پاک ، روس معاشی و دفاعی تعلقات کا نیا دور ……………….

قادر خان یوسف زئی کے قلم سے
———————————


افغان جنگ کے دوران سوویت یونین اور پاکستان کے مابین تعلقات کا باب قریباََ ختم ہوچکا تھا، تاہم سوویت یونین کا شیرازہ بکھرنے کے بعد روس ایک مرتبہ پھر اپنی طاقت کو مجتمع کرکے دنیا کے سامنے کھڑا ہے۔ پاکستان کے ساتھ روس کے تعلقات میں متوازن پالیسی کی راہ اختیار کرنے کے باعث دونوں ممالک ایک دوسرے کے قریب آنا شروع ہوئے۔ دفاع، تجارت، سرمایہ کاری،سائنس، ٹیکنالوجی زراعت، تعلیم اور ثقافت کے شعبوں میں دونوں ممالک کے درمیان تعاون کی راہ ہموار ہوئی۔ بالخصوص امریکا کی افغانستان میں شکست کے بعد افواج کے انخلا کے اہم مرحلے میں بین الافغان مذاکرات کے لئے اعتماد کی فضا سازگار کرنے میں روس، چین اور پاکستان نے کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان تلخیوں کو ختم کرنے کے لئے 1965 سے 1970 کا دورانیہ اہم رہا جب 1965 میں پاکستان اور سویت یونین کے درمیان ثقافت کے شعبے میں پہلی بار معاہدے پر دستخط ہوئے۔ اس کے بعد سویت یونین نے پاکستان میں اسٹیل مل منصوبے کا افتتاح کیا جو دونوں ممالک کے درمیان کسی سنگ میل سے کم نہ تھالیکن مجموعی تعلقات کشیدہ ہی رہے۔2014میں 45برس بعد روسی وزیر دفاع نے پاکستان کا دورہ کرکے اہم سنگ میل کی بنیاد رکھی تھی،2015میں شمال جنوب گیس پائپ لائن پراجیکٹ معاہدے پر دستخط ہوئے، معاہدے کے مطابق کراچی سے لاہور تک 11سو کلو میٹرگیس لائن بچھائی جانا تھی، یہ اسٹیل مل کے بعد پاکستان میں روس کی جانب سے دوسرا سب سے بڑا منصوبہ بنا۔ستمبر2016میں پہلی بار روس اور پاکستان کی سپیشل فورسز نے مشترکہ مشقیں کیں اور 2020 میں دروزہبہ5 مشقوں سے دونوں ممالک کے درمیان دفاعی تعلقات میں مزید اعتماد سازی کی فضا سازگار ہوئی۔ روس نے فروری 2017 میں پاک بحریہ کی میزبانی میں ہونے والی بین الاقوامی مشق امن17، رواں برس میں اپنے جنگی بیڑے کے ہمراہ بحری امن مشقوں میں بھی شرکت کی۔3 جولائی 2017 کو روسی کمپنی گاز پروم انٹر نیشنل اور پاکستانی کمپنی او جی ڈی سی ایل کے مابین ماسکو میں باہمی تعاون ترقی کے مشترکہ منصوبوں کی تکمیل،تیل کی تلاش کے لیے اسٹیٹ آف دی آرٹ ٹیکنالوجی کے استعمال سے متعلق ایک ایم او یو پر دستخط ہوئے،روسی پالیسی میں یہ اہم تبدیلی صدر پیوٹن کے دور میں ہوئی۔2017 میں شنگھائی تعاون تنظیم میں پاکستان کو رکنیت دلانے میں روس اور چین نے اہم کردار ادا کیا، اس سے پاکستان پر امریکا سمیت کئی عالمی طاقتوں کا عالمی دباؤ کم ہونے میں مدد ملی ، مغربی بلاک کے مقابل شنگھائی تعاون تنظیم میں شمولیت سے پاکستا ن کی جغرافیائی اہمیت کو تسلیم کیا گیا۔
9 برس بعد روسی وزیر خارجہ کی پاکستان آمد اہمیت کی حامل تصور کی جا رہی ہے، خاص طور پر خطے میں قیام امن کے لئے دونوں ممالک کی چین کے ساتھ کوششیں، مغربی بلاک کی جانب سے بڑھتے دباؤ کو کم کرنے، معاشی و دفاعی ضروریات کے لئے امریکا پر انحصار ختم کرنے کی پالیسی، پاکستان کے ساتھ متعدد شعبوں میں پیش رفت کے ساتھ اسٹیل ملز کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کے لئے روس کا دلچسپی ظاہر کئے جانا اور سی پیک منصوبے میں وسط ایشیائی ممالک تک رسائی کے لئے تعاون دونوں ممالک کے لئے اہم ہیں۔ پاکستان اور چین کے درمیان دوستانہ تعلقات دیرینہ ہیں، روس اور پاکستان کو ایک دوسرے کے قریب لانے میں چین کا کردار اہم ہے، یہی وجہ ہے کہ بھارت میں سہ فریقی ممالک کے تعلقات سے خوف زدہ ہونے کے باعث بھارت نے امریکا سے اپنے تعلقات بڑھا دیئے۔ جب پاکستان نے1990میں روس کے جدید ترین سخوئی ایس یو 27 لڑاکا طیاروں کے حصول کی خواہش ظاہر کی تو بھارتی انتہا پسند وں کی صفوں میں ہلچل مچ گئی تھی۔ پاکستان کو روس ایم آئی تھرٹی فائیو ہیلی کاپٹر فروخت کرچکا ہے۔نزنی تیگل میں اسلحے کی نمائش کے حوالے سے روس کے نائب وزیر خارجہ سرگئی ریابکوف کے بیان نے نئی دہلی میں اس قدر تشویش پیدا کردی تھی کہ بھارت میں روسی سفارت خانے کو باضابطہ بیان جاری کرنا پڑا کہ”روس ایسا کوئی قدم نہیں اٹھائے گا جس سے اس کے اپنے دیرینہ تزویراتی شراکت دار بھارت سے تعلقات متاثر ہوں یا اس کے مفادات کو نقصان پہنچے“۔روسی نائب وزیر خارجہ ریابکوف نے پاکستان کو روس کا قریب ترین پڑوسی قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ’دونوں ممالک کے درمیان محض دفاع نہیں بلکہ دوسرے بہت سے شعبوں میں بھی تعاون کی خاصی گنجائش ہے جن میں توانائی بھی شامل ہے‘۔ یہ بیان سابق وزیر دفاع خواجہ آصف اور آرمی چیف راحیل شریف کے دورے کے موقع پر دیا گیا تھا۔
مقبوضہ جموں و کشمیر کے اڑی سیکٹر میں فوجی کیمپ پر حملے کے بعد بھارت نے روس سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ پاکستان کے ساتھ فوجی مشقیں منسوخ کردے مگر روس نے ایسا کرنے سے صاف انکار کیا۔ اس سے ماسکو کی نئی خارجہ پالیسیکا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ دسمبر2016 کو بھارت کے شہر امرتسر میں ”ہارٹ آف ایشیا“ کانفرنس کے دوران روسی نمائندے نے پاکستان کو ”دہشت گردی کی پشت پناہی کرنے والی ریاست“ قرار دینے کے عمل کو واضح طور پر ناپسند کیا۔ اس سے قبل 26اکتوبر2016 کو بھارتی ریاست گوا میں“برکس“ کانفرنس کے موقع پر بھی روسی صدر ولادیمر پیوٹن نے بھارت کی خصوصی درخواست کو مسترد کرتے ہوئے پاکستان کے ساتھ دہشت گردی کا ذکر کرنے سے صاف گریز کیا۔ بھارت کی جانب سے امریکا اور روس سے بیک وقت مفادات حاصل کرنے کی لالچ میں روس کو سوچنے پر مجبور کیا کہ پاکستان کے ساتھ قریبی پڑوسی ہونے کی حیثیت سے ماضی کی غیر متوازن پالیسی کو درست کرنے کی ضرورت ہے، یہی وجہ ہے کہ روس اور پاکستان کے درمیان تعلقات میں بہتری کا رجحان بڑھتا نظر آرہا ہے۔ وزیراعظم عمران خان اور روسی صدر پیوٹن کے درمیان پُرجوش ملاقاتوں سے بھارت کو شدید سفارتی دھچکا لگا، دونوں رہنماؤں کی ملاقات میں روس نے حقیقت پسندی و عمل پسندی کا اظہار کیا۔ روس افغانستان میں چار عشروں سے جاری جنگ اور اس کے مضمرات کو ختم کرنے کے لئے پاکستان کا تعاون چاہتا ہے تاکہ خطے میں امن و معاشی انقلاب کی راہ ہموار ہوسکے۔ واضح رہے کہ بھارت ہتھیاروں کی دوڑ میں آج بھی روسی اسلحے کا سب سے بڑا خریدارہے۔ ماسکو و نئی دہلی میں دوریاں ہونے کے امکانات کم ہیں لیکن اس میں رخنہ ضرور آیا جب بھارت اور امریکاکے درمیان طے پانے والے ”لاجسٹک ایکسچینج میمورنڈم آف ایگریمنٹ“ نے ماسکو کو چوکنا کردیا۔ یہ معاہدہ امریکا کو بھارت سے چند ایک عسکری سہولتوں کی گنجائش فراہم کرتا ہے۔ ان میں فضائی اور بحری ری فیولنگ اور لاجسٹکس شامل ہیں۔ یہ معاہدہ بھارت کو امریکی فوجی سہولیات سے ایسا ہی استفادہ کا موقع بھی فراہم کرتا ہے۔ کریملن کے نزدیک امریکا اس معاہدے کو بروئے کار لاتے ہوئے چین اور روس کو خطے اور بالخصوص بھارت کے سمندری علاقے میں محدود رکھنے کا عزم رکھتا ہے۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بھارت، روس کے مقابلے میں امریکا کو ترجیح دے رہا ہے، ان حالات میں روس کے لئے بھارتی بحری حصے میں قدم جمانے کے ضروری ہوگا کہ روس، پاکستان کے مزید قریب آئے،گو کہ روس نے چین۔پاک اقتصادی راہدری میں مذاکرات ادوار میں یوریشن اکنامک یونین کو شاہراہ ریشم سے منسلک کی خواہش کو سی پیک منصوبے میں شمولیت کی خواہش سمجھا گیا۔ ٹرمپ انتظامیہ آنے کے بعد پاکستان کا جھکاؤ بھی روس کی جانب بڑھا، کیونکہ امریکی صدر نے جنوبی ایشیائی پالیسی میں پاکستان پر جس قسم کا دباؤ بڑھایا اور غیر سفارتی رویہ اختیار کیا، جس کے بعد ضروری ہوگیا تھا کہ پاکستان بھی اپنی خارجہ پالیسی کو تبدیل کرے تاکہ سرزمین کی حفاظت و بقا کے لئے کسی ایک طاقت پر انحصار کرنے سے ماضی کی طرح کوئی دوسرا بڑا نقصان نہ پہنچے۔روس، چین اور پاکستان کے ساتھ ایران اور ترکی نئے اتحادی گروپ کی صورت میں اجاگر ہو رہے ہیں۔ تاہم پاکستان کی خارجہ پالیسی میں غیر جانب دار رہنے کا اصولی موقف ہونے کے باوجود اب بھی صورت حال آئیڈیل نہیں ہے کہ نئے اتحادی بلاک میں ایران کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کو امریکا اور عرب ممالک نظر انداز کردیں، اسی طرح یورپی ممالک، چین اور روس کے ساتھ پاکستان کے بڑھتے تعلقات کو بھی قبول کرنے میں تامل کررہا ہے، بالخصوص ترکی کا یورپ میں شمولیت کی کوششیں کامیاب نہ ہونے پر، نئے اتحادی بلاک میں بااثر مقام رکھنے کے لئے روس اور پاکستان کے ساتھ ایران پر انحصار بڑھتا جارہا ہے۔ یورپ، امریکا اور بھارت کے نزدیک نئے اتحادی دائرہ ان کے مفادات کے خطرے کا باعث بن سکتا ہے۔
افغانستان میں قیام امن کے لئے امریکی تجویز پر ترکی اپریل کے وسط میں افغان امن کانفرنس استنبول پراسس کے تحت کرانے کی منظوری دے چکا ہے۔ تاہم افغانستان میں عبوری حکومت کی تجویز کو رد کئے جانے کے بعد صدر اشر ف غنی نے دوبارہ صدارتی انتخابات کرانے کی یقین دہانی کرائی ہے کہ اگر افغان طالبان انتخابات کے ذریعے اقتدار حاصل کرنا چاہتے ہیں تو وہ مستعفیٰ ہونے کے لئے تیار ہیں، اس سے قبل افغان طالبان ردعمل دیتے، خود افغانستان کی حزب اختلاف کی کئی جماعتوں نے اشرف غنی کی تجویز کو مسترد کردیا اور عبوری حکومت کی ضرروت پر زور دیا تاکہ افغانستان میں پہلے جنگ بندی کی راہ ہموار ہوسکے اور مملکت میں افغان عوام کی خواہش کے مطابق انصرام و انتظام پر اتفاق رائے پیدا کی جاسکے۔استنبول کانفرنس سے قبل افغان امن جرگہ کو 30سے زاید مسودے کی شکل میں موصول ہوچکے ہیں، جب کہ صدر اشرف غنی بھی اپنا امن فارمولا استنبول کانفرنس میں پیش کریں گے، دوسری جانب افغان طالبان کی تجاویز کے بعد ردعمل سامنے آئے گا، اس وقت تک تو افغان طالبان دو اہم نکات پر قائم ہیں، جس میں مئی کے مہینے میں امریکی افواج کا مکمل انخلا اور غنی حکومت کا خاتمہ ہے، غنی انتظامیہ تو امریکی تجویز کو مسترد کرچکی ہے تو دوسری جانب امریکی خفیہ ادارے خدشات ظاہر کرچکے ہیں کہ اگر امریکا نے اپنی افواج کا مکمل انخلا کردیا تو افغان قلیل عرصے میں افغانستان پر قبضہ کرسکتے ہیں، اس لئے مئی کے مہینے میں امریکی افواج کا انخلا مبہم صورت حال کا شکار ہے۔ ماسکو میں افغان امن کانفرنس کے بعد اب ترکی میں افغان امن فارمیٹ پر پیش رفت کا جائزہ بھی لیا گیا۔ روسی وزیر خارجہ کی پاکستان آمد کے بعد جہاں دونوں ممالک کے تعلقات کی بہتری پر مثبت پیش رفت ہوگی تو دوسری جانب استنبول میں مئی سے قبل اہم ترین مذاکرات کے منطقی فارمولے پر اتفاق رائے ہونے کا امکان بھی ہے۔ وزیرِ خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی کا کہنا ہے کہ روس کے وزیرِخارجہ سرگئی لیوروف کے دورہ پاکستان اہمیت کا حامل ہے۔انہوں نے کہا کہ روس اس خطے کا انتہائی اہم ملک ہے، دورہ عکاس ہے کہ روس سے پاکستان کے تعلقات نیا رخ اختیار کر رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ پاک روس تعلقات میں بہتری آ رہی ہے، دیکھ رہے ہیں کہ پاک روس معاشی و دفاعی تعلقات کیسے بڑھ رہے ہیں، نارتھ ساؤتھ گیس پائپ لائن منصوبہ پاکستان اور روس آگے بڑھانا چاہتے ہیں۔