ہماری سیاسی اشرافیہ پاپولیشن ڈپارٹمنٹس کے ساتھ کب کھڑی ہوگی ؟

دنیا کی نظریں پاکستان پر اس لئے بھی لگی ہوئی ہیں کہ ہم تیزی سے بڑھتی ہوئی اپنی آبادی کو کنٹرول کرنے کے لیے کوئی سنجیدہ اور ٹھوس اقدامات نہیں اٹھا پائے زبانی دعوے ضرور کیے عالمی فورمز پر یقین دہانیاں کروائیں بین الاقوامی اجلاسوں میں دستخط کیے عالمی تنظیموں سے خوب فنڈز بھی حاصل کیے لیکن عملی طور پر نتیجہ خیز اقدامات نہیں کرپائے ہماری سیاسی اشرافیہ کی اکثریت غیر سنجیدہ رہی اس معاملے کی سنگینی اور حساسیت کو کبھی بھی اتنی اہمیت نہیں دی گئی جتنا اس کی ضرورت ہے سیاستدان اور سرکاری افسران ،این جی اوز کی بااثر شخصیات (چند ایک کو چھوڑ کر )دنیا کی سیر سپاٹوں اور ڈالروں سے شاپنگ کرنے میں مصروف رہی۔ظاہر ہے اس کا نتیجہ کیا نکلا تھا ؟پاکستان دنیا کا چھٹا بڑا آبادی والا ملک تھا جتنے ڈالر اور مقامی فنڈز فراہم کیے گئے تھے اگرچہ وہ ناکافی تھے لیکن اگر پوری سنجیدگی کے ساتھ پاپولیشن ویلفیئر کے لئے خرچ ہوتے تو پاکستان دنیا کے چھوٹے بڑے آبادی والے ملک سے اپنی پوزیشن کو بہتر بنا لیتا لیکن ایسا نہیں ہوسکا اور بدقسمتی سے پاکستان آج دنیا میں سب سے زیادہ آبادی والا پانچواں بڑا ملک بن چکا ہے اور جس تیز رفتاری سے پاکستان کی آبادی میں اضافہ ہو رہا ہے سال 2030 اور اس کے بعد سال 2050 پاکستان اور پاکستانیوں کے لئے مزید مشکلات پیدا کریں گے اور ہمارے مسائل اور چیلنجوں میں کئی گنا اضافہ ہوجائے گا کیونکہ ہم اپنی آبادی میں اضافہ کی شرح کو کنٹرول کرنے میں ناکام رہے ہیں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو اس سلسلے میں اپنی ذمہ داری کا احساس کرنا ہوگا اور پوری قوم کو اس سلسلے میں ایک متفقہ ایجنڈے کے ساتھ آگے بڑھنے کے لئے ذہن سازی کرنی ہوگی زمینی حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے عملی اقدامات اٹھانے پڑیں گے جب تک پاپولیشن کو ہم اپنی نیشنل سکیورٹی کے ساتھ نہیں چھوڑیں گے اس کے سنگین اثرات اور کیا نتائج کو احساس نہیں کریں گے اس معاملے پر ہم آگے نہیں بڑھ پائیں گے جس طرح FP 2020 کے اہداف حاصل کرنے میں بری طرح ناکامی ہوئی ہے اگر ہماری چال نہ بدلی تو پھر FP 2030 کا حشر بھی زیادہ مختلف نہیں ہوگا ۔
18ویں ترمیم کے بعد پاکستان میں وفاقی حکومت کے اختیارات اور دائرہ کار ہیلتھ اور پاپولیشن کے حوالے سے بہت محدود ہو چکا ہے صوبوں کو بہت سے اختیارات منتقل ہوچکے ہیں اور انہوں نے اپنی پاپولیشن پالیسی بنانی ہے خود اس پر عمل کرنا ہے اور عالمی اہداف کے مطابق کام کرنا ہے وفاقی حکومت نے کوٹیشن رکھنا ہے پبلک اور پرائیویٹ سیکٹر کی حوصلہ افزائی کرنی ہے اور رہنمائی فراہم کرنی ہے ۔بدقسمتی سے صحیح سمت میں سفر آگے کی طرف نہیں ہو رہا ۔پیدائش میں مناسب وقفہ رکھنے کے لیے جو مصنوعات بیرون ملک سے خریدی یا منگوائی جاتی ہیں ان کی پول پروکیورمنٹ پر اختلافات پائے جاتے ہیں ہر صوبے کی سوچ اور مصنوعات کی ضرورت اور اپنے اسٹاف کی ٹریننگ کی استعداد ،کارکردگی اور مشکلات الگ الگ سامنے آرہی ہیں مختلف پروڈکٹس کی بھارت سے خریداری پر پابندی لگ چکی ہے اور برازیل جرمنی اور دیگر ملکوں سے آنے والی مصنوعات یقینی طور پر مہنگی ہیں مقامی طور پر ان مصنوعات کی تیاری کا دور دور تک کوئی نام و نشان نہیں ۔جن فارما کمپنیوں نے کوشش کی تھی انہیں ڈر یپ اور دیگر سرکاری بیوروکریسی کے قواعد و ضوابط اور مسائل میں اس طرح جکڑ لیا کہ وہ پیچھے ہٹ گئے ۔رہی سہی کسر کرو نا وبا کی وجہ سے پیدا شدہ حالات نے پوری کر دی ۔شادی شدہ خواتین کا دور دراز علاقوں سے فیملی پلاننگ مراکز کلینک ہسپتالوں تک پہنچنا ویسے ہی دشوار تھا کوویڈ 19 نے ان کے مسائل مزید بڑھا دیے ۔صوبوں کے متعلقہ حکام سے بات کریں وہ بتاتے ہیں کہ چیلنج کم نہیں ہو رہے پاکستان میں بڑے شہروں کی جانب آبادی کا رخ اتنی تیزی سے ہو رہا ہے کہ دیہات میں حاصل ہونے والی کامیابیوں پر پانی پھر گیا ہے پاپولیشن کنٹرول کے حوالے سے جو فوکس دیہاتی علاقوں میں کیا گیا تھا اس کے بہتر نتائج آ رہے تھے لیکن اربنائزیشن کی وجہ سے شہروں میں نتائج پلٹ گئے نتیجہ یہ نکلا کہ مجموعی طور پر پاکستان کی آبادی میں اضافہ کی شرح اس حد تک کام نہیں کی جا سکی جس کی توقع تھی ۔
غیر ملکی فنڈنگ سے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیموں کے کرتا دھرتا لوگوں سے بات کریں تو پتہ چلتا ہے کہ ان کو سب سے زیادہ شکایات سرکار کے رویے اور تاخیری حربوں سے ہے ۔ اب یہ خدشہ بھی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ آنے والے دنوں میں غیر ملکی فنڈنگ میں نمایاں کمی ہو جائے گی جس کی دو بڑی وجوہات سامنے آرہی ہیں پہلی وجہ کرونا کی بیماری کی جانب سے فنڈز کا مختصر ہونا ہے ویکسین کے لئے خریداری پر بڑی بھاری مقدار میں فنڈنگ کی جا رہی ہے جو فرد پاپولیشن کنٹرول کے لیے مختص کیے جاتے تھے وہ فنڈ بھی اب دستیاب نہیں ہوں گے دوسری بنیادی وجہ پاکستان کے اپنے نتائج اور کارکردگی ہے دو تین دہائیوں سے عالمی فنڈنگ کرنے والی تنظیمیں اب کافی عرصے سے سوال اٹھا رہی ہیں اور وارننگ دے چکی ہیں کہ آپ اپنے نتائج اور کارکردگی بہتر بنائیں ورنہ ہماری طرف سے فنڈنگ کا سلسلہ ختم ہو جائے گا ۔
پاکستان میں کام کرنے والی مختلف غیر ملکی اور مقامی این جی اوز مختلف پروجیکٹ بنا کر ان کے لیے مخصوص فنڈنگ حاصل کرتی رہی ہیں کچھ پروگرام اوپر فنڈ نگ کا سلسلہ جاری ہے اکثر پروگرام ایسے تھے جن کا دورانیہ مکمل ہونے کی وجہ سے ان کی فنڈنگ کا سلسلہ تھم چکا ہے مقامی طور پر ان غیر سرکاری تنظیموں کو کچھ پروگراموں کے لیے غیر ملکی فنڈنگ حاصل کرنے کے بعد ایسے اقدامات کرنے تھے کہ مستقبل کے لئے یہ خود اپنے پیروں پر کھڑی ہو سکیں اس سلسلے میں کچھ کامیابی حاصل ہوئی ہے اور کچھ معاملات میں ناکامی ۔اس کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ آنے والے دنوں میں پاکستان میں پاپولیشن کنٹرول کے لیے کام کرنے والی ملکی اور غیر ملکی این جی اوز کی فنڈنگ میں نمایاں کمی ہوگی جس کے نتیجے میں یہ پروگرام بری طرح متاثر ہوں گے ان کے عملے کی تنخواہ اور مراعات رک جائیں گی ان کے کلینک ہسپتالوں اور گھر جاکر سہولتیں فراہم کرنے کے پروگرام متاثر ہوں گے جس کے نتیجے میں ہماری شادی شدہ خواتین اور شادی شدہ جوڑوں کو بچوں کی پیدائش میں وقفہ رکھنے کے حوالے سے جو مصنوعات اور سہولتیں سستے داموں اور گھر کی دہلیز پر فراہم کی جا رہی تھی ان میں خلل پیدا ہوگا اور اس کا نتیجہ مزید بھیانک ہوگا ۔
اس تمام صورت حال سے نمٹنے کیلئے ہماری سیاسی اشرافیہ کا کردار پہلے سے بھی زیادہ ذمہ داری کا متقاضی ہے ہماری مختلف سیاسی اور مذہبی جماعتوں کی لیڈرشپ کے کندھوں پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ملک میں آبادی کی بڑھتی ہوئی شرح کو کم کرنے کے سلسلے میں اپنا مثبت اور موثر کردار ادا کریں لوگوں میں شعور اور آگاہی بیدار کرنے کے ساتھ ساتھ تولیدی صحت کی وہ مصنوعات اور خدمات اپنے حلقے کہ عوام تک بہم پہنچانے اور ان کی دستیابی اور فراہمی اور رسائی کو یقینی بنانے کے سلسلے میں کام کریں ووٹر بھی ان سے سوال پوچھے کہ آپ نے اپنے حلقے میں ماں اور بچے کی بہتر صحت اور تحفظ کے لیے کیا کام کیا ہے کتنے کلینک اور اسپتالوں میں ایسے ڈاکٹر پیرامیڈیکل اسٹاف اور تربیت یافتہ عملے کی دستیابی یقینی بنائی ہے جو شادی شدہ جوڑوں کو بچوں کی پیدائش میں مناسب وقفہ رکھنے کے لیے رہنمائی فراہم کر سکے ۔خواہش کے برعکس حمل کو روک سکے ۔حاملہ خواتین کو مناسب رہنمائی فراہم کر سکے ۔زچگی کے عمل کے دوران ماں اور بچے کی جان بچانے کے کام کر سکے ۔
ماضی میں پاکستان میں یہ نعرہ لگایا جاتا رہا کہ دو بچے خوشحال گھرانہ ۔اس کے وہ نتائج حاصل نہیں ہوئی جس کی توقع تھی ۔اب اس کا نعرہ تو دیر کر دیا گیا ہے ۔اب آبادی اور وسائل میں توازن ۔۔۔پیدا کرنے کی بات کی جا رہی ہے قومی اسمبلی پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں کے اراکین کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کریں آپ نے اپنے حلقے میں پاپولیشن ڈیپارٹمنٹ کے مسائل کو حل کرنے کے لیے ان کا ساتھ دیں پبلک اور پرائیویٹ سیکٹر کی جانب سے اٹھائے جانے والے اقدامات پر ان کے ہم آواز بنے جو عناصر بھی اس سلسلے میں کسی بھی قسم کی رکاوٹ اور رخنا ڈالیں ان کا ہاتھ روکا جائے ان کو سمجھایا جائے اور معاملے کی سنگینی کا احساس دلایا جائے ۔پاکستان کی سیاسی اشرافیہ اور ہماری سیاسی اور مذہبی جماعتوں کی لیڈرشپ اور چھوٹے علاقوں میں پھیلے ہوئے ان کے کارکنان اس سلسلے میں یقینی طور پر بہت اہم اور نتیجہ خیز اقدامات کر سکتے ہیں ان کا کردار انتہائی اہمیت کا حامل ہے پاکستان بھر کے میڈیا کو بھی اس سلسلے میں اپنی قومی ذمہ داری کو سمجھنا ہوگا اور سیاسی اشرافیہ پر دباؤ بڑھا کر انہیں ان کی ذمہ داریوں کا احساس دلانا ہو گا ۔
————————–
تحریر سالک مجید ۔۔۔زیر نگرانی ۔طاہر حسن خان
——————-
E-mail….Jeeveypakistan@yahoo.com
——————–
Whatsapp………92-300-9253034