اسد اللہ خان کا اصل امتحان شروع ۔۔۔۔!

کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کی تاریخ کے سب سے خوش قسمت اور خوش مزاج افسر اسد اللہ خان کا بطور مینجنگ ڈائریکٹر اصل امتحان شروع ہوگیا ہے اگرچہ انہوں نے ماضی میں کافی مشکلات مسائل اور زبردست چیلنجوں کا عمدگی اور کامیابی سے مقابلہ کیا ہے لیکن کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ ایک ایسا ادارہ ہے جہاں ہر سال نئے چیلنج سر اٹھاتے ہیں اور ہر مرتبہ مینجنگ ڈائریکٹر اس کی ٹیم کو سر جوڑ کر بیٹھنا پڑتا ہے کہ اب آنے والے وقت کا مقابلہ کیسے کرنا ہے ۔

کراچی میں تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی اور دور افتادہ پہاڑی علاقوں میں پانی کی فراہمی ہمیشہ سے ایک بڑا چیلنج رہا ہے اب کراچی رقبے کے لحاظ سے بہت پھیل چکا ہے ان تمام علاقوں میں آبادی نظر آتی ہے جہاں کبھی بالکل سناٹا ہوتا تھا ویران علاقے اب بڑی بڑی گنجان آبادیوں میں تبدیل ہوتے جا رہے ہیں اس لیے کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کا چیلنج اور بھی بڑھ گیا ہے ۔
کراچی میں موسم گرما اور رمضان کی شروعات کے ساتھ ہی پانی کی مانگ میں زبردست اضافہ ہو جاتا ہے کراچی شہر میں اس وقت گھر میں بھی شدت اختیار کر رہی ہے اور رمضان المبارک بھی شروع ہوگیا ہے اس لیے کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کے افسران اور عملے کا امتحان کا وقت آگیا ہے اگرچہ وزیراعلی سند اور وزیر بلدیات اس حوالے سے ہدایات جاری کر چکے ہیں لیکن اصل کام مینجنگ ڈائریکٹر کی نشست پر انجینئر اسداللہ خان اور ان کی سربراہی میں کام کرنے والی ماہرین کی ٹیم میں کرنا ہے شہریوں کو ہمیشہ سے مختلف علاقوں میں پانی کی عدم فراہمی کی شکایت رہتی ہے کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کے والو مین انتہائی بد نام ہیں ان کے نام سے کرپشن کا بول بالا ہے ان کے خلاف عوامی شکایات کا انبار لگا رہتا ہے واٹر بورڈ کی انتظامیہ نے سارا سال پانی کی فراہمی کو ہر ممکن حد تک ممکن بنانے کے اقدامات کیے اور کامیاب رہے لیکن اس کے باوجود جن علاقوں میں پرانی شکایات ہیں وہاں پر مسائل اپنی جگہ پر ہیں دوردراز اور مشکل علاقوں میں جہاں پانی پائپ لائن کے ذریعے نہیں پہنچ رہا وہاں ٹینکرز کے ذریعے پانی کی فراہمی کی کوشش کی جاتی ہے واٹر ٹینکر کے سسٹم اور فراہمی اور نرخ کے حوالے سے شکایت رہتی ہے غریب اور کچی بستیوں میں پانی کی فراہمی بلند ریٹ پر ہوتی ہے وہاں سرکاری ریٹ پر پانی خریدنے کی سکت بھی نہیں ہے بڑے واٹرٹینکر کی بجائے وہاں چھوٹی سوزوکیوں اور چھوٹی گاڑیوں اور گدھا گاڑیوں اور معاشی و کے ذریعے پانی پہنچایا جاتا ہے لوگ مہنگا پانی خریدنے پر مجبور ہیں دوسری طرف شہر میں بڑے بڑے ہاؤسنگ پروجیکٹس اور کمرشل پلازہ تعمیر ہو رہے ہیں شہر میں پانی کی فراہمی اور نکاسی کا انفراسٹرکچر پہلے ہی تباہ حال ہے اس انفراسٹرکچر پر کثیر المنزلہ عمارتوں اور بڑے بڑے کمرشل رہائشی پلازوں کا بوجھ پڑ رہا ہے پرانی پائپ لائنوں کی عدم تبدیلی کی وجہ سے مسائل بڑھ رہے ہیں سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں پانی تو ٹینکر سے آ جاتا ہے لیکن سیوریج کا پانی وہاں سے نکلتا نہیں اور ساری سڑکوں پر پانی کھڑا ہو جاتا ہے اور سڑکیں ٹوٹ پھوٹ جاتی ہیں پیار کی گلی والوں کی صورت حال ابتر ہے کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کی انتظامیہ اور صوبائی حکومت کے متعلق احکام اس ساری صورتحال سے باخبر ہیں آگاہی ہونے کے باوجود مسائل کی ایک دم ختم نہیں ہو پاتی ہر سال تسلی دی جاتی ہے اور آنے والے بجٹ میں زیادہ فنڈز رکھنے اور مسائل کے حل کی یقین دہانی کرائی جاتی ہے کچھ لوگ سن کر کچھ لوگ انتظار میں وقت گزارتے ہیں کچھ جگہوں پر حقیقی اور کچھ جگہوں پر مصنوعی کام دکھایا جاتا ہے شہر کا نظام جیسے چل رہا ہے لیکن مستقبل کیسا ہوگا وہی کچھ نہیں کہہ سکتا ۔واٹر بورڈ سے لوگوں کو امیدیں بھی ہیں اور مایوسی بھی ہے جن کو پانی نہیں ملتا وہ واٹر بورڈ کی تعریف سننا برداشت نہیں کرتے جن کے یہاں پانی پہنچ جاتا ہے وہ واٹر بورڈ کی انتظامیہ کے گن گاتے ہیں شہر دو طبقوں میں بٹتی گیا ہے ایک وہ طبقہ جسے پانی ملتا ہے دوسرا وہ جسسے نہیں ملتا ۔جس طبقے کو پانی نہیں ملتا مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ٹینکر خریدے پڑھتے ہیں وہ واٹر بورڈ اور صوبائی حکومت کی کارکردگی سے نالاں رہتا ہے اور جسے کسی سے سفارش تعلقات یا سسٹم کے تقاضے پورے کرنے کی وجہ سے پانی مل جاتا ہے وہ خاموشی سے اپنا وقت گزارتا رہتا ہے لیکن کیا یہی مسئلہ کا حل ہے ۔
ایم ڈی واٹر بورڈ ہی بہتر بتا سکتے ہیں کہ اس وقت شہر میں پانی کی مانگ کتنی ہے اور فراہمی کی پوزیشن کیا ہے اگر مزید بارشیں نہ آئی اور دریاؤں میں پانی کی سطح نہ پڑھی تو گرمیوں کا یہ سیزن کیسے گزرے گا اور کتنا پانی کم پڑے گا لوگ انتظار میں ہیں کہ واٹر بورڈ کو خوشخبری سنائی کم از کم رمضان میں پانی کا ناغہ اور بندش نہ کرے ۔لیکن کہ عملی طور پر یہ واٹر بورڈ کے لیے ممکن ہوگا ؟