سندھ کی بیورو کریسی میں مزید وکٹیں گر گئیں ۔بڑے دعوے کرنے والے افسران اہم عہدوں سے فارغ

سندھ کی بیورو کریسی میں مزید وکٹیں گر گئیں ۔بڑے دعوے کرنے والے افسران اہم عہدوں سے فارغ

کراچی: سندھ کی بیورکرسی میں بڑے پیمانے پر اکھاڑ بچاڑ
حکومت سندھ کے مختلف محکموں کے انتظامی سیکرٹریوں کی کارکردگی کافی دنوں سے زیر بحث تھی بلند و بانگ دعوے کرنے والے افسران کی کارکردگی پر سوالیہ نشانات لگ چکے تھے بعض افسران نام بڑے اور درشن چھوٹے کی مثال پر پورے اترے اور کچھ افسران کی حالت ۔۔۔اونچی دوکان پھیکا پکوان ۔۔۔۔جی سی نکلی ۔صوبائی حکومت کی اعلی شخصیات نہ جانے ان افسران سے کیا توقعات وابستہ کر بیٹھی تھی کہ انہیں اہم عہدوں پر فائز کیا گیا حالانکہ پچھلے دو برس کی کارکردگی کا جائزہ لیا جاتا ہے تو ان میں سے اکثر افسران کسی بڑے عہدے پر فائز ہونے کے قابل نہیں نظر آتے کیونکہ کسی محکمے میں یہ کامیاب نہیں ہوسکے ایک کے بعد دوسرے محکمے میں ان کو آزمایا گیا لیکن کسی وزیر نے ان پر اعتماد نہیں کیا کسی محکمے میں یہ بہتر پرفارمنس نہیں دے سکے اس لئے ان کو چند مہینے بعد ہی منصب چھوڑنا پڑا ایک مرتبہ پھر یہی ہوا ہے ۔صوبائی حکومت نے جو ان افسران کی وکٹ گرا دی ہیں ان میں سے اکثر بڑے بڑے دعوے کرتے نظر آ رہے تھے آئیے ایک نظر ان کے ناموں پر ڈالتے ہیں کے کسے کہاں کہاں سے ہٹایا گیا ہے ایک دو کو چھوڑ کر باقی سب اسی قابل تھے کہ ان کی چھٹی کردی جاتی ۔
—————–

سیکریٹری ایکسائز فارغ ۔
سیکریٹری اطلاعات فارغ ۔
سیکرٹری جنرل ایڈمنسٹریشن فارغ ۔
ڈائریکٹر اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ فارغ۔
—————–

کراچی: ریاض حسین سومروسیکریٹری آئی اینڈ سی ایس این جی ڈی تعینات
—————-
کراچی: اعجاز احمد میمن ایم ڈی سندھ پبلک پی آر اے تعینات
————
کراچی: عبدالرحیم شیخ سیکریٹری ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن تعینات

کراچی:رفیق احمد بڑورو ممبر جوڈیشل بورڈ آف رینیو سندھ تعینات

کراچی: محمد حنیف چنا سیکریٹری جی اے ایس اینڈ جی ڈی تعینات

کراچی: ذوالفقار علی شلوانی ڈی جی صوبائی محتسب تعینات

کراچی: شہزاد فضل عباسی کو ڈائریکٹر اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ تعینات کردیا گیا

کراچی: ایس ایس پی عثمان غنی صدیقی کی خدمات حکومت بلوچستان کے سپرد کردی گئیں

محکمہ اطلاعات میں کوا چلا ہنس کی چال اور اپنی بھی بھول گیا ۔ایک ایسے افسر سیکرٹری بن کر آئے جنہوں نے پچھلے ایک سال میں تین چار جگہ سے نکالا جا چکا تھا اس کے باوجود یہاں آ کر انہوں نے ایک دانشور کے طور پر خود کو پیش کیا اور محکمے کے افسران کے ناموں کا مطلب پوچھنے سے لے کر ان کی ٹریننگ کے نام پر نئے نئے لطیفے سنا کر چلے گئے میڈیا میں خبریں آئیں کہ محکمہ اطلاعات سندھ انفارمیشن افسران کی صلاحیت بڑھانے میں ناکام ۔تین کروڑ پچاس لاکھ کا منصوبہ بے سود ۔تربیت کے لیے ڈاکٹر ہما بقائی کو مقرر کیا گیا جو شعبہ صحافت کی نہیں انٹرنیشنل ریلیشنز کی ڈگری رکھتی ہیں اسی طرح افسران کی ٹریننگ کے لیے سہیل سانگی کو بلایا گیا جو ایم اے انگلش نکلے ۔پبلک ریلیشن کا تجربہ نہ رکھنے والے ٹرینرز سے محکمے کے افسران کو تربیت دلوانے پر محکمہ اطلاعات کے 3 کروڑ 50 لاکھ روپے کے منصوبے پر سوالیہ نشان لگ گیا ۔صوبائی وزیر اطلاعات بھی اپنے سیکرٹری کے عجیب عجیب فیصلوں اور اقدامات پر سر پکڑ کر بیٹھ گئے بالآخر سیکرٹری کو محکمہ سے چلتا کیا ۔
محکمہ اطلاعات میں کوا چلا ہنس کی چال اور اپنی بھی بھول گیا ۔ایک ایسے افسر سیکرٹری بن کر آئے جنہوں نے پچھلے ایک سال میں تین چار جگہ سے نکالا جا چکا تھا اس کے باوجود یہاں آ کر انہوں نے ایک دانشور کے طور پر خود کو پیش کیا اور محکمے کے افسران کے ناموں کا مطلب پوچھنے سے لے کر ان کی ٹریننگ کے نام پر نئے نئے لطیفے سنا کر چلے گئے

مذکورہ افسر محکمہ اطلاعات میں آنے سے پہلے محکمہ آبپاشی سے بھی نکالے جا چکے تھے موصوف نے وہاں پر سندھ کی زمینوں کے معاملات رینجرز کے حوالے کرنے کا اقدام اٹھایا تھا ۔اس سے پہلے انہیں کالج ایجوکیشن کے منصب سے بھی ہٹایا گیا تھا کیونکہ انہوں نے کالجوں میں کلاس بحال کرانے کی بجائے آن لائن لیکچرز فراہم کرنے پر ساری توجہ مرکوز کر لی تھی ان کا جو اصل کام تھا وہ کسی محکمے میں نہیں کرتے تھے اور اپنے کام سے ہٹ کر باقی ساری باتوں پر فلاسفر بنے رہتے تھے یہی وجہ ہے کہ انہیں بار بار مختلف ہو تو اسے جلدی ہٹا دیا جاتا ہے ۔محکمہ اطلاعات میں بھی ان کے ساتھ یہی کچھ ہوا ۔
ادھر محکمہ ایکسائز میں اعجاز میمن ایک مرتبہ پھر توقعات پر پورے نہیں اترے اور نکال دیے گئے ۔صوبائی وزیر ایکسائز کے ساتھ ان جیسے سست اور لاپرواہ سیکرٹری کا چلنا اتنا آسان نہیں تھا لہذا عبدالرحیم کو واپس لایا گیا ہے ۔

عبدالرحیم شیخ اس سے پہلے بھی سیکریٹری ایکسائز رہ چکے ہیں وہ بطور ایم ڈی سیپر ا بھی فرائض انجام دے چکے ہیں جہاں اب اعجاز میمن کو بھیجا گیا ہے ۔ایم ڈی سیپرا کی حیثیت سے اعجاز میمن کی کارکردگی کیسی رہے گی اس بارے میں کسی کو زیادہ توقعات رکھنے کی ضرورت نہیں کیونکہ جو سیکرٹری ایکسائز کی پوزیشن پر ڈلیور نہیں کرسکا وہ ایم ڈی سیپر ا کے عہدے پر کیا کرے گا ۔عبدالرحیم شیخ سے پہلے سیکرٹری امپلیمنٹیشن اینڈ کوآرڈینیشن کی حیثیت سے فرائض انجام دے رہے تھے جہاں ریاض حسین سومرو کو بھیجا گیا ہے ۔سیکرٹری جنرل ایڈمنسٹریشن عبدالغنی سھتو ایک مرتبہ پھر زیادہ عرصہ اپنے عہدے پر قائم نہیں رہ سکے ماضی میں بھی مختلف حصوں پر ان کے ساتھ یہی کچھ ہوتا آیا ہے ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ سے لے کر سیکرٹری انڈسٹریز بننے تک اور اس دوران سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی اور اس سے پہلے کوآپریٹو کے اہم چارج رکھنے کے دوران بھی ان کے ساتھ ایسا کچھ نہیں ہوتا آیا ہے ان کو کسی جگہ پر بھی زیادہ عرصہ تک اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھانے کا موقع نہیں مل سکا سیکریٹری جنرل ایڈمنسٹریشن کی حیثیت سے انہوں نے بہتر کارکردگی دکھانے کی کوشش کی لیکن یہاں پر تعلقات بنتے کم ہیں اور بگڑتے کے زیادہ ۔لہذا وہ بھی گردش حالات کی لپیٹ میں آگئے ۔ان کی جگہ محمد حنیف چنا کو لایا گیا ہے ان کی آمد ایک سرپرائز ہے دیکھنا یہ ہے کہ وہ بطور سیکرٹری کس طریقے سے اپنی کارکردگی دکھاتے ہیں ۔شہزاد عباسی کو ڈائریکٹر اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ لایا گیا ہے وہاں سے ایس ایس پی عثمان غنی صدیقی کی خدمات بلوچستان حکومت کے سپرد کر دی گئی ہیں وہ پہلے دن سے ہی متنازعہ خبروں کی زد میں تھے اور ان کی تعیناتی پر سوالات اٹھائے جارہے تھے ۔صوبائی محتسب کے آفس میں زلفقارعلی شاہوانی بطور ڈائریکٹر جنرل تعینات ہو گئے ہیں وہ کافی عرصے سے حالات کی اونچ نیچ کا شکار ہوئے ہیں اب دیکھنا ہے کہ وہ کس طریقے سے خود کو سنبھال کر آگے بڑھتے ہیں ۔محکمہ اطلاعات میں نئے سیکریٹری کی آمد کا انتظار کیا جارہا ہے اکثر افسران اس محکمہ میں سیکرٹری بن کر آنے سے گریزاں ہیں ۔وزیراعلی ویسے ہی محکمہ اطلاعات سے بدظن ہیں اور چیف سیکرٹری کے لئے بھی سیکرٹری اطلاعات کی تلاش ایک آزمائش بنی ہوئی ہے