امیدِ بہار رکھ

کاش کہ یہ نکتہ راولپنڈی اور اسلام آباد پہ آشکار ہو کہ مرعوبیت اور مایوسی موت کی پیامبر ہوتی ہیں۔ابو زرینؓ سے روایت ہے:سرکارؐ نے فرمایا اللہ اپنے بندوں کے مایوس ہونے پہ ہنستا ہے جبکہ ان کا حال بہتر ہونے والا ہوتا ہے۔ 1970ء میں نوبل انعام حاصل کرنے والے، نصف درجن سے زیادہ ناولوں کے مصنف،عظیم روسی ادیب Aleksandr Solzhenitsynکوامریکہ ہجرت کرنا پڑی۔اشتراکیت کا سورج نصف النہار پہ تھا۔ دنیا بھر میں ہونے والے سروے یہ بتا رہے تھے کہ کمیونزم فروغ پذیر ہے۔ ریاست ہائے متحدہ پہنچنے پر میزبانوں سے اس نے پوچھاکہ کون سی امریکی ریاست سوویت ماحول سے زیادہ مناسبت رکھتی ہے۔بالاخر ور ماؤنٹ چنی گئی۔ روسی قوم پرستی ضرب المثل ہے۔ سوویت یونین ٹوٹ گیا مگر روس باقی ہے اور ترنوالہ ثابت نہیں ہو سکتا۔ چار عشرے ہوتے ہیں، جب اس اخبار نویس نے روسی قیدیوں کا انٹرویو کیا۔ ان سے پوچھا کہ مسلمان ہوجانے کے باوجود کیا وہ واپس جانا پسند کریں گے؟ ان میں سے ایک کا جواب تھا: ہمارے ہاں کہاوت یہ ہے ’’اپنے وطن میں بھکاری ہونا دیارِ غیر میں بادشاہ بننے سے بہتر ہے‘‘۔روسیوں کو بدترین شکست کا سامنا امیر تیمور کے مقابلے میں ہوا، جس کا لشکر انہیں دریائے والگا تک دھکیلتا چلا گیا۔ نپولین اور ہٹلر سمیت روس کے برف زار کتنے ہی فاتحین کو کھا گئے۔ گیارہ برس سے سرگی لاروف روسی وزیرِ خارجہ ہیں۔گرومیکوکے بعد خارجہ امور میں اہم ترین شخصیت۔ایک اور طرح کے ہنری کسنجر۔ ایک ایک لفظ سلیقہ مندی سے برتنے والے۔ سرزمینِ روس سے تعلقات کے نئے دور کی ابتدا جنرل کیانی کے دورے سے ہوئی تھی، جب سلالہ پر امریکیوں نے بمباری کی۔شدید ترین امریکی دباؤ کے باوجود سات ماہ جنرل نے رسد روکے رکھی اور ماسکو گیا۔سوویت یونین تو ڑ دینے والے جنرل ضیاء الحق کے جانشیں نے روسیوں سے کہا:ماضی کو بدلا نہیں جا سکتا مگر مستقبل روشن کیا جا سکتاہے۔ جنرل راحیل شریف بھی ماسکو گئے لیکن ان دونوں سے زیادہ اہمیت شاید جنرل باجوہ کے دورے کو دی گئی۔خارجہ امور میں دھاگہ جب بھی الجھ جائے تو باجوہ بروئے کار آتے ہیں۔ ایران سے ثمر خیز گفتگو انہی نے کی۔ بعض عرب شہزادوں کے باہمی تنازعات سلجھائے۔ چینی قیادت پاک فوج پہ اعتماد رکھتی ہے۔ کسی بھی لیڈر کی حقیقی شخصیت اور کردار کا تعین مستقبل کے مورخ کیا کرتے ہیں۔جب کسی عہد کے تعصبات تحلیل ہو چکیں۔ جنرل قمر جاوید باجوہ خطابت کا ہنر نہیں رکھتے۔تاریخ سے شغف ضرور ہے مگر فصاحت سے نہیں۔ اردو واجبی ہے، انگریزی قدرے بہتر۔کھل کر بات کرتے ہیں اورلہجے میں اپنائیت۔ پاک چین تعلقات میں جب بھی گرہ پڑی، جنرل ہی کام آیا۔غالبؔ نے کہا تھا جز قیس اورکوئی نہ آیا بروئے کار صحرا مگر بہ تنگی ء چشمِ حسود تھا قیس کی طرح مجنون نہیں، وہ دانا آدمی ہیں۔ ہوا کا رخ پہچان کر مقصود کا تعین کرنے والے۔بھٹو نہ ہوتے تو ایٹمی پروگرام کی غالباًبنیاد ہی رکھی نہ جا سکتی مگر تکمیل جنرل محمد ضیاء الحق نے کی۔ جس طرح میزائل پروگرام میں جنرل عبد الوحید کاکڑ اور ڈاکٹر ثمر مبارک مند کے علاوہ بے نظیر بھٹو کاکردار بھی ہے۔ جیسے کہ یورینیم کی افزودگی میں ڈاکٹر عبد القدیر خان کا۔ موزوں سطح کی افزودہ یورینیم کے بغیر جوہری بم بنانے کی آرزو گوشت کے بغیر قورمہ پکانے کی ہوگی۔ پاک روس تعلقات کی تشکیلِ نو میں جنرل باجوہ کا کردار شاید اتنی ہی اہمیت کا حامل ہے۔ حکم لگانے کا وقت ابھی نہیں آیا۔داستان کا ابھی آغاز ہوا ہے۔کہانی کے کردار مصنف تراشتا ہے لیکن اس کے اختتام کا فیصلہ خود یہ کردار کرتے ہیں، افسانہ نگار نہیں۔ داخلی یا خارجی، سیاست میں فیصلہ کن اہمیت حالات کی ہوتی ہے، افراد کی نہیں۔ابھی یہ طے کرنا مشکل نہیں، ناممکن ہے کہ آنے والا کل کیا لائے گا۔ واضح ہے کہ عمران خان کے دورہ ء ماسکو سے خیر سگالی کے جس موسم کا آغاز ہوا تھا، اس میں اب کونپلیں پھوٹنے کا امکان ہے۔ پیوٹن بہت گرم جوش تھے۔ کراچی کے ساحل سے شمال تک روسی گیس پائپ لائن بچھانے کے لیے تیار ہیں۔ سمندر کے راستے توانائی بہم پہنچانے پر بھی آمادہ۔سوویت یونین کی مدد سے پاکستان سٹیل مل بھٹو نے لگائی، جسے ان کی صاحبزادی اور جناب آصف علی زرداری نے برباد کر ڈالا۔اس وقت یہ فیصلہ کن قدم اٹھایا گیا، پاکستان جب امریکی نخچیر جانا جاتا۔ اب بھی صورت حال مختلف نہیں اور اس کے باوجود مختلف نہیں کہ ریاست ہائے متحدہ اب دنیا کی واحد عالمی قوت نہیں رہی۔پرسوں یہی نکتہ سرگی لاروف نے دہرایا،ہرچند ہندوستان کو بھی عالمی طاقت کہا لیکن اشارہ بیجنگ اور ماسکو کی طرف زیادہ دکھائی دیا۔کشمیر پر کھل کر بات کرنے سے گریز کیا اور یہ قابلِ فہم ہے۔ بھارت روسی اسلحے کا بہت بڑا خریدار ہے۔ماسکو سے نریندر مودی ایس 400میزائل شکن سسٹم خریدنے پر تلے ہیں۔ امریکی مخالفت کے باوجود ترکیہ پہلے ہی حاصل کر چکا۔ طیب اردوان کا تاثر ایک جذباتی لیڈر کا ہے۔ مغربی پریس انہیں سلطان کہتا ہے مگر بادشاہوں کی طرح وہ سہل کوش نہیں۔ تحرک ان میں بہت ہے۔ بیک وقت قوم پرستی اور دینی عقائد کے ہمہ گیر اثرات ان کی شخصیت میں کارفرما ہیں۔ چار برس ہوتے ہیں، میاں محمد نواز شریف نے ان سے جب یہ کہا کہ ترک ڈرامہ ’’میرا سلطان‘‘ وہ پابندی سے دیکھتے ہیں تو اردوان کا جواب ایک لفظ پر مشتمل تھا ’’خرافات‘‘۔یہ سلطان سلیمان ذی شان کی کہانی ہے۔یورپ جسے Sulaiman The Magnificentکہتاہے۔ ترک تاریخ کا سب سے بڑا فاتح۔دنیا بھر کے ٹیلی ویژن پر دکھائے جانے والے اس ڈرامے کی چند ہی جھلکیاں دیکھنے کا موقع ملا۔ تاریخ ساز حکمران سے انصاف نہیں کیا گیا، جس نے ایک درجن سے زیادہ یورپی ممالک تسخیر کیے۔جرنیلوں کے درمیان نہیں، میدانِ جنگ نہیں، بیشتر وقت اسے حرم میں دکھایا گیا۔ 2015ء میں سرزمینِ شام کا رخ کرنے والا ایک روسی جنگی طیارہ ترک فضائیہ نے مار گرایا۔ پیغام یہ تھا کہ ارطغرل سلطان عثمان، سلطان محمد فاتح اور سلطان سلیمان ذی شان کی قوم زندہ سلامت ہے۔ ایک آدھ نہیں، کئی میدانوں میں ترکیہ نے ماسکو کے چراغ سے اپنا چراغ جلانے کی کوششیں کیں۔ مثال کے طور پراجنبی سرزمین میں ترک سائنسدانوں کی مزید تربیت۔جنگی ساز و سامان ڈھالنے اور ایجاد کرنے میں امریکہ سے روس کمتر نہیں۔ روسی قوم پرستی کی وہی بے کراں قوت۔ سرگی لاروف نے بھارت میں چند گھنٹے گزارے اور پاکستان میں دو دن۔دہلی میں انہیں سرد مہری کا سامنا ہوا۔پاکستان میں استقبال پرجوش۔ مدعو تو پیوٹن کیے گئے۔ ان کا کہنا مگر یہ تھا کہ صرف تصاویر نہیں بلکہ ٹھوس اقدامات کے لیے وہ اسلام آباد آ سکتے ہیں۔برف بہرحال پگھلنے لگی ہے۔صدیوں کی غلامی، احساسِ کمتری، احساسِ عدمِ تحفظ، جاگیرداری، ملوکیت کے نتیجے میں مغرب سے مرعوبیت۔ہماری اشرافیہ کی روش نہ ہو تو ماسکو اور بیجنگ سمیت بہت سے دروازے چوپٹ کھل جائیں۔ بھارت تحلیل نہ ہونے والے تضادات میں الجھ گیا۔یہ پہل کاری کا وقت ہے مگر خوئے غلامی۔ نہ شاخِ گل ہی اونچی ہے، نہ دیوارِ چمن بلبل تری ہمت کی کوتاہی تری قسمت کی پستی ہے محض چند لیڈر نہیں بلکہ صدیوں میں مرتب ہونے والا ایک پوری قوم کا مزاج اس کی تقدیر متشکل کرتا ہے۔ کاش کہ یہ نکتہ راولپنڈی اور اسلام آباد پہ آشکار ہو کہ مرعوبیت اور مایوسی موت کی پیامبر ہوتی ہیں۔ابو زرینؓ سے روایت ہے:سرکارؐ نے فرمایا اللہ اپنے بندوں کے مایوس ہونے پہ ہنستا ہے جبکہ ان کا حال بہتر ہونے والا ہوتا ہے۔

Courtesy 92 Roznama