بڑوں شہروں میں دن بدن بڑھتی ھوئی فضائی الودگی موسموں میں تبدیلی اور اکسجین کی کمی کا سب سے بڑا سبب بڑے قدیمی درختوں کا بے دردی سے قتل عام ھے

تحریرچ۔۔شہزاد بھٹہ


بڑوں شہروں میں دن بدن بڑھتی ھوئی فضائی الودگی موسموں میں تبدیلی اور اکسجین کی کمی کا سب سے بڑا سبب بڑے قدیمی درختوں کا بے دردی سے قتل عام ھے ۔۔
حضرت انسان اپنی موت کا خود اسباب پیدا کرتا جارھا ھے  پاکستان کے بڑے شہروں میں موسموں کی تبدیلی کا باعث یہی ھے کہ ھم نے نمود و نمائش اور ڈنگ ٹپاو پالیسوں کو اپنایا ھوا ھے رھائشی علاقوں کو تیزی سے کمرشل علاقوں میں تبدیل کرتے جارھے ھیں رھائشی بنگلے راتوں رات گرا کر بڑے بڑے شاپنگ پلازے اور ملٹی سٹوری دفاتر بنائے جارھے ھیں پہلے ایک کوٹھی میں کئی کئی سایہ دار اور پھل درخت لگائے جاتے تھے کہ ان کی موجودگی میں ائرکنڈشینڑز کی ضرورت محسوس نہیں ھوتی تھی اور ماحول بھی انسان دوست رہتا تھا اور ھم نے پیسے کے لانچ اور معاشی ترقی کے چکر میں شہروں کے رھائشی علاقوں کو کمرشل میں تبدیل کر دیا اور لاکھوں ماحول دوست درختوں کا قتل عام کر کے بلندو بالا چاروں اطراف سے بند بلڈنگز بنانے شروع کر دیا جس سے رھائشی اور کمرشل  علاقوں میں تمیز ختم ھوگئی ۔
اوپر سے  سونے پہ سہاگہ یہ ھوا کہ ھم نے صدیوں سے جاری لوکل ماحول سے مناسبت رکھنے والا طرز تعمیر بھی ختم کر کے یورپین طرز تعمیر اختیار کر لیا جو یورپ کے سخت ترین سرد موسم کے لیے تو مناسب ھے مگر اس خطہ کے لیے نہایت نامناسب ھے جہاں سال میں پانچ مختلف موسم پائے جاتے ھیں اگر اپ لاھور جیسے شہر میں موجود  مسلم و مغل یا انگلشن دور حکومتوں کی عمارتیں دیکھیں تو اپ کو واضح فرق نظر ائے گا کھلے ھوا دار کمرے ۔برامدے ۔اونچی چھتیں اور عمارت چاروں طرف سے گھنے اونچے درختوان سے گھیری ھوئی ۔ایسے طرز تعمیر کی عمارتوں میں اگر بجلی بند بھی ھو جائے تو گزارا ھو جاتا ھے اور پھر جب اپ دیسی انگزیروں کے ھاتھوں بنائی جانے والی موجودہ عمارتوں کو دیکھیں تو ایک واضح فرق نظر ائے گا ۔۔کھڑکیاں ختم ۔برامدے ختم ۔چھت دس فٹ کی ۔ھر طرف شیشے ھی شیشے جس سے نہ روشنی ائے نہ تازہ ھوا۔۔۔اوپر سے پارگنگ ایریا میں بھی دور دور تک درختوں کا نام ونشان بھی نظر نہیں اتا ۔جس سے لوگوں کی لاکھوں کروڑوں کی گاڑیاں سخت دھوپ سے تپ رھی ھوتی ھیں جبکہ خود بندے سارا دن اے سی والے کمروں میں براجماں ھوتے ھیں ۔
اج کل بنائی جانے والی بلڈنگ اتنی بند ھوتی ھیں کہ دن کے وقت بھی بجلی اور ائرکنڈشنیز  کے بغیر کام  کرنا تقربیا ناممکن ھے جس کے لیے ایک ایک عمارت میں سنیکڑوں ھزاروں ائر کنڈشینرز لگائے جاتے ھیں جو روزانہ سنیکڑوں ٹن زیریلی گیسز باھر فضا میں پھینک رھے ھیں جو فضائی الودگی کا باعث بن رھے ھیں جس سے سردی کے موسم میں لاھور و دیگر بڑے شہروں میں خطرناک سموگ کا بڑھتی جارھی ھے جو انسانی جانوں کے لیے خطرناک ثابت بنتی جارھی ھے ۔۔
اگر کراچی جیسے ساحلی علاقے کی بات کریں تو وھاں بلند و بالا اور چاروں اطراف سے بند عمارتوں بنائی جاسکتی ھیں مگر ان عمارتوں میں کھڑکیاں اور  برامدے پھر بھی لازمی ھیں تاکہ چوبیس گھنٹے چلنے والی سمندری ھوا سے استفادہ اٹھایا جا سکے
۔ایک وقت تھا کہ ایل ڈی اے و دیگر ادارے کسی رھائشی علاقہ کو کمرشل بنانے کی اجازت نہیں دیتی تھی اور ھر دس مرلے کے گھر میں ایک بڑا سایہ دار اور پھل دار درخت لگانا لازمی تھا ۔۔اب ھر طرف صرف نمائشی پودے ھی لگائے جاتے ھیں اور پھر پیسوں کے چکر میں یہ تمیز ختم ھو گئی۔اور انسان جانے یا انجانے میں خود اپنی تباھی کا سبب بنتا جارھا ھے ۔۔ ایل ڈی اے اور حکومتی اداروں کو چاھیے کہ قوم پر رحم فرمائے کہ وہ ھر سڑک کے کناروں پر بنی ھوئی گرین بیلٹس پر ۔گھروں میں ۔پارکوں میں ۔پارگنگ ایریا اور میلوں لمبی نہروں کے کناروں پر صرف اور صرف لوکل سایہ دار پھل دار پودے لگائے تاکہ انے والی نسلوں کے لیے اسانیاں پیدا ھو سکیں ۔ایک بات کا ذکر ضروری ھے کہ پاکستان ان ممالک میں شامل ھے جن کو جنگلات اور درختوں کی شدید کمی کا سامنا ھے