پاکستانیوں کے طور طریقے اور ھمارے مسائل

تحریر ۔۔شہزاد بھٹہ

لوڈشیڈنگ کا اژدھا پھر پھنک پھیلائے جھوم رھا ھے جوں جوں گرمی بڑھتی جائے گئی بجلی کا استعمال بھی بڑھتا جائے گا طلب اور رسد میں بھی فرق بڑھتا جائے گا طلب زیادہ اور رسد کم ھونے سے لوڈشیڈنگ بھی زیادہ ھوتی جائے گئی یوں گرمیوں کا موسم تکلیف اور مشکلات کے ساتھ گزرے گا یہ سلسلہ سالوں سے جاری ھے مگر ھم ھیں کہ سر پر جوں تک نہیں رینگتی ، ھمارے شب وروز اور طور طریقے ویسے کہ ویسے ھی چلتے رھیں گئے
ھم یہ سوچتے ھی نہیں کہ بحثیت قوم بھی کوئی ذمہ داری ھے بس موج مستی میں کھا پی رھے ھیں دن کو رات اور رات کو دن بنا رکھا ھے بجلی کا فضول اور بے دریغ استعمال جتنا وطن عزیز میں ھورھا ھے اتنا شاھد دنیا کے کسی اور ملک میں ھوتا ھو

ھم بحیثت فرد ملک و قوم کے ساتھ کسی قسم کا تعاون کرنے کو تیار نہیں اور نہ اس کے بارے میں سوچتے کہ ھمارے بھی کوئی فرائض ھیں کہ ھم نے بھی ملک کے بارے میں کچھ کرنا ھے یا پھر صرف اپنے بارے میں سوچنا ھے
یہ بھی ھماری بدقسمتی ھے کہ ھم صرف اور صرف اپنے بارے میں سوچتے ھیں باقی جائیں بھاڑ میں۔ مگر دنیا میں قومیں ملک وقوم  کے بارے  میں پہلے اور اپنے بارے میں بعد میں سوچتے ھیں یہی وجہ ھے کہ وطن عزیز میں مسائل کا انبار لگا ھے 
اج بات کرتے ھیں بجلی کی لوڈشیڈنگ کی جو پچھلے ایک دھائی سے وبال جان بنا ھوا ھے مختلف حکومتوں نے بجلی کی پیداوار کو بڑھنےاور لوڈشیڈنگ کو ختم کرنے کے لیے کوئی مستقل کوشش نہیں کی صرف اور صرف ڈنگ ٹپاو کام چلایا جس کا نیتجہ صفر اور ھم بیس پچیس سال بعد بھی وھی کے وھی کھڑے ھیں حالانکہ اس دوران ابادی ڈبل ھوگئے بجلی کا استعمال بھی ڈبل ۔بڑے بڑے پلازے، شاپنگ مال، ملٹی سٹوری بلڈنگ وجود میں آگئی جو پاکستانی موسم کے برعکس چاروں طرف سے بالکل بند بلڈنگز کی تعمیرات اور ان میں ھزاروں لاکھوں ائرکنڈیشنر کا استعمال کیا جارھا ھے ۔ان ائرکنڈیشنر کے استعمال سے لاھور سیمیت بڑے شہروں میں فضائی الودگی میں بے پناہ اضافہ ھو چکا ھے کیونکہ ھم نے پرانے اور بڑے درختوں کا بے دریغ قتل عام بھی کیا ۔
اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے زندگی گزارنے کے اصول واضح کر دئیے کہ دن کام کرنے کے لیے تو رات سونے اور ارام کرنے کےلیے واقف ھے ۔ان اصول پر پوری ترقی یافتہ اور دیگر ممالک میں پوری طرح عمل ھورھا ھے حتی کہ اللہ کی دیگر مخلوق جن چرند و پرند بھی شامل ھیں اس اصول زندگی پر پوری طرح کاربند ھیں اگر ھم امریکہ برطانیہ جرمن چین فرانس وغیرہ کی بات کریں تو صبح ھوتے ھی کاروبار زندگی شروع ھو جاتا ھے اور شام ھوتے ھی بند۔ یعنی وہ دن کی روشنی کا زیادہ سے زیادہ استعمال کرتے ھیں
مگر اگر وطن عزیز کی بات کریں تو اسلامی اصولوں کے برعکس ھم دن کی روشنی کو ضائع اور مصنوعی روشینوں کا استعمال کثرت سے کر رھے ھیں کراچی لاھور و دیگر بڑے شہر دن کو سوتے ھیں اور راتوں کو جاگتے ھیں
حیرت ھے کہ جس ملک میں لوڈشیڈنگ کے اژدھا نے پوری طرح پھنک پھلائے ھوں اس کے بڑے شہروں میں ساری ساری رات بجلی کا استعمال ایسے استعمال کیا جارھا ھے جیسے بجلی وافر اور مفت مل رھی ھے ھمارے حکمران اور میڈیا  بھی اس معاملے میں انکھیں بند کیے سو رھے ھیں ۔
اس اذیت ناک لوڈشینڈنگ کا اسان اور سادہ حل ھے کہ دیگر ترقی یافتہ ممالک کی طرح رات 9 بجے کے بعد ھر قسم کا کاروبار زندگی بند کیا جائے اور صبح 8 بجے تمام کاروبار اور دفتری کام شروع کر دیا جائے اس سسلے میں علاقہ تھانیدار کو پابند کیا جائے کہ اس کے علاقے میں 9 بجے کے بعد سوائے کلنیک ۔فارمیسی کے ھر دوکان بند ھونی چاھیے ۔بڑے بڑے اشتہاری نیو سائین بند ھونے چاھے صرف سڑیٹ لایٹ کی اجازت ھونی چاھیے ۔ ایسے اقدامات سے اتنی بجلی بچائے گئی کہ گھروں ہسپتالوں و دیگر ضروری مقامات پر لوڈشینڈنگ کی ضرورت نہیں رھے گئی لوگ جلدی سوہیں گئے تو صحت بھی بہتر ۔
کرورنا نے ھم سب کو ایک موقع دیا ھے کہ اپنی روزمرہ زندگیوں اور رہنے سہنے کے طور طریقے اسلامی اصولوں کے مطابق بدل لیں ذرا سوچیے