کمبل

پاکستان میں عسکری قیادت کا صحافیوں کو لنچ یا ڈنر پر بلا کر مختلف ایشوز پر بریفنگ دینا ایک پرانی روایت ہے۔ یہ روایت جنرل ضیاکے دور میں زیادہ پروان چڑھی جب انہوں نے اپنے ہم خیال صحافیوں کو‘ خصوصاً وہ جو بھٹو کے زیرعتاب رہے تھے ‘کو اہمیت دینا شروع کی تاکہ وہ ان کے مارشل لاء کا جواز اور فوائد عوام تک پہنچاتے رہیں۔ بھٹو صاحب بھی صحافت اتنی ہی آزاد چاہتے تھے جو ان کے حق میں لکھے اور مخالفوں کا جینا حرام کیے رکھے۔ بھٹو نے بھی صحافیوں کی زندگیاں مشکل بنائے رکھیں‘ جیلوں میں ڈالا‘ ان کے نزدیک بھی وہی صحافی اچھے تھے جو ان کی حکومت کی تعریفیں کریں‘ جنرل ضیا نے اس کا فائدہ اٹھایا۔ خیر آنے والے برسوں میں سیاستدانوں نے بھی صحافیوں کے اپنے اپنے گروپس بنائے اور اپنے ہم خیال پیدا کیے۔ زرداری صاحب نے پیپلز پارٹی حکومت میں ناشتہ گروپ بنا لیا جو ناشتے پر اکٹھا ہوتا تھا اور سارے دن کی حکومتی اور میڈیا پالیسی بنائی جاتی تھی تو نواز شریف نے ہیلی کاپٹر گروپ تشکیل دے دیا جو اُن کی شان میں قصیدے پڑھتا اور وہ خوبیاں بیان کرتا تھا جو نواز شریف کو خود آج تک معلوم نہیں ہیں۔
خیر فوجی قیادت کے صحافیوں کے ساتھ انٹرایکشن بہت پرانے ہیں اور مقصد جہاں روز مرہ معاملات پر رائے عامہ جاننا ہوتا ہے وہیں وہ اپنے خیالات بھی حکومتِ وقت اور عوام تک پہنچا سکتے ہیں۔ جنرل باجوہ اس معاملے میں بے حد لبرل ہیں کہ وہ کھل کر صحافیوں سے ریگولر ملاقاتیں کرتے رہے ہیں۔اس بار بھی تیس کے قریب صحافیوں کو آئی ایس پی آر بلایا گیا اور وہاں سات گھنٹے تک جنرل صاحب نے ان سے ملاقات کی اور تقریباً ہر ایشو پربات کی۔ خود بھی باتیں سنائیں اور صحافیوں کی بھی سنیں۔ ملکی اندرونی صورتحال پر بھی کھل کر بات ہوئی۔ جنرل باجوہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ کھلے ڈلے ہیں‘ جٹ ہیں لہٰذا ان کے ہاں وہ تکلفات نہیں ہیں جو ماضی میں صحافیوں کو درپیش ہوتے تھے۔ آپ کھل کر ان سے سوال کرسکتے ہیں اور وہ کھل کر جواب دیتے ہیں۔ لگی لپٹی بہت کم ہوتی ہے۔ ان سات گھنٹوں کی ملاقات میں سب سے اہم حصہ میرے خیال میں افغانستان اور بھارت کے حوالے سے تھا۔آرمی چیف نے بھارت کے ساتھ بدلتے تعلقات پر جو گفتگو کی وہ اپنی جگہ اہم ہے۔تو کیا ہم سمجھ لیں کہ اب پاکستانی فوجی قیادت اس بیانیے پر قائل ہوگئی ہے جو ماضی میں سیاسی حکمران اور وزیراعظم کہتے رہے اور اس پر انہیں ”سکیورٹی رسک‘‘ اور ”مودی کا یارہے، غدار ہے‘‘ کا نعرہ سننا پڑا تھا؟ بینظیر بھٹو نے راجیو گاندھی کو اسلام آباد بلایا تو انہیں سکیورٹی رسک قرار دیا گیا‘ نواز شریف نے وزیراعظم مودی سے ملاقات کی تو انہیں غدار قرار دیا گیا۔ ویسے انہیں غدار قرار دلوانے میں پیپلز پارٹی اور بلاول پیش پیش تھے۔ ایک دور تھا کہ نواز شریف بینظیر بھٹو کو سکیورٹی رسک قرار دے رہے تھے تو اب بلاول وہی پرانے بدلے لے رہے تھے۔ یوں عوام کیلئے دو وزیراعظم اور دو بڑی سیاسی پارٹیوں کے سربراہان غدار ٹھہرے‘ ایک دوسرے کو غدار کہنے لگے اور سمجھا گیا کہ صرف فوجی قیادت ہی بھارت کے فیصلے کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
بھارت میں بھی مانا جاتا ہے کہ اگر پاکستان کے ساتھ کوئی فیصلہ کن مذاکرات ہوسکتے ہیں تو پاکستان کی مقتدرہ سے ہوسکتے ہیں‘ سیاسی قیادت سے نہیں۔ بھارت ہمیشہ سے پاکستان کی مقتدرہ کو اہمیت دیتا رہا ہے۔ اگر بھارتیوں نے پاکستانی سیاستدانوں کو اہمیت دی بھی تو ہمارے ہاں کے حالات کے مطابق وہ کچھ کرنے میں ناکام رہے۔ اس لیے جب واجپائی صاحب 1998ء میں لاہور بس لے کر آئے تو اس کے بعد جنرل مشرف نے کارگل شروع کردیا اور ایک محدود جنگ شروع ہوگئی جس کا انجام نواز شریف کی حکومت کی برطرفی اور گرفتاری پر ہوا۔ خیر جنرل مشرف کے دور میں واجپائی اور پھر من موہن سنگھ کے ساتھ اہم مذاکرات شروع ہوئے اور کشمیر پر خاصی پیش رفت ہوئی‘ بلکہ کشمیر پرمعاملات تقریباً سلجھ گئے تھے اور من موہن سنگھ نے اسلام آباد پہنچ کر جنرل مشرف کے ساتھ اہم اعلانات کرنا تھے لیکن مشرف مسائل میں گھر گئے اور من موہن سنگھ کا دورہ نہ ہوسکا۔
یہ بات طے ہے کہ بھارت کے ساتھ مسائل کا حل سیاسی قوتوں کے اختیار میں نہیں۔ مسئلہ کشمیر جب بھی حل ہوگا فوجی قیادت ہی کرے گی۔ فوجی قیادت پر عوام زیادہ بھروسہ کرتے ہیں کہ اگر فوج بھارت کے ساتھ معاملات طے کرے گی تو یہ پاکستان کی بہتری میں ہو گا۔ بہرحال اب ہماری مقتدرہ بھارت سے سب مسائل حل کرنے کیلئے تیار ہوچکی ہے۔ اب کشمیر پر بھی معنی خیز گفتگو کا ماحول بن چکا ہے۔ پاکستان اب اپنی ستر سالہ پرانی پالیسی بدل رہا ہے کہ پہلے کشمیر اور پھر کسی اور ایشو پر بات ہو گی۔ اب پاکستان کشمیر کے ساتھ ساتھ سیاچن‘ سر کریک اور تجارتی ایشوز پر بھی بات کرنے کو تیار ہے۔ کشمیر پر پاکستان اپنا دعویٰ رکھے گا لیکن کشمیر کو بنیاد بنا کر بھارت سے تعلقات دائو پر نہیں لگائے گا۔ اس کے بدلے بھارت کشمیر میں پانچ اگست والے اقدامات واپس کرے گا۔ اس دوران پاکستان بھارت کو افغانستان اور سنٹرل ایشیا تک راستہ دے گا اور اس کے بدلے پاکستان بھارت سے راہداری اور کرائے کی مد میں خاصا بل وصول کرے گا۔ دونوں ملکوں میں تجارت شروع ہوگی اور سب سے بڑھ کر پاکستان سیاحت سے بہت پیسہ کما سکتا ہے کیونکہ بھارت سے بڑی تعداد میں سیاح ہڑپہ‘ موہنجودڑو‘ ٹیکسلا اور کٹاس راج مندر جیسے مقامات دیکھنے کو تیار ہیں۔ مقتدرہ سمجھتی ہے کہ اب وقت ہے کہ ان ایشوز کو حل کر کے پاکستان کو ایک نارمل ملک بنایا جائے۔
اگرچہ دیکھنے میں یہ سب آسان لگتا ہے لیکن ابھی بہت کام ہونا باقی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اب بتایا جارہا ہے کہ دونوں ملکوں کی سیکرٹ ایجنسیوں کے سربراہ براہ راست رابطے میں ہیں تاکہ عدم اعتماد کی فضا ختم کی جائے۔ پاکستان کے ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض حمید اور بھارت کے سکیورٹی ایڈوائز اجیت ڈوول کے مابین دبئی میں ملاقات کی خبروں کی بھی تردید اب تک نہیں کی گئی۔ لگتا ہے اس بار معاملات سنجیدہ طریقے سے آگے بڑھ رہے ہیں۔ آپ اِسے امریکہ کا دبائو کہہ لیں کہ وہ بھارت کو چین کے مقابلے میں کمزور نہیں دیکھنا چاہتا‘ لہٰذا چاہتا ہے کہ بھارت پاکستان سے محاذ آرائی بند کر کے چین پر فوکس کرے یا چینی قیادت اور عرب ملکوں کا مشورہ پاکستان پر اثر دکھا رہا ہے کہ آپ لوگ تجارتی اور معاشرتی تعلقات بھارت سے جاری رکھیں اور کشمیر جیسے مسائل پر’ سٹیٹس کو‘ کی پالیسی کو فالو کریں۔ کشمیریوں کو بھی سانس لینے دیا جائے جو مسلسل خونریزی اور بھارتی تشدد کا شکار ہیں۔ بھارت کو اگر پاکستان سے سنٹرل ایشیااور افغانستان تک تجارت کیلئے راستہ ملتا ہے تو اس سے بڑا فرق پڑے گا۔ وہ سمجھتے ہیں کہ چین اور بھارت کے مابین جنگ کے باوجود اربوں ڈالر کی تجارت بھی ہو رہی ہے۔
اب بال سیاستدانوں کے کورٹ میں آنے والی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ وہ اسی طرح روڑے اٹکاتے ہیں جیسے ماضی میں ان کے راستوں میں اٹکائے جاتے رہے یا وہ فوج کی اس بدلتی ہوئی سوچ کا ساتھ دیں گے‘ تاکہ خطے کو ایک پرسکون فیوچر دیا جائے ؟ اب مقتدرہ بدلتے حالات میں خود کمبل کو چھوڑنا چاہتی ہے تو کیا اب سیاستدان‘ میڈیا اور عوام اسے نہیں چھوڑنے دیں گے؟ساری کہانی اس کمبل کی ہے جس سے ہم چمٹے ہوئے ہیں یا کمبل ہم سے چمٹا ہوا ہے۔ بہتر ہے جو اس کمبل سے جان چھڑانا چاہتے ہیں انہیں باعزت انداز میں چھڑانے دیں۔ ہوسکتا ہے شارٹ ٹرم میں ہمیں اس کا زیادہ فائدہ نہ لگے لیکن ہماری مستقبل کی نسلوں کا اسی میں بھلا ہے۔