جیلوں میں قیدیوں کی تعداد ۔صوبہ سندھ کی 24 جیلوں میں 17 ہزار سے زائد قیدی ہیں


جیلوں میں قیدیوں کی آبادی ۔صوبہ سندھ کی 24 جیلوں میں 17 ہزار سے زائد قیدی ہیں۔ان میں سزایافتہ قیدیوں کی تعداد چار ہزار سے زیادہ ہے جبکہ بارہ ہزار سے زیادہ قیدی ابھی اپنے مقدمات کا فیصلہ سننے کے منتظر ہیں ان کا شمار انڈر ٹرائل قیدیوں میں ہوتا ہے سندھ کی جیلوں میں اس وقت 200 سے زائد خواتین قیدی موجود ہیں جن میں 63 سزا یافتہ ہیں اور ڈیڑھ سو سے زیادہ انڈر ٹرائل قیدی ہیں صوبہ بھر کی جیلوں میں خواتین کی ہڈیوں کے ساتھ 33 شیر خوار بچے بھی موجود ہیں ان کے علاوہ 18 سال سے کم عمر قیدیوں کی تعداد ایک سو ستر سے زیادہ ہے ۔

صوبہ سندھ میں سب سے پرانی جیل حیدرآباد میں قائم ہے جس کا قیام 1894 میں عمل میں لایا گیا حیدر آباد کی جیل میں ڈیڑھ ہزار قیدیوں کی گنجائش ہے اور یہاں پر دو ہزار سے زیادہ قیدی موجود ہیں ۔
صوبہ سندھ کی دوسری پرانی جیل سینٹرل جیل کراچی ہے جسے 1899 میں بنایا گیا یہ جیل چوبیس سو قیدیوں کے لئے ڈیزائن کی گئی یہاں پر 52 بیرکس اور 203 سیل ہیں اس جیل میں ساڑھے چار ہزار سے زیادہ قیدی موجود ہیں ۔سندھ کی دیگر جیلوں میں سینٹرل جیل سکھر ۔سینٹرل جیل لاڑکانہ ۔سنٹرجیل خیرپور ۔سینٹرل جیل میرپور خاص ۔ملیر جیل کراچی ۔شہید بے نظیر آباد ۔سانگھڑ ۔جیکب آباد جیل ۔دادو جیل ۔بدین جیل ۔نوشہروفیروز جیل ۔شکار پور جیل ۔گھوٹکی جیل ۔ناران جیل حیدرآباد نمایاں ہے ۔

سندھ کا محکمہ جیل خانہ جات مجموعی طور پر محدود وسائل کے باوجود صوبہ بھر کی جیلوں کا نظام عمدگی سے چلا رہا ہے جیلوں میں خطرناک قیدی بھی ہیں دہشت گردی سمیت سنگین مقدمات میں ملوث قیدی بھی ہیں ہائی پروفائل مقدما ت کے قید یوں کی نگرانی انتہائی اہمیت کی حامل ہوتی ہے قیدیوں کو رہا کرانے کے لیے جیلوں پر حملوں اور جیل بریک کرنے کی سازشوں کا مقابلہ بھی کرنا ہوتا ہے اس کے علاوہ جیلوں میں موجود قیدیوں کو جیل مینول کے مطابق سہولتوں کی فراہمی اور انسانی حقوق کے احترام کے حوالے سے آئینی اور قانونی ذمہ داریاں بھی ہوتی ہیں جیلوں کے اندر عدالتیں بھی کام کر رہی ہیں وہاں پر مقدمات کی سماعت بھی ہوتی ہے ان کی سکیورٹی بھی ایک خصوصی چیلنج ہے ۔
بعض جیلوں میں گنجائش سے زیادہ قیدیوں کی موجودگی بڑا چیلنج رہتی ہے انہیں جیل مینول کے مطابق سہولتوں کی فراہمی ایک اہم مسئلہ ہوتا ہے قیدیوں کو جیل سے عدالتوں تک لے کر جانا اور واپس لانا بھی ایک اہم مرحلہ ہوتا ہے ۔کچھ جیلوں میں عملے کی کمی اور محدود فنڈز کے مسائل بھی موجود رہتے ہیں بعض جیلوں میں جیل پولیس اور دیگر عملے کی لمبی ڈیوٹیاں اور بغیر چھٹی کے کافی عرصے تک ڈیوٹی دینے کی شکایات بھی عام ہیں اس کے علاوہ بعض قیدیوں کی جانب سے جیلوں کے اندر جیل مینول پر عمل درآمد نہ ہونے اور سہولتوں کی عدم فراہمی کی شکایات بھی آتی رہتی ہیں قیدیوں پر تشدد اور ناروا سلوک اور رشوت ستانی اور کرپشن کی شکایات بھی عدالتوں تک پہنچتی رہتی ہیں جس کی وجہ سے اکثر اوقات جیلوں کے عملے کے خلاف کارروائی بھی ہوتی ہے صوبائی حکومت خود بھی ان شکایات کا نوٹس لیتی رہتی ہے شکایات کی صورت میں جیل افسران اور عملے کے ٹرانسفر پوسٹنگ روٹین کا عمل ہے ۔محکمہ جیل خانہ جات مجموعی طور پر صوبہ بھر کی جیلوں کی صورتحال کو بہتر بنانے اور قیدیوں کی فلاح و بہبود کے لئے ضروری اور اہم اقدامات کرتا نظر آتا ہے جیل جانے والے قیدیوں کو ایک اچھا شہری بنانے کی کوشش یہاں کے عملے کی بنیادی ڈیوٹی میں شامل ہے ۔جیلوں میں موجود قیدیوں کو مختلف ہنر بھی سکھائے جاتے ہیں اور ان سے ہنرمندی کے کام بھی لیے جاتے ہیں ۔جیلوں میں قیدیوں کے علاج معالجے اور ان کی صحت کا خیال رکھنے کا خصوصی انتظام بھی ہے بعض کہ دی جیل کے اندر دی سہولیات حاصل کرتے ہیں اور بعض کو ہسپتالوں میں منتقل کیا جاتا ہے ۔قیدیوں کو جیلوں میں مسجد نماز روزے کی سہولت بھی حاصل رہتی ہے ۔
————–
Report-Salik-Majeed-
————–
whatsapp……….92-300-9253034