرکے خود کو مضبوط کررہے ہیں۔ سیاسی مجبوری ہے۔ بہرحال حقائق یہی ہیں۔ میں نے کہا کہ حکومتی جہاز کب چھوڑو گے۔ کہنے لگا، مناسب ترین وقت پر۔۔۔۔
قارئین!!!
تبدیلی سرکار پہلے بیورو کریٹس کو اصلاحات کے نام پر ڈراتی رہی۔ اب اُن کو احتساب اور برطرفیوں سے دھمکا رہی ہے۔
میں نے پہلے بھی لکھا تھا کہ یہ واحد حکومت ہے۔ جس نے سب سے محاذ کھول رکھا ہے۔ اپوزیشن، میڈیا، عدلیہ اور اب بیورو کریسی سے۔ عوام کو چھوڑیں۔اُسے تو یہ پہلے دن سے ہی بیوقوف سمجھتے ہیں۔
اسٹیبلشمنٹ سے ان کی سرحدی جھڑپیں شروع ہوچکی ہیں۔ ان سے بلف گیم کھیل رہے ہیں کہ ’’اسمبلیاں توڑ دوں گا۔‘‘ شاید موصوف کو پتہ نہیں ہے۔ کہ ’’دوستوں‘‘ کے پاس پلان، اے۔بی۔ سی۔ ڈی۔ سمیت موجود ہوتے ہیں۔ وہ موجودہ حالات میں واضح بھی ہورہے ہیں۔
فی الوقت عمران خان نے کمال مہربانی سے، سیاست اور سیاست دانوں کو بدنامی کی آخری سطح پر پہنچا دیا ہے۔ یہ لوگ عوام کا اعتماد تیزی سے کھورہے ہیں۔ ان کا گراف اس سے پہلے کبھی اتنا نیچے نہیں آیا تھا۔
ایسے میں عمران خان اور ان کی کچن کیبنٹ، حتیٰ کہ اُن کے معتبر اراکین اسمبلی یہ واضح کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ تمام برائیوں کی جڑ بیورو کریسی ہے۔ وہ اسی فیصد کھا جاتے ہیں۔ ہم سیاستدان تو چار فیصد پر بدنام ہیں۔ ہم تو معصوم ہیں۔ اصل کاریگر افسر ہیں۔ افسروںمیں بھی ’’پی۔ اے۔ ایس‘‘ (پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس) ان کا ٹارگٹ نمبر ایک ہے۔
اللہ اس ملک پر رحم کرے۔
میرا یہ ماننا ہے کہ بیورو کریسی تو ’’پارہ‘‘ ہوتی ہے۔ اُسے آپ جس طرح ڈھالیں گے، وہ شکل اختیار کرلے گی۔ پالیسی اور قانون سازی یہ لوگ کرتے نہیں ہیں۔ الزام بیورو کریسی پر دیتے ہیں۔ نالائق، سیاسی اور انتظامی ٹیم چننے کی اخلاقی ذمہ داری، اگر جرأت ہے تو حکومت لے۔
میں پی۔ اے ۔ ایس کو، اس ملک کی ریڑھ کی ہڈی سمجھتا ہوں۔ تمام تر اختلاف اور اتفاق کے باوجود، اگر یہ بھی نہ ہوں تو سمجھ لیں فیصلہ سازی زیرو ہوجائے۔ جیسے سیکرٹریٹ گروپ کے بغیر پالیسی سازی ممکن نہیں ہے۔
اس ملک میں ’’غلام بیورو کریسی‘‘ ایجاد کرنے کی سوچ انتہائی خوفناک ہے۔پہلے ذوالفقار علی بھٹو نے یہی کچھ کیا تھا۔ بیورو کریسی ،ملک اور قوم ابھی تک نہیںسنبھل سکے۔ سینکڑوں افسران کو نکالا گیا تھا۔یہ بھی اُسی راستے پر چل رہے ہیں۔ نظام بنانے کی بجائے بادشاہت والی سوچ ملک کی چولیں ہلا دے گی۔ آپ سیاسی اور بیورو کریسی میں بروٹس اعظم اور اُن کے حواریوں سے جان چھڑوالیں، بات بن سکتی ہے۔۔۔۔
پرانے خوف طاری ہورہے ہیں
نئے فرمان جاری ہورہے ہیں
کبھی تھے لازمی مضموں وفا کے
مگر! اب اختیاری ہورہے ہیں
(ناصرہ زبیری)