ڈی ایچ اے قبضہ گروپ بن گئی ہے: چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ

لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس قاسم خان نے ڈی ایچ اے لاہور کے ایڈمنسٹریٹر کو جمعرات (29 اپریل) کو طلب کرتے ہوئے ڈی ایچ اے کی جانب سے زمینوں پر قبضے کا ریکارڈ بھی طلب کر لیا۔

ارشد چوہدری
————

متروکہ وقف املاک بورڈ کی اراضی پر ڈی ایچ اے کے قبضے کے خلاف درخواست پر سماعت کے دوران لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس قاسم خان نے ڈی ایچ اے لاہور کے ایڈمنسٹریٹر کو جمعرات (29 اپریل) کو طلب کرتے ہوئے ڈی ایچ اے کی جانب سے زمینوں پر قبضے کا ریکارڈ بھی طلب کر لیا۔

چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ جسٹس قاسم خان نے بدھ کو متروکہ وقف املاک بورڈ کی اراضی پر ڈی ایچ اے کے قبضے کے خلاف درخواست پر سماعت کی۔

سماعت کے دوران جسٹس قاسم خان نے ریمارکس دیے کہ ’آرمی چیف کو رجسٹرار لاہور ہائی کورٹ خط لکھیں گے، میں آج رجسٹرار کو کہہ رہا ہوں کہ آرمی چیف کو خط لکھیں، یہ آرمی کیا کر رہی ہے؟رجسٹرار میری طرف سے یہ لیٹر لکھے گا۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’لگتا ہے فوج سب سے بڑی قبضہ گروپ بن گئی ہے، کل کور کمانڈر اور ڈی ایچ اے کو بلا لیتا ہوں، یہ معاملہ رسہ گیری کی ایک قسم ہے، فوج کا کام قبضہ کرنا نہیں ہے۔ میرے منہ سے فوج سے متعلق جملہ غلط نہیں نکلا، اللہ تعالیٰ نے میرے منہ سے سچ بلوایا ہے، آرمی کی جانب سے اراضی پر قبضہ کرنا رسہ گیری کی ایک قسم ہی ہے۔‘

اس موقع پر درخواست گزار نے کہا کہ ’اراضی سے متعلق مخالف کا تعلق آرمی سے ہے اور وہاں سے جواب نہیں آتا۔‘

جس پر چیف جسٹس قاسم خان نے ریمارکس دیے کہ ’مجھے بطور جج 11 سال ہوگئے ہیں، کسی کی جرات نہیں کہ آج تک مجھے جواب نہ جمع کروایا ہو، مجھے جواب منگوانا آتا ہے اور یہ صرف دو دن کا کام ہے۔ ڈی ایچ اے لاہور اور سی سی پی او لاہور کو بلوا لیں آج اور ابھی۔‘

اس موقع پر چیف جسٹس نے ڈی ایچ اے کے وکیل سے مخاطب ہوکر کہا کہ ’آپ لوگ قبضہ گروپ بنے ہوئے ہیں، لوٹ کر کھا گئے ہیں آپ لوگ اس ملک کو۔ وردی قوم کی سروس کے لیے ہے، بادشاہت کے لیے نہیں ہے، آپ وردی پہن کر بدمعاشی کرتے ہیں اور لوگوں کی زمینوں پر قبضے کرتے ہیں۔‘

چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے ایڈمنسٹریٹر ڈی ایچ اے بریگیڈیئر ستی کو طلب کرتے ہوئے ڈی ایچ اے کے وکیل کو کہا کہ ’بریگیڈیئر صاحب کو کہیں اپنے سٹار اور اپنی کیپ اتار کر آئیں، ہو سکتا ہے ادھر سے ہی انہیں جیل بھیج دوں۔‘

عدالت کے حکم پر سی سی پی او غلام محمود ڈوگر پیش ہوئے، جس پر چیف جسٹس نے انہیں مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’سی سی پی او صاحب، ڈی ایچ اے نے اندھیر نگری بنائی ہوئی ہے، اگر آپ کچھ نہیں کر سکتے تو نوکری چھوڑ دیں۔‘

ساتھ ہی چیف جسٹس نے سی سی پی او کو حکم دیا کہ اگر ڈی ایچ اے کے خلاف کوئی بھی درخواست آجائے تو فوری پرچہ دیں، تمام ایس ایچ اوز کو کہہ دیں کہ آرمی کی وردی پہننے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ آپ دوسروں کی جائیدادوں پر قابض ہو جائیں۔‘

اس کے ساتھ ہی چیف جسٹس قاسم علی خان نے ڈی ایچ اے لاہور کے ایڈمنسٹریٹر کو طلب کرتے ہوئے ڈی ایچ اے کی جانب سے زمینوں پر قبضے کا ریکارڈ بھی طلب کر لیا۔

جسٹس قاسم علی خان نے ریمارکس دیے کہ ’ملک کے ساتھ کھلواڑ چھوڑ دیں، کل میں رجسٹرار کی مدعیت میں ڈی ایچ اے کے خلاف پرچہ کروا رہا ہوں۔‘

عدالت نے کمشنر لاہور اور ڈپٹی کمشنر لاہور کو بھی پیش ہونے کا حکم دیتے ہوئے ریمارکس دیے کہ ’آپ کی جو کوٹھیاں بنی ہوئی ہیں وہ سب منہدم کروا رہا ہوں۔‘

عدالت نے چیئرمین متروکہ وقف املاک بورڈ کو بھی فوری طلب کر لیا۔

کیس تھا کیا؟

متروکہ وقف املاک بورڈ کی اراضی پر ڈی ایچ اے کے قبضے کے خلاف دائر کی گئی پٹیشن میں درخواست گزار کی جانب سے موقف اختیار کیا گیا ہے کہ 300 کنال سے زائد متروکہ وقف املاک بورڈ کی اراضی انہوں نے 2020 سے لیز پر حاصل کی، تاہم ڈی ایچ اے نے لیز شدہ اراضی پر غیر قانونی قبضہ کر رکھا ہے، لہذا عدالت سے استدعا ہے کہ ڈی ایچ اے سے قبضہ واگزار کروانے کا حکم دیا جائے۔

وکیل ڈی ایچ اے نے عدالت کو بتایا کہ 2007 میں لیفٹیننٹ جنرل ذوالفقار نے بطور چیئرمین متروکہ وقف املاک بورڈ ڈی ایچ اے کو 1742 کنال زمین دی، جس کے بدلے بورڈ نے 33 فیصد ڈیولپڈ پلاٹ مانگے، تاہم پیپلز پارٹی کی حکومت آنے کے بعد آصف اختر ہاشمی نے بطور چیئرمین 33 فیصد کی بجائے 25 فیصد پلاٹ مانگے۔

تاہم متروکہ وقف املاک بورڈ کی اراضی میں چونکہ سکھ کمیونٹی کا گوردوارہ بھی آتا تھا، لہذا سابق چیف جسٹس پاکستان افتخار محمد چوہدری نے ازخود نوٹس لیا اور گوردوارہ سکھ کمیونٹی کو دینے کا حکم دیا۔

آج ہونے والی سماعت کے بعد ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی (ڈی ایچ اے) لاہور کے لیگل ایڈوائزر الطاف الرحمٰن نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’ڈی ایچ اے اور متروکہ وقف املاک بورڈ کے درمیان 1742 کنال زمین کا معاملہ سپریم کورٹ میں طے ہوچکا ہے، جس کے تحت متروکہ وقف املاک بورڈ نے رضامندی سے یہ زمین ڈی ایچ اے کو دی اور بدلے میں ڈیویلپڈ کمرشل اور رہائشی پلاٹ لینے کا معاہدہ طے پاگیا، لیکن سپریم کورٹ کے احکامات کی خلاف ورزی کرتے ہوئے املاک بورڈ نے زمینوں کی تین سالہ لیز پر الاٹمنٹ جاری رکھی اور جو درخواست گزار عدالت آئے انہیں دی گئی۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ ’متروکہ وقف املاک بورڈ کا یہ اقدام غیر قانونی ہے کیونکہ قانونی طور پر یہ معاملہ طے ہوا تھا کہ بورڈ اب کسی کو بھی زمین الاٹ نہیں کر سکے گا لیکن غیر قانونی اقدام میں ملوث افسران کے خلاف کارروائی کی بجائے ڈی ایچ اے کے خلاف ریمارکس دیے گئے۔‘

الطاف الرحمٰن کے مطابق: ’چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کے ریمارکس غیر متعلقہ ہیں۔ ہم نے اعتراض بھی جمع کروایا ہے کہ سپریم کورٹ میں طے ہونے والے معاملے کی سماعت کا اختیار ہائی کورٹ کو نہیں ہے لیکن انہوں نے سماعت جاری رکھی اور سخت ریمارکس دیے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ڈی ایچ اے کے ایڈمنسٹریٹر جمعرات (29 اپریل) کو عدالت میں پیش ہوکر وضاحت پیش کریں گے

https://www.independenturdu.com/node/66376/case-against-dha-lahore-high-court