ڈاکٹر میر محمد شاہ کو آئی بی اے سکھر سے کون ہٹانا چاہتا ہے ؟

سندھ کے تعلیمی اور سیاسی حلقوں میں یہ بحث تیز ہوگئی ہے کہ سکھر آئی بی اے میں کیا ہو رہا ہے ؟ریٹائرڈ بیوروکریٹ اور تعلیم دان پروفیسر نثار صدیقی نے اپنی زندگی میں آئی بی اے سکھر کی شکل میں صوبے کے عوام کو ایک بہترین تحفہ دیا ۔آئی بی اے سکھر کے تعلیمی معیار سہولتوں اور تعلیمی ماحول کو بین الاقوامی سطح پر سراہا گیا اور اس کے اقدامات اور کارکردگی وہ بے مثال قرار دیا گیا ۔
نثار صدیقی نے بلاشبہ ایک خواب کو حقیقت کا روپ دیا اور تعلیمی سلسلہ کو پبلک اسکول کے دو کمروں سے اٹھا کر ایک جدید ترین یونیورسٹی تک پہنچایا اور پاکستانیوں کے لئے فخر کا سبب بنے ۔


صوبائی حکومت اور سیاسی شخصیات نے نثار صدیقی اور ان کی ٹیم کی بھرپور مدد کی اور دنیا کے سامنے ایک بہترین درسگاہ وجود میں آئی جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ترقی اور کامیابی کی نئی منازل طے کررہی ہے ۔
نثار صدیقی کی اچانک وفات کے بعد سکھر آئی بی اے کا کنٹرول سنبھالنے کی ایک نئی جنگ شروع ہو چکی ہے جس کے پیچھے سیاسی اور طاقتور شخصیات کے مفادات بھی وابستہ ہیں ۔ایک سال گزر چکا ہے ابھی تک مستقل وائس چانسلر کی تقرری کا عمل مکمل نہیں ہو سکا اس لیے قائم مقام وائس چانسلر کی حیثیت سے ڈاکٹر میر محمد شاہ اس یونیورسٹی کے امور سنبھالے ہوئے ہیں اور گزشتہ ایک برس میں انہوں نے نہایت خوش اسلوبی محنت اور کامیابی سے یونیورسٹی کا انتظام چلایا ہے لیکن ایک مضبوط لابی شروع دن سے ان کے خلاف رہی ہے اور ہر قیمت پر انہیں یہاں سے ہٹانا چاہتی ہے ۔جب سیدھی انگلی سے گھی نہیں نکلا تو انگلی ٹیڑھی کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے ۔تازہ ترین حالات کے مطابق آئی بی اے سکھر میں انتظامیہ پر نقاب پوش طالبات کے جنسی نوعیت کے سنگین الزامات سامنے آئے ہیں جس کے بعد یونیورسٹی کے انتظامی کنٹرول کو ڈاکٹر میر محمد شاہ سے لے کر کسی اور من پسند شخصیت کے حوالے کرنے کی سازش ہو رہی ہے نثار صدیقی کے انتقال کے بعد بھی تین اہم نام اس حوالے سے گردش کرتے رہے تھے جن میں ڈاکٹر مدد علی شاہ ،ڈاکٹر ثمرین حسین اور ڈاکٹر رضا بھٹی کے نام سامنے آئے تھے ۔سب کچھ کردار پس پردہ متحرک ہے لابنگ زوروں پر تھی کیونکہ مفادات بڑے تھے لیکن آئی بی اے سکھر پر کنٹرول حاصل کرنے کی بعض مفاد پرست عناصر کی خواہش اور کوشش کامیاب نہیں ہو سکی تھی اور یہ معاملہ ڈاکٹر میر محمد شاہ کو قائم مقام وائس چانسلر مقرر کرنے سے حل کرلیا گیا تھا انہوں نے اپنی ذہانت قابلیت اور صلاحیتوں کا مظاہرہ کرتے ہوئے یونیورسٹی کو سنبھالا اور مشکل وقت میں یونیورسٹی کے معاملات کی سربراہی کی لیکن ایک مضبوط لابی ان کے خلاف شروع دن سے سرگرم عمل تھی وہ اس موقع کی تلاش میں تھے کہ کسی طریقے سے میر محمد شاہ پر الزامات لگا کر انہیں نااہل ثابت کیا جائے اور یہاں سے نکالا جائے لاکھ کوششوں کے باوجود ایسا موقع نہیں آیا تو اب ایک نیا اسکینڈل گھڑا گیا ہے جس کے بارے میں خود قائم مقام وائس چانسلر ڈاکٹر میر محمد شاہ نے ٹوئٹر پر پیغام جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ سکھر آئی بی اے یونیورسٹی کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کیلئے ایک جعلی ویڈیو سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر گردش کر رہی ہے اس کا ذمہ دار یونیورسٹی کی طالبات کو قرار دیا جا رہا ہے جو کہ غلط ہے یہ بد نیتی پر مبنی ہے انہوں نے یہ ٹویٹ بعد وزیراعلی سندھ اور سید خورشید شاہ اور نفیسہ شاہ کو بھی بھیجا ہے ۔آئی بی اے سکھر کی طالبات اور ٹیچرز بھی اس ویڈیو کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں اور اسے یونیورسٹی کے خلاف جھوٹا پراپیگنڈہ قرار دے رہے ہیں طلبہ اور طالبات نے یونیورسٹی کی موجودہ انتظامیہ پر اپنے بھرپور اعتماد کا اظہار کیا ہے جبکہ یونیورسٹی نے خود یونیورسٹی کے خلاف آنے والی ویڈیو کی تحقیقات کرنے اور حقائق سامنے لانے کا فیصلہ کیا ہے سندھ اور پاکستان میں اعلی تعلیم کے حوالے سے آنے والے اسکینڈلز ماضی میں بھی لوگوں کی توجہ حاصل کرتے رہے ہیں اس حوالے سے ادارے اور تنظیمیں موجود ہیں اور وہ متحرک ہیں تازہ واقعہ کی سچائی اور گہرائی جاننے کے لیے بھی کوششیں شروع ہوچکی ہیں مختلف ادارے تنظیمیں اور پلیٹ فارم تحریک نظر آ رہے ہیں آنے والے دنوں میں اس واقعے کی اصل سچائی اور حقائق سامنے آ جائیں گے ۔
سکھر میں سیاسی حلقوں میں یہ بحث ہو رہی ہے کہ کیا ڈاکٹر میر محمد شاہ کا قصور یہ ہے کہ انہوں نے آئی بی اے سکھر میں صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی اور وزیراعظم عمران خان کے پروگرام منعقد کرائے جس پر یونیورسٹی کی روز اول سے مالی معاونت کرنے والی سندھ حکومت اور خاص طور پر پاکستان پیپلز پارٹی کی کچھ بااثر سیاسی شخصیات ناراض ہو گئی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ آپ ڈاکٹر میر محمد شاہ کو ان کے عہدے سے ہٹانے کے لیےپہلے سے سرگرم لوگ بھی اس موقع کا بھرپور فائدہ اٹھانا چاہتی ہے ۔
———————
Jeeveypakistan.com-report
———–
whatsapp……92-300-9253034