آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے زیر اہتمام معروف صحافی آئی اے رحمان کی یاد میں ورچوئل تعزیتی ریفرنس کا انعقاد

انسانی حقوق کے علمبردار اور معروف صحافی آئی اے رحمان کی یاد میں آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے زیر اہتمام ورچوئل تعزیتی ریفرنس کا انعقاد
کراچی  : آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے زیر اہتمام انسانی حقوق کے علمبردار و معروف صحافی آئی اے رحمٰن کی یاد میں انہیں خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لیے ایک ورچوئل تعزیتی ریفرنس کا انعقاد کیاگیا۔ریفرنس کی نظامت کے فرائض معروف اسکالر ڈاکٹر جعفر احمد نے ادا کیے۔جبکہ اسپیکرز میں انیس ہارون، مظہر عباس، ڈاکٹر توصیف احمد خان۔لاہور سے آن لاءن حارث خلیق،منیزے جہانگیر۔اور دہلی سے جاوید نقوی نے آن لائن شرکت کی،اس موقع پر صدر آرٹس کونسل محمد احمد شاہ نے ابتدائیہ کلمات میں کہاکہ ہمارے لیے یہ بہت بُری خبر تھی کہ آئی اے رحمٰن اب ہم میں نہیں رہے، انہوں نے صحافت میں گراں قدر خدمات کے ساتھ ایک بہترین سفر کیا، وہ ایک ہیومن رائٹس ایکٹیوسٹ بھی تھے، انصاف کی فراہمی کے لیے کانفرنسوں میں بھرپور شرکت کرتے، انہوں نے اپنی بھرپور زندگی گزاری، آئی اے رحمن صعوبتیں بھی بڑی نصیب ہوئی، انہوں نے کہاکہ یہ آرٹس کونسل کراچی کاذاتی نقصان ہے، آرٹس کونسل کی گورننگ باڈی نے ان کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کیلئے اس پروگرام کا انعقاد کیا ہے،انیس ہارون نے کہاکہ الفاظ میں آئی اے رحمان کی شخصیت کا احاطہ کرنا بہت مشکل ہے، وہ ایک ایسا وسیع سمندر تھے جو دلائل کے ساتھ بات کرتے تھے، ہمیشہ پراُمید نظر آتے ان میں مثبت سوچ کی طاقت واضح نظر آتی تھی وہ کبھی مایوس نہیں ہوتے تھے، سینئر تجزیہ کار مظہر عباس نے کہاکہ میرے کیریئر کی ابتدائی جدوجہد سے میرا آئی اے رحمن سے تعلق تھا وہ قلم کے مسافر تھے، کسی بھی بڑے آدمی کی لیگیسی ان کا کام ہوتا ہے، آئی اے رحمن اس لحاظ سے خوش نصیب تھے کہ اس وقت صحافت کا اچھا دور تھا،جتنا آئی اے رحمن نے کام کیا ہے ہمیں ان کو سلیبریٹ کرنا چاہیے، ان کے انتقال سے تین روز قبل ان کا آرٹیکل ڈان میں شائع ہوا ہے یہ قابلِ تحسین بات ہے ،ایک مکمل رائٹر، ہومنسٹ اور صحافی تھے اور اس بات سے انہوں نے کبھی انکار نہیں کیا- حارث خلیق نے کہاکہ آئی اے رحمن کی شخصیت کثیرالجہت تھی، انہوں نے بہت سی کتابوں کے دیباچے لکھے، ادب، صحافت اور مزدوروں کی تحریک کے لیے بہت کام کیا، اجو کا تھیٹر ان کے دل سے ہمیشہ قریب رہا اور وہ ایک عرصے تک ڈائریکٹر رہے،ایک عجیب و غریب صورتحال ہے آج ہی کے دن ان کے اعزاز میں کئی ریفرنسس منعقد ہیں،وہ اس طرح سکھاتے تھے کہ کسی کو اپنی کمزوریوں کا احساس نہ ہو اور اپنے بعد آنے والوں کی حوصلہ افزائی اس طرح کرتے جیسے اپنے جونیئرز کی رہنمائی کر رہے ہوں۔ منیزے جہانگیر نے کہاکہ پوری دنیا کیلئے وہ دانشور تھے لیکن ان کی آنکھوں میں ایک شرارت تھی، وہ ہر جنریشن سے کنیکٹ کرلیتے تھے، گھر کے بچوں سے لے کر بڑوں اور ملازموں سب کو باتوں میں جوڑ لیتے تھے وہ جب تاریخ بھی بیان کرتے تھے تو انسانی حقوق کے پہلو سے کرتے تھے انہوں نے کہاکہ آئی اے رحمن جیسے لوگ اب دوبارہ نہیں آسکتے۔ دہلی سے جاوید نقوی نے آن لائن گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ آئی اے رحمن نے ہندوستان اور پاکستان کے خراب رشتوں کو ہمیشہ بہتر کرنے کی کوشش کی وہ جس طرح آسان اور سادہ لفظوں میں سچائی بیان کرتے تھے وہ ان کی خاصیت تھی، اب وہ لب و لہجہ غائب ہوگیا۔ ڈاکٹر توصیف احمد خان نے کہاکہ انیس ہاشمی سے ان کے والد کی بڑی دوستی تھی، ترقی پسندی کا جومعاملہ تھا وہ دراصل ان کے والد سے شروع ہوا تھا، وہ علی گڑھ چلے گئے، انہوں نے سی ایس ایس کا امتحان دیا اور کامیاب بھی ہوئے، بعد میں صحافت سے وابستہ ہو گئےآئی اے رحمن نے کبھی اس بات کو اہمیت نہیں دی کہ کوئی انہیں دھمکا رہا ہے یا انہیں جان کا خطرہ لاحق ہے انہوں نے ہمیشہ محبت کا ہی پیغام دیا ہے، وہ ذاتی تنازعات چھوڑ کر یہی سبق دیا کرتے تھے کہ ہندوستان پاکستان کے دوستانہ تعلقات سے ہی قتل و غارت اور خوں ریزی پر قابو پایا جاسکتا ہے،