اٹوٹ انگ کی رَٹ چھوڑنا ہوگی

۔۔۔۔۔۔ قادر خان یوسف زئی کے قلم سے
——————————-


امریکی انٹیلی جنس کی رپورٹ ’خطرے کے جائزے کی سالانہ رپورٹ‘2021 میں دعویٰ کیا گیا کہ جوہری ہتھیاروں سے لیس دونوں ممالک (پاکستان۔بھارت) کے درمیان کشمیر کے معاملے پر کشیدگی میں اضافہ کا خطرہ موجود ہے، امریکہ کی ڈائریکٹر آف نیشنل انٹیلی جنس نے کانگریس کو ارسال رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ نریندرمودی پاکستان پر اشتعال انگیزی کا جھوٹا الزام بھی عائد کرسکتے ہیں۔اس سے قبل رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ پانچ برسوں میں دونوں ممالک کے درمیان جنگ ہونے کا امکان موجود ہے۔ انتہا پسند ہندو حکومت کی جانب سے مملکت کے خلاف شر انگیز پروپیگنڈا و خطے میں ایٹمی جنگ کے خطرے کو بڑھانے کا رجحان نیا نہیں۔ کشمیر واحد ایسا ایجنڈا ہے جس پراقوام متحدہ کی قرارداوں کے مطابق حل کرنے کی ضرورت ہے، لیکن بھارتی قیادت نے وتیرہ بنا لیا ہے کہ ایک طرف وہ پاکستان کے ساتھ مقبوضہ کشمیر سمیت تمام تصفیہ طلب امور پر بات کرنے پر رضا مندی ظاہر کرتی ہے تو دوسری جانب اس کی طرف سے کشمیر کو اپنا ”اٹوٹ انگ“ قرار دینے کا سلسلہ بھی جاری رہتا ہے۔یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے تو مذاکرات کس ایشو پر کرنے کا عندیہ دیا جاتا ہے، یا پھر کوئی بھی ملک ثالثی کے لئے اپنا کردار ادا کرتا ہے تو مقبوضہ کشمیر کے مسئلے کے بغیر مذاکرات کامیاب کیسے ہو سکتے ہیں۔
بھارت اپنے پرانے راگ کو الاپتے ہوئے دنیا و عوام کی توجہ داخلی انتشار و بیڈ گورنس سے ہٹانے کی کوشش کرتا ہے۔ بھارت اس وقت کرونا وَبا کی وجہ سے بدترین صورت حال کا شکار ہے، لاکھوں مریض روزانہ کی بنیاد پر سامنے آرہے ہیں، عوام کو ریلیف دینے کے بجائے ہندو انتہا پسند حکومت نے مذہبی اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے خلاف ایک منظم مہم شروع کی اور کرونا کو کنٹرول کرنے کے بجائے اپنے انتہا پسندوں کو کھلی چھوٹ دی کہ وہ مسلمانوں کے خلاف پر تشدد کاروائیاں کریں، مودی سرکار و بی جے پی کی اس حماقت کی وجہ سے کرونا وَبا بے قابو ہوگئی اور آج یہ حالت ہے کہ روزانہ لاکھوں مریضوں کے ساتھ ہلاک ہونے والوں کی بڑھتی تعداد پر بھارتی عوام سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں۔
یہ طے شدہ اَمر ہے کہ بھارتی قیادت اپنی ہٹ دھرمی کی روش پر قائم رہے گی تو دونوں ممالک کے درمیان حالات کبھی ٹھیک نہیں ہوسکیں گے۔ بھارت کی جانب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور مقبوضہ کشمیر میں پر تشدد واقعات سمیت عالمی قوانین کی شدید خلاف وزریوں پر ایکشن لینے کے بجائے استثنیٰ فراہم کرنا نہ صرف پُرامن جوہری تعاون سے پیچھے ہٹنے کے مترادف گردانا جاتا ہے بلکہ عالمی و علاقائی سطح پر سیکورٹی کے لئے سنگین اثرات مرتب ہوسکتے ہیں، امریکی رپورٹ میں انہی حالات کا دقیق جائزہ لے کر خدشات ظاہر کئے گئے کہ دونوں ممالک اس وقت ایٹمی جنگ کی دہلیز پر ہیں، تاہم اس کی ذمے داری عالمی طاقتوں پر بھی عاید ہوتی ہے، امریکہ و فرانس نے جب بھارت کو سول ایٹمی توانائی سے نوازا تھا تو اُس وقت ثابت ہوچکا تھا کہ دنیا کے بعض بڑے ممالک اس خطے میں امتیازی پالیسیوں پر عمل پیرا ہیں۔ صرف بھارت کے ساتھ افرادی قوت کی بہتات کے باعث، بڑی تجارتی منڈی میں جگہ بنانے کی لالچ میں جنوبی ایشیاء کے ممالک میں عدم توازن پیدا کیا گیا، جس کی وجہ سے نت نئے مسائل نے جنم لیا، جس کا نتیجہ سب کے سامنے ہے کہ اگر پاکستان تحمل و برداشت سے کام نہ لے تو اس وقت دنیا میں جوہری ہتھیاروں کی پہلی و شاید آخری جنگ لڑی جا رہی ہوتی۔ بھارت کی ساری توجہ اپنے توسیع پسندانہ عزائم کی جانب ہے، جس نے خطے میں عدم استحکام کو فروغ دیا ہوا ہے، امن مقفود ہوچکا ہے جس کا واحد سبب بھارتی پالیسیوں کی وجہ سے پہلے ہی عنقا ہے۔ انتہا پسند ہندو حکومت کی جارحانہ عزائم کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ اقتدار و پست سیاست کے لئے بارہا پاکستان پر جنگ مسلط کرنے کی سازش کی گئی۔ 2004 میں پاکستان کے خلاف آپریشنل جنگی منصوبہ، جس کے تحت 72 گھنٹوں میں ممبئی طرز کے حملے کئے جانے تھے۔کولڈاسٹارٹ نامی اس منصوبے کا مقصد پاکستان میں ایٹمی حملے سے بچتے ہوئے اور پاکستان کی بقا کو نقصان پہنچائے بغیر”سزا“دینے کی غرض سے محدود پیمانے پر جنگ کرنا تھا، بالا کوٹ حملہ بھی اسی منصوبے سے نتھی تھا، تاہم سیکورٹی اداروں نے سبک رفتاری و کمال استادگی کے ساتھ بھارت کے تما م منصوبوں و سازشوں کو ناکام بنایا۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ان معاملات کو عالمی سطح پر اجاگر کرنے کی جو جاندار کوشش کرنی چاہے تھی، اس میں مزید جان پیدا کرنا حکومت کی ترجیح ہونا چاہیے تاکہ ہندو انتہا پسند مودی سرکار کو نہ تو تاریخی حقائق کے منافی پروپیگنڈا کرنے کا موقع ملے اور نہ ان مسائل کے حل میں مزید تاخیر ہو، ہمیں اس امر کا ادارک کرنے کی ضرورت ہے کہ بھارت نے اپنی بہت سی کامیابیاں سفارتی محاذ پر کامیاب حکمت عملی کے ذریعے حاصل کی ہیں، جبکہ ہم کھل بھوشن یادیو، جنوبی وزیر ستان، بلوچستان سمیت ملک بھر میں دہشت گردی، نسلی، لسانی و فرقہ وارانہ کاروائیوں میں بھارت کے ملوث ہونے کے ناقابل تردید شواہد موجود ہونے کے باوجود مداخلت کو روکنے کے لئے بعض سطحوں پر کچھ نہیں کرسکے، بلوچستان میں بھارتی مداخلت عروج پر ہے، شمال مغربی سرحدوں پر بھارتی ایجنڈے پر ملک دشمن عناصر عوام کو گمراہ کرنے کی سازش کرتے رہتے ہیں۔ حالات کو درست نہج پر لانے کے لئے پاکستان کو بھارت کے ساتھ اپنے معاملات کلیئر کرنے کی ضرورت ہے، بھارت کو آئینہ دکھانے کا وقت آگیا ہے لہذا اس سلسلے میں مزید تاخیر نہیں کی جانے چاہے، عالمی برداری کو چاہیے کہ وہ مودی سرکار کی بے جا حمایت کرنے کے بجائے بھارتی قیادت پر دیرینہ مسائل حل کرنے حوالے سے دباؤ ڈالے تاکہ امن کی راہ ہموار ہوسکے اور دونوں ملکوں کی عوام کو آگے بڑھنے کا موقع مل سکے، اس کے لئے سب سے پہلے بھارتی سیاست دانوں و حکومت کو اٹوٹ انگ کی رَٹ چھوڑنا ہوگی۔ کشمیر پر اقوام متحدہ کی قرادادوں کے مطابق عمل پیرا ہونے کے لئے ماحول کو کشیدہ بنانے کے بجائے سازگار بنانا ہوگا۔ جب تک مقبوضہ کشمیر میں ظلم و ستم کا سلسلہ جاری رہے گا، کشمیری مزاحمت کرتے رہیں گے۔ امریکہ سمیت تمام عالمی برداری کو جوہری جنگ کی شروعات سے قبل اپنا مثبت و غیر جانب دارنہ کردار ادا کرنا ہوگا کیونکہ یہی سب کے حق میں بہتر ہے۔