سرکاری یونیورسٹیز اور بورڈ کے ساتھ حکومت سندھ کا سوتیلی ماں جیسا سلوک

ایک طرف سندھ میں حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کی اعلی قیادت چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور شریک چیئرمین آصف علی زرداری اس بات پر پورا زور دیتے ہیں کہ صوبے میں اعلی تعلیم کے فروخت کے لئے بھرپور اقدامات کیے جائیں صوبے بھر میں سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو اور سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کے نام سے منسوب یونیورسٹیز جتنی بڑی تعداد میں کام کر رہی ہیں کسی اور صوبے میں اس کی مثال نہیں ملتی سابق صدر آصف علی زرداری کی ہمشیرہ اور صاحبزادی بھی صوبے میں اعلی تعلیم کے فروغ کے لئے سرگرم نظر آتی ہیں زیبسٹ سے لے کر بیگم نصرت بھٹو یونیورسٹی تک پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت صوبے میں اعلی تعلیم کے فروغ کے لئے دیگر تمام سیاسی جماعتوں اور صوبائی اور وفاقی حکومت کے مقابلے میں سب سے زیادہ کام کرتی نظر آتی ہے وزیراعلی سندھ سید مراد علی شاہ کی اعلی تعلیم کے فروغ کے لیے سنجیدہ ہیں لیکن محکمہ خزانہ جو براہ راست ان کے ماتحت ہے اور یونیورسٹیوں کو فنڈ دینے والے افسران اور اےجی سندھ آفس کے متعلقہ حکام اس سنجیدگی اور دلچسپی کا مظاہرہ نہیں کر رہے جس کا تقاضا ہے یہی وجہ ہے کہ صوبے بھر کی سرکاری جامعات اور تعلیمی بورڈز میں ان دنوں سخت مالی بحران ہے اساتذہ کی تنخواہیں اور پینشن کی ادائیگی مسئلہ بنا ہوا ہے یونیورسٹیوں کا بنیادی کام ریسرچ ہوتا ہے لیکن ریسرچ کے لیے جامعہ کے پاس فنڈز نہیں ہے زمینی حقائق بہت تلخ ہیں یا تو وزیراعلی اور پارٹی کی اعلی قیادت کو صورتحال کا بالکل علم نہیں ہے یا ان کے پاس یونیورسٹی اور تعلیمی بورڈ کو دینے کے لئے کچھ نہیں ہے ۔یہ عجیب بات ہے کہ پارٹی قیادت اور صوبے کا وزیر اعلی تو چاہتا ہے کہ یونیورسٹی اس کو زیادہ فنڈز ملیں لیکن عملی طور پر ایسا ہو نہیں پا رہا ۔کراچی سے لے کر سکھر شکارپور تک اور جامشورو سے لے کر نوابشاہ تک مختلف یونیورسٹیز اور تعلیمی بورڈ زبردست مالی مشکلات سے دوچار ہیں کہیں پر اور ڈراپ سے کام چلانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہیں پر گریجویٹی فنڈ کو استعمال کر کے کام چلایا جا رہا ہے ہر جگہ معاملات بگڑے ہوئے ہیں فنڈز کی فراہمی میں انتہائی کنجوسی بخل کا مظاہرہ کیا گیا ہے اور فنڈز کی فراہمی میں غیر معمولی تاخیر بھی کی گئی ہے جس کی ذمہ داری کا بھی بورڈ انجن یونیورسٹی کے ملازمین محکمہ خزانہ اور کبھی آئی جی سندھ آفس پر ڈالتے ہیں مختلف سرکاری جامعات کے وائس چانسلر ڈائریکٹر فنانس اعلیٰ حکام کی توجہ اس صورتحال کی طرف مبذول کرا چکے ہیں متعدد اجلاسوں اور ملاقاتوں میں یہ مسائل بیان کیے جا چکے ہیں اور تو اور خطوط بھی لکھے گئے ہیں لیکن مسئلہ حل ہونے کی بجائے مزید گھمبیر ہوتا جا رہا ہے صوبائی حکومت کی جانب سے یونیورسٹیز اور بورڈز کو جو فنڈز فراہم کیے جا رہے ہیں وہ اونٹ کے منہ میں زیرہ کے برابر ہیں وزیراعلی سندھ سید مراد علی شاہ کو خود صورتحال کا نوٹس لینا چاہیے پارٹی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری شاید صورتحال سے لاعلم ہیں انہیں مختلف یونیورسٹیز اور بورڈ کے مالی مسائل کا علم نہیں ہے اگر فوری طور پر صورتحال بہتر نہ کی گئی تو حالات مزید بگڑ جائیں گے ۔
دوسری طرف مختلف یونیورسٹی کے وائس چانسلر اور دیگر سرکاری عہدے پر کرنے کا عمل بھی کچھوے کی رفتار سے آگے بڑھ رہا ہے اتنی سست روی اور طریقہ کار کی پیچیدگی کی وجہ سے مختلف عہدوں کے لیے درخواست دینے والوں میں مایوسی بڑھ رہی ہے ۔سندھ جناح میڈیکل یونیورسٹی کے وائس چانسلر کے لیے ناموں کو شارٹ لسٹ کرنے کے معاملے کو جس طرح متنازعہ حیثیت حاصل ہوئی اور انٹرویوز کرنے والوں کی اپنی اہلیت پر سوالات اٹھے اس کے نتیجے میں پورا عمل مشکوک اور اپنا اعتبار کھو چکا ہے اعلی تعلیمی حلقوں میں یہ تاثر عام ہے کے مخصوص منظور نظر افراد کی تعیناتی یقینی بنانے کے لئے معاملات کو جان بوجھ کر گھمبیر اور پیچیدہ بنایا جا رہا ہے صوبے کے اہل لائق قابل ذہین اور محنتی افراد ایک ایک کر کے اہم یونیورسٹیوں اور بورڈ سے دور کئے جارہے ہیں ایک مخصوص لابی اور چند بااثر افراد اپنی پسند اور نا پسند کے فیصلے کر رہے ہیں قانون کو اپنے گھر کی لونڈی کی طرح استعمال کرنے کی کوشش ہورہی ہے معاملات عدالتوں میں جا پہنچے ہیں وائس چانسلر اور دیگر عہدوں پر تعیناتی اور تقرری کے حوالے سے لوگوں کا عدالتوں میں جانا اور سوالات اٹھانا صاف ظاہر کر رہا ہے کہ معاملات اتنے شفاف نہیں ہیں جتنا دعوی کیا جاتا ہے ۔صوبہ کی مختلف یونیورسٹیوں کو کافی عرصے سے ایڈہاک ازم پر چلایا جارہا ہے ماہرین کے مطابق یہ صورتحال طلبہ اساتذہ اور مجموعی تعلیمی ماحول کے لئے انتہائی نقصان دہ ہے صورتحال کو جلد نہ سنبھالنے کی ذمہ داری خود وزیراعلی سندھ پر عائد ہوگی اگر انہوں نے فیصلہ کرنے میں مزید تاخیر کی ؟ انہیں صورتحال کا نوٹس لینا چاہیے اور جاننا چاہیے کی خرابی کہاں ہے گڑبڑ کون کر رہا ہے اور ذمہ داری کس کی ہے ۔

رپورٹ۔۔ سالک مجید
————-
e-mail…Jeeveypakistan@yahoo.com
———–
whatsapp………..92-300-9253034
————————————————–
————————————————-

جناح سندھ یونیورسٹی، وی سی کیلئے انٹرویوز

جناح سندھ میڈیکل یونیورسٹی کے میں وائس چانسلر کے عہدے کے لیے تلاش کمیٹی نے جمعرات کو امیدواروں کےانٹرویو ز کیے۔ تلاش کمیٹی کے اہم اور بیوروکریٹ رکن علم الدین بلو غیر حاضر رہے جب کہ گزشتہ اجلاس میں بلائے جانے والے ڈائریکٹر لیگل مدثرخان اختلافات کے باعث اجلاس شروع ہونے سے قبل ہی چلے گئے۔ زرائعکے مطابق اراکین کی اکثریتایک خاتون امیدوار کے دلائل سے بہت متاثرہوئی جب کہ عدالت جانے والے امیدواروں کو ٹف ٹائم دیا گیا کیوں کہ معاملات عدالتمیں لے جانے کے باعث تلاش کمیٹی کے کچھ اراکین نے اپنی ناپسندیدگی کا بھی اظہار کیا۔ تلاش کمیٹی نے تمام امیدواروں کی نمبرنگ کر کے نام تلاش کمیٹی کے چیرمین ڈاکٹر قدیر راجپوت کے باعث جمع کرادیئے عدالتی فیصلے کے بعد ان ناموں کو حتمی شکل دی جائے گی۔ تلاش کمیٹی نے17 امیدواروں کو انٹرویو کے لیے بلایا تھا جنمیں ڈائو یونیورسٹی کے سابق پرو وائس چانسلر ڈاکٹر عمر فاروق، ڈاکٹر نوشاد اے شیخ، ڈاکٹر امجد سراج میمن، ڈاکٹر شاہد رسول، ڈاکٹر نرگس انجم، ڈاکٹر خاور سعید جمالی، ڈاکٹر لبنیٰ بیگ، ڈاکٹر سید حسن مہدی، ڈاکٹر قمرالدین بلوچ، ڈاکٹر محمد اقبال آفریدی، ڈاکٹر انیلہ عطا الرحمان، ڈاکٹر خواجہ مصطفی قادری، ڈاکٹر سید جمال رضا، ڈاکٹر سید محمود حیدر، پیپلز میڈیکل یونیورسٹی کے قائم مقام وی سی گلشن علی میمن،اور ڈاکٹر عبدالرزاق شیخ شامل تھے- زرائع کے مطابق ایک امیدوار اس لئے اجلاس میں نہیں آئے کہ وہ تلاش کمیٹی کے دو ارکان سے خائف تھے ۔
https://jang.com.pk/news/909215?_ga=2.20763640.1970912155.1617949216-1299661580.1617949216
———————-
سندھ، سرکاری جامعات اور تعلیمی بورڈز کو انتظامی بحران سے بچانے کا فیصلہ
———-
کراچی( سید محمد عسکری) دہرے چارج، لک آفٹر اور او پی ایس سے متعلق عدالتی فیصلے کے تناظر میں محکمہ بورڈز و جامعات نے سندھ کی سرکاری جامعات اور تعلیمی بورڈز کو انتظامی بحران سے بچانے کا فیصلہ کیا ہے جس کے تحت ایک نوٹیفکیشن جاری کیا جارہا ہے جس کے مطابق عدالتی فیصلے کا اطلاق بورڈز اور جامعات پر نہیں لاگو ہوگا۔ ایڈیشنل چیف سیکرٹری علم الدین بلو کے انتہائی قریبی ذرائع نے جنگ کو بتایا کہ سندھ کی سرکاری جامعات اور تعلیمی بورڈز میں دہرے چارج کے حامل افسران کو ہٹانے کے باعث انتظامی بحران پیدا ہوگیا ہے کیونکہ وہاں افسران کی شدید کمی ہے اساتذہ کو انتظامی ذمہ داریاں دی ہوئی ہیں۔ بیشتر جامعات میں رجسٹرار، ناظم امتحانات اور اہم انتظامی عہدے اساتذہ کے پاس ہیں جب کہ کسی بھی تعلیمی بورڈز میں مستقل سیکرٹریز اور ناظم امتحانات اور دیگر افسران نہیں چنانچہ جونیئر افسران کو سینئر عہدوں کی ذمہ داریاں دی گئی تھیں جو واپس لے لی گئی ہیں جس سے انتظامی بحران پیدا ہوگیا ہے۔ محکمہ بورڈز و جامعات کے ذرائع کے مطابق عدالتی فیصلے کا اطلاق سول سرونٹ پر ہوتا ہے جب کہ بورڈز و جامعات خود مختار ادارے ہیں جو سول سرونٹ کے زمرے میں نہیں آتے بلکہ یہ پبلک سرونٹ کے دائرے میں آتے ہیں چنانچہ اس تناظر میں بورڈز و جامعات پر ان فیصلوں کا اطلاق نہیں ہوتا
https://jang.com.pk/news/909238?_ga=2.151335801.1970912155.1617949216-1299661580.1617949216
————————————-
جامعات کا کنٹرول سندھ ایچ ای سی کو دینے کا فیصلہ
———
کراچی(سید محمد عسکری) سندھ حکومت نے صوبے کی جامعات کو فعال اور بہتر کرنے کے لئے ان کا کنٹرول محکمہ بورڈز و جامعات سے لے کر سندھ ہائر ایجوکیشن کمیشن کو دینے اور محکمہ بورڈز و جامعات کا نیا نام ٹیکنیکل ایجوکیشن و بورڈز رکھنے کا فیصلہ کیا اس مقصد کے لئے سمری وزیر اعلیٰ سندھ کو ارسال کردی گئی ہے۔ زرائع کے مطابق وزیر اعلیٰ سندھ سے منظوری کے بعد اس معاملے کو سندھ کابینہ سے بھی منظور کرایا جائے گا جس کے بعد صوبے کی تمام جامعات سندھ ہائر ایجوکیشن کمیشن کے ماتحت ہوجائیں گی اور وزیر اعلیٰ سندھ کو سمری سیکریٹری ہائر ایجوکیشن کمیشن کے زریعے بھیجی جائیں گی جب کہ ٹیکنیکل ایجوکیشن و بورڈز کے محکمہ کے لیے نیا سیکریٹری مقرر کیا جائے گا۔ ذرائع کے مطابق وائس چانسلر کے تقرر کے لئے قائم تلاش کمیٹی بھی سندھ ہائر ایجوکیشن کمیشن کے ماتحت کردی جائے گی اور اس میں سیکریٹری بورڈ و جامعات کے بجائے سکریٹری سندھ ہائر ایجوکیشن کمیشن تلاش کمیٹی کا رکن ہوجائے گا۔
https://jang.com.pk/news/909239?_ga=2.153960312.1970912155.1617949216-1299661580.1617949216
———–
کراچی(سید محمد عسکری) ایک طرف صوبہ سندھ میں عدالتی احکامات پر سندھ کے محکموں سے او پی ایس، دہرے چارج اور لک آفٹر افسران کو ہٹانے کا سلسلہ جاری ہے تو دوسری طرف محکمہ تعلیم میں ایسے افسران کوہٹانے کے بجائے نئے افسران کو لک آفٹر، او پی ایس اور دہرے چارجز دیئے جارہے ہیں جمعرات کو محکمہ اسکول ایجوکیشن میں ڈسٹرکٹ ایجوکیشن افیسر سیکنڈری جنوبی غلام حیدر بلو کو ڈسٹرکٹ ایجوکیشن افسر سیکنڈری ضلع شرقی کا اضافی چارج دے دیا گیا، اسی طرح 18 گریڈ کے ڈپٹی ڈسٹرکٹ ایجوکیشن افسر اشتیاق احمد کو پرائمری شرقی کو 19 گریڈ کی اسامی ڈسٹرکٹ ایجوکیشن افسر پرائمری شرقی کا اضافی چارج دے دیا گیا۔ ایک اندازے کے مطابق محکمہ اسکول ایجوکیشن میں 400 سے زائد افسران عدالتی احکامات کی زد میں آتے ہیں مگر محکمہ تعلیم انھیں ہٹانے پر تیار نہیں ہے۔ سیکریٹری اسکول ایجوکیشن افیسر احمد بخش ناریجو کے مطابق 19 گریڈ کا افسر نہ ہونے کے باعث چارج دیا گیا تاکہ روزمرہ کے ضروری امور انجام پاسکیں۔ جب کہ تین چارج کی حامل تحسین فاطمہ سے بھی اضافی چارج جلد واپس لے لیں گے کیوں کہ اسی ماہ ہم افسران کو ترقیاں دے رہے ہیں تاہم اس وقت تک ضروری کاموں پینشن کی ادائیگی وغیرہ کی انجام دہی کے لئے عارضی اقدامات کئے گئے ہیں اس کے علاوہ بھرتیوں اور ترقیوں کے قواعد پر بھی نظرثانی کی گئی ہے جس کا نوٹفیکشن بھی جاری کردیا گیا ہے جس کی وجہ سے چیزیں بہتر صورتحال کی طرف گامزن ہیں۔