میڈیکل کالج کے ہاسٹل میں خود کو پھندہ لگاکر زندگی کا خاتمہ


سکھر کے غلام محمد مہر میڈیکل کالج کے ہاسٹل میں نوجوان نے خود کو پھندہ لگاکر زندگی کا خاتمہ کرلیا ، لاش کے قریب سے پولیس کو خط بھی ملا ہے ، ہوش و ہواس میں خود کشی کررہا ہوں ،نوجوان طارق کا خط ، اپنی والدہ سے اظہار محبت کرتے ہوئے لکھا آئی لوو یو میں آپ سے پیار کرتا ہوں۔ اور بھائی کا شکریہ اور معذرت کہ میں بھائی کا خواب پورا نہ کرسکا۔

پولیس کے مطابق سکھر کے غلام محمد خان مہر میڈیکل کالج کے ہاسٹل کے ایک کمرے سے تھرڈ ایئر کے طالبعلم طارق علی شاہانی کی پھندے میں لٹکی لاش ملی ہے لاش کے قریب سے ایک خط بھی ملا ہے جس میں نوجوان نے اپنے ہوش و ہواس میں خودکشی کرنے کا اعتراف کیا ہے اور خط میں وصیت کی ہے کہ اس کا موبائل فون اس کے مرنے کے بعد نہ کھولا جائے اور نہ ہی تحقیقات کی جائے۔

نوجوان نے اپنے خط میں ماں سے محبت کااظہار کرتے ہوئے اپنی والدہ کو آئی لو یو لکھا ہے اور اپنے بڑے بھائی غضنفر کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اس کا خواب پورا نہ ہونے پر اس سے معذرت بھی کی ہے اور اپنی تحریر میں مزید لکھا ہے کہ وہ اپنے تمام دکھ درد اور تکالیف اپنے ساتھ لے جارہا ہے۔

نوجوان نے خط میں اپنے چھوٹے بھائی علی حسن کو فیملی کا خیال رکھنے کی تلقین بھی کی ہے پولیس نے نوجوان کی لاش تحویل میں لے لی اور پوسٹ مارٹم کے بعد ورثاء کے حوالے کردی ہے پولیس ترجمان کے مطابق نوجوان کا تعلق خیرپور کے علاقے رانی پور سے ہے اور اس حوالے سے تحقیقات کی جارہی ہے
—————–
https://jang.com.pk/news/920279?_ga=2.224401817.2052692125.1619842618-933412326.1619842613

مسلم لیگ (ن) مرکزی نائب صدر مریم نواز نے صوبہ پنجاب کی وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد کی صحت کیلئے نیک تمناؤں کا اظہار کیا ہے۔اپنے سوشل میڈیا بیان میں مریم نوازکا کہنا تھاکہ ‏ڈاکٹر یاسمین راشد کی صحت کیلئے دعا گو ہوں، میری والدہ نے اس موذی مرض کا سامنا کیا ہے اور میں جانتی ہوں یہ کتنی تکلیف دہ بیماری ہے۔
——————-

سندھ ہائی کورٹ نے وفاقی اردو یونیورسٹی کے وائس چانسلر کی تقرری کے لئے نجی گروپ کی خدمات لینے پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے غیر قانونی قرار دے دیا اور حکم دیا کہ وائس چانسلر کی تقرری کے لئے از سر نو درخواستوں کی جانچ پڑتال کر کے مجاز اتھارٹی کو سفارشات بھیجی جائیں۔ جسٹس محمد علی مظہر نے آبزرویشن دی کہ سرچ کمیٹی اپنی ذمہ داری ادا کرنے میں مکمل ناکام رہی ہے ، وائس چانسلر کی تقرری کے لئے جو طریقہ کار اختیار کیا ہے وہ غیر قانونی ہے کیونکہ وفاقی اردو یونیورسٹی ایکٹ کے تحت سرچ کمیٹی کی ذمہ داری کسی نجی گروپ کو ہرگز نہیں دی جا سکتی۔عدالتی کارروائی کے نتیجے میں سرچ کمیٹی کے چیئرمین و دیگر ممبران نے اپنے جواب میں عدالت عالیہ کے سامنے اعتراف کیا کہ انہیں معلوم ہی نہیں تھا کہ درخواست گزار پروفیسر ڈاکٹر محمد زاہد کا نام کس کا ہے اور تقرری سے متعلق تمام جانچ پڑتال کا تمام طریقہ کار ایک نجی گروپ کو ذمہ داری دی تھی۔ جس پر عدالت عالیہ نے سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ کونسا قانون ہے سرچ کمیٹی کے کرنے کا کام کس طرح کسی نجی گروپ کو یہ ذمہ داری نہیں دی جاسکتی۔
——————————–

کراچی( سید محمد عسکری) صوبے کی جامعات کو سندھ ہائر ایجوکیشن کمیشن کے ماتحت کرنے کے لیے اہم ترین مرحلہ طے ہوگیا ہے اور چیف سکریٹری سندھ ممتاز علی شاہ کی زیرصدارت ہونے والے تینوں محکموں کے سیکریٹریز کے مابین اجلاس میں تمام اہم امور طے پا گئے ہیں اب چیف سیکریٹری صوبائ کابینہ کو رپورٹ پیش کریں گے جس کے بعد امکان ہے کہ جامعات سندھ ایچ ای سی کے ماتحت آجائیں،اجلاس میں سندھ ہائر ایجوکیشن کمیشن کے چیئرمین ڈاکٹر عاصم حسین نے بھی شرکت کی، اجلاس میں سیکریٹری قانون ڈاکٹر منصور، سیکریٹری بورڈز و جامعات قاضی شاہد پرویز، سیکریٹری سندھ ہائر ایجوکیشن کمیشن معین الدین صدیقی نے شرکت کی، اجلاس میں چیف سیکریٹری سندھ کو بتایا گیا کہ جامعات کا کنٹرول بدستور وزیر اعلیٰ سندھ کے پاس ہی رہے گا جیسا کہ ماضی میں گورنر یا وزیر اعلیٰ سندھ کے پاس ہوتا تھا۔ یاد رہے کہ چیف سیکریٹری سندھ ممتاز علی شاہ، وزیر اعلیٰ سندھ قائم علی شاہ کے دور میں سیکریٹری بورڈز و جامعات ہوتے تھے اور وزیر اعلیٰ ہاؤس میں ان کا دفتر ہوتا تھا اور وہ براہ راست وزیر اعلیٰ کو سمری بھیجا کرتے تھے اس وقت سمری نہ تو چیف سیکریٹری کے پاس جاتی تھی نہ ہی کسی وزیر یا مشیر کے پاس تاہم اقبال درانی جب سیکریٹری بورڈز و جامعات بنے تو انہوں نےسمری چیف سیکریٹری کو بھیجنے کا سلسلہ شروع کیا تھا۔ واضح رہے کہ سندھ کابینہ کے گزشتہ اجلاس میں محکمہ بورڈز و جامعات سے یونیورسٹیز کو علیحدہ کر کے بورڈز و ٹیکنیکل ایجوکیشن کے نام سے محکمہ بنانے اور جامعات سندھ ایچ ای سی کے تحت کرنے کا معاملہ آیا تھا جس پر طے کیا گیا تھا کہ چیف سیکریٹری کی زیر نگرانی تمام اسٹیک ہولڈرز کا اجلاس بلا کر امور طے کیے جائیں اور اس کی رپورٹ کابینہ کے آئندہ اجلاس میں پیش کی جائے۔ یاد رہے کہ قائم مقائم سیکریٹری سندھ ایچ ای سی معین الدین صدیقی نے اس حوالے سے باقاعدہ وزیر اعلیٰ سندھ کو سمری ارسال کی تھی جس میں کہاگیا تھا کہ اس وقت پبلک سیکٹر یونیورسٹیز کو ایچ ای سی پاکستان ، سندھ ایچ ای سی ، محکمہ یو اینڈ بی محکمہ ، چانسلر سیکرٹریٹ اور وزیراعلیٰ سیکرٹریٹ سے ان کے مالی ، تعلیمی اور انتظامی امور کے لئے جانا پڑتا ہے جو یونیورسٹیوں کی پیشرفت میں رکاوٹ ہیں۔ مزید یہ کہ مختلف اجلاسوں میں جہاں ایچ ای سی پاکستان اور پبلک سیکٹر یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز نے اپنے خدشات ظاہر کیے کہ انہیں اپنے سرکاری معاملات کے لئے مختلف محکموں / تنظیموں سے رجوع کرنا پڑتا ہے۔ تمام یونیورسٹیوں کے لئے ون ونڈو آپریشن کرنا یونیورسٹیوں کے مفاد میں ہوگا ، لہذا وہاں ایک سادہ اور قابل عمل طریقہ کار بنانے کے لئے صوبہ سندھ میں یونیورسٹیوں سے متعلق تمام معاملات سے نمٹنے کے لئے ایک ادارہ تشکیل دیا جائے