جہلم کی وادیوں میں

تحریر: نوید انجم فاروقی
———————–


سوشل میڈیا پر ایک مینار کی تصویر دیکھ کر جس کیلئے مشہور ہے کہ یہاں بیٹھ کر البیرونی نے زمین کا مرکز نکالا تھا اور جو باغاں والا ضلع جہلم کے نندنا قلعہ میں واقع ہے، خواہش تھی کہ وہاں کا چکر لگا کر دیکھا جائے۔ عاطف شہزاد منیجر سیلز اینڈ مارکٹنگ حمزہ ٹاؤن منڈی بہاء الدین کا تعلق بھی ضلع جہلم کے علاقہ ”پنڈ سوکہ“ سے ہے اور اُس نے وہ جگہ بھی دیکھ رکھی ہے، لہٰذا جب اُس سے بات ہوتی تو کہتا سر جب چاہیں پروگرام بنا لیں چلے جائیں گے۔ مرزا راشد کے ساتھ ایک شادی کے سلسلے میں دارا پور جانا ہوا تو راستے میں اُس نے بھی خواہش ظاہر کی کہ اُس علاقے میں جانا ہے۔


اِس ہفتہ کے دن جب عاطف شہزاد کے آفس میں بیٹھے تھے تو پھر ذکر چھڑ گیا، اُس نے کہا کسی اتوار کا پروگرام بنا لیں، میں نے کہا اتوار تو کل بھی ہے، کیا خیال ہے کل ہی چلیں؟ وہ بولا میں تو تیار ہوں جیسا آپ کہیں، میں نے کہا میں شام تک بتا دیتا ہوں باقی دوستوں سے

پوچھ لوں۔سب سے پہلے مرزا راشد کو فون کیا اُس نے حامی بھر لی۔ میں نے دوپہر کو تصدیق چاہی اُس نے کہا اِس وقت ملکوال میں ہوں شام کو آ کر حتمی طور پر بتاؤں گا۔ شام کو فون آگیا کہ ڈاکٹر مجاہد مغل صاحب کے ساتھ پودے لگانے جانا ہے، وہاں بارہ ایک بج جائے گا اگر آپ انتظار کر سکتے ہیں تو میں بھی چلوں گاورنہ معذرت۔ میں نے کہا پھر کافی دیر ہو جائے گی ہم صبح جلد نکلنا چاہتے ہیں۔آپ پودے لگاؤ ہم جاتے ہیں۔

جلال پور شریف میں ہمارے دوست ہیں راجہ محمد اسحاق جن کی پنڈی سید پور اڈے پر ٹریول ایجنسی ہے، وہ بھی کئی بار اصرار کر چکے ہیں کہ میرے پاس چکر لگائیں چنانچہ اُنھیں بھی فون کیا کہ ہم کل آ رہے ہیں، راجہ صاحب بولے خوش آمدید جب مرضی آئیں۔ پھر ہومیو ڈاکٹر ملک امجد اکرام کو فون کیا وہ بھی تیار ہو گئے لیکن ڈاکٹر آفتاب ”اتوار“ کی مصروفیت کی بنا پر نہ جا سکے۔ یوں ہم تین لوگ عاطف شہزاد، ملک امجد اکرام اور میں اتوار کی صبح دس بجے حمزہ ٹاؤن سے موٹر بائیکس پر روانہ ہوئے اور مصری موڑ تک ناہموار، شکستہ حال سڑکوں پر اُچھلتے کودتے پہنچ گئے۔ جیسے ہی مصری موڑ سے جلال پور شریف کی طرف مڑے میں نے موٹر سائیکل روک لی۔ عاطف نے پیچھے سے آ کر پوچھا کیا ہوا؟ میں نے کہا تمہارے ضلع میں داخل ہو گئے ہیں تصویر لینا تو بنتا ہے۔ یہاں سے ہم نے تصاویر کا سلسلہ شروع کیا جو جگہ جگہ جاری رہا۔ ملک امجد یہاں تک میرے ساتھ موٹر سائیکل پر بیٹھے تھے۔ اُن کی نظر عاطف کے ہنڈا125 کی چوڑی سیٹ پر پڑی تونیت بدل گئی اور بولے میں اُس پر بیٹھتا ہوں اِس طرح اُنھوں نے اپنی سواری اور ڈرائیور بدل لیا اور ہم جلال پور شریف کی طرف روانہ ہوئے۔ یہاں سے سڑک کافی بہتر تھی کہیں کہیں ٹوٹ پھوٹ تھی لیکن زیادہ نہیں تھی۔


رسول بیراج سے نکلنے والی نئی نہر کی تعمیر کا کام تیزی سے جاری ہے۔ کئی جگہوں پر مٹی ڈال کر بیس بنائی جا رہی ہے۔ اور نہر تقریباً سڑک کے ساتھ ساتھ چلتی ہے۔ سڑک کی دائیں جانب موجود پہاڑیوں پر بڑی بڑی مشینیں لگی ہوئی ہیں جو وہاں سے مٹی کھود کر ٹرکوں میں ڈال رہی ہیں جو سڑک کے بائیں کنارے پر بننے والی نہر کیلئے مٹی فراہم کر رہے ہیں۔ آج موسم خاصا خوشگوار تھا، ہلکے ہلکے بادل بن گئے تھے، نرم نرم ہوا چل رہی تھی، کہیں کہیں بادل گہرے بھی ہو جاتے تھے۔ میں نے ملک صاحب سے پوچھا بارش کا امکان تو نہیں؟ اُنھوں نے ”انکل گوگل“ پر چیک کیا اور کہا نہیں صرف بادل ہیں آج بھی اور کل بھی، لہٰذا ہم اطمینان سے آگے بڑھنے لگے۔ جلال پور شریف سے ذرا پہلے عاطف نے ایک سڑک کی جانب اشارہ کر کے بتایا کہ یہ ہمارے گاؤں پنڈ سوکہ جاتی ہے۔ ہم نے کہا کبھی اِدھر بھی جائیں گے۔ جلال پور شریف کے بازار میں ٹریفک کا رش تھا، وہاں سے اِدھر اُدھر گھومتے آگے نکلے، تھوڑی دور جاکر میں نے موٹر سائیکل کے ”بیک مرر“ میں دیکھا تو عاطف کی بائیک نظر نہ آئی، میں نے رفتار آہستہ کر لی اتنے میں ملک امجد کی کال آئی کہ ہم ایک گلی میں مڑ گئے ہیں عاطف نے اپنے کسی دوست سے ملنا تھا آپ انتظار کریں، ہم آتے ہیں۔


میں نے بائیک واپس موڑی اور اندازاً اُس جگہ آ گیا جہاں سے وہ روپوش ہوئے تھے۔ یہاں سڑک کنارے جلالپور شریف کے تھانے کا بورڈ لگا تھا میں اُس کے پاس کھڑا ہو کر انتظار کرنے لگا۔ انتظار کی گھڑیاں طویل ہوئیں تو بے چینی ہونے لگی۔ کچھ دیر بعد موٹر سائیکل پر ایک نوجوان آکر مجھے کہنے گا آپ کو کیبل آفس والے بلا رہے ہیں۔میں بڑا حیران ہوا کہ یہاں مجھے بلانے والے کون ہیں؟ میں نے نوجوان سے پوچھا کون بلا رہا ہے تو اُس نے کہا جن کی ٹانگیں خراب ہیں، یعنی ڈاکٹر ملک امجد اکرام صاحب، اُن کو گھٹنوں کا مسئلہ ہے اِس لئے چلنے میں تکلیف محسوس کرتے ہیں اور چھڑی کا استعمال بھی کرتے ہیں۔ میں اُس نوجوان کے ساتھ روانہ ہوا وہ ایک تنگ گلی میں گھوم گیا جس کی دونوں جانب دکانیں سجی ہوئی تھیں، آگے ایک تنگ سا موڑ کاٹ کر ایک کیبل آفس کے سامنے اُس نے موٹر سائیکل کھڑی کی میں نے بھی اُس کی تقلید کی اور دفتر میں آ گیا، یہاں میرے دونوں ہمسفر تین چار مزید لوگوں کے ساتھ بیٹھے گپیں مار رہے تھے۔ میرا بھی تعارف ہوا، اُنھوں نے کولڈ ڈرنک پیش کی لیکن میں نے معذرت کرتے ہوئے سادہ پانی مانگا، ملک صاحب کے پاس چپس کا لفافہ تھا جو اُنھوں نے میری جانب بھی بڑھایا، یہاں تھوڑی دیر بیٹھے ساتھ ساتھ راجہ اسحاق کا فون بھی آ رہا تھا کہ کہاں پہنچے ہیں میں آفس میں انتظار کر رہا ہوں۔ میں نے عاطف شہزاد سے چلنے کیلئے کہا اور ہم لوگ روانہ ہوئے۔
راجہ اسحاق کی نیو سبحان ایئر ٹریول ایجنسی میں نے پہلے نہیں دیکھی تھی چنانچہ پنڈی سید پور کے اڈے پر جا کر اُسے فون کیا تو اُس نے کہا تھوڑا پیچھے آئیں، دائیں جانب آ پ کو نظر آ جائے گی۔ یہاں مجھے سگھر پور گاؤں کا بورڈ نظر آیا تو یادیں تازہ ہوگئیں عرصہ دراز پہلے ہم کچھ ماہ اِس گاؤں میں بھی رہے تھے۔1971 ء کی جنگ کا زمانہ تھا۔ پھر منڈی بہاء الدین منتقل ہو گئے، اَب کبھی کبھار اِس گاؤں میں جانا ہوتا ہے جو کافی حد تک بدل گیا ہے لیکن یادیں اُسی طرح تازہ ہیں۔ ہم واپس مڑے تو تھوڑی دور نیو سبحان ایئر ٹریول کا بورڈ نظر آ گیا میں نے بائیک کھڑی کی او ر دفتر کے اندر داخل ہوا لیکن وہاں راجہ صاحب موجود نہیں تھے بلکہ کوئی اور لڑکا بیٹھا تھا میں نے پوچھا کہ راجہ اسحاق کی ایجنسی ہے تو وہ بولا جی ہاں، کیا کام ہے؟ میں نے کہا ملنا ہے اُن سے، اتنے میں دکان کے شیشے سے باہر دیکھا تو عاطف اور ملک صاحب اندر آنے کی بجائے دائیں طرف جا رہے تھے۔ میں بھی باہر نکلا تو ساتھ میں موجود پیزا پوائنٹ کے دروازے پر راجہ اسحاق کھڑا مسکرا رہا تھا۔ ہم آگے بڑھے اور سلام دُعا کر کے پیزا پوائنٹ کے اندر بیٹھ گئے جہاں راجہ صاحب پیزا کا آرڈر دے چکے تھے۔ ملک صاحب نے کہا زیادہ تکلف نہ کریں ہم بس چائے پئیں گے، اسحاق بولا وہ بھی مل جائے گی آپ تشریف رکھیں۔


راجہ صاحب نے ہمارے آنے پر شکریہ ادا کیا، عرصے بعد آنے کا شکوہ بھی کیا جو ہم نے قبول کر لیا۔ پھر کاروباری گفتگو بھی ہوئی، عاطف شہزاد ساتھ ساتھ حمزہ ٹاؤن کی مارکٹنگ بھی کر رہا تھا اور ملک صاحب اپنے پلاسٹک کے فرنیچر کے بارے میں معلومات لے اور دے رہے تھے۔ اپنے کاروبار کے بارے میں راجہ اسحاق نے کہا کہ کورونا سے قبل بہت اچھا چل رہا تھا، اَب کافی مشکلات ہو گئی ہیں۔راجہ اسحاق پی ٹی آئی کا بہت بڑا ووٹر
اور سپورٹر رہا ہے لیکن اَب اُس کی گفتگو میں ”مایوسی“ نظر آ رہی تھی وہ حکومتی کارکردگی سے بالکل مطمئن نہیں تھا اور خاص طور پر اپنے ایم این اے فواد چودھری سے نالاں نظر آ رہا تھا جبکہ عاطف اُسے حوصلہ دے رہا تھا کہ کام ہو رہے ہیں جلد ہی سب اچھا ہو جائے گا۔
یہاں سے راجہ اسحاق سے باغاں والا کے متعلق مزید معلومات لیں اور راستہ بھی پوچھا، اتنے میں پیزا آ گیا اور باتوں ہی باتوں میں ختم ہوگیا، ساتھ میں چائے آئی جو پینے کے بعد ہم نے راجہ صاحب کو بھی ساتھ چلنے کی دعوت دی مگر اُنھوں نے کسی اور دعوت پر جانا تھا لہٰذا معذرت کرنے لگے، ہم نے معذرت قبول کی اور رخصت لیکر وہاں سے روانہ ہوئے۔ میں آگے چلا تھوڑی دور گیا تو پس منظر سے عاطف کا موٹر سائیکل پھر غائب ہو گیا۔ میں نے فون نکالا تو دیکھا ملک صاحب کی مس کال تھی، میں نے اُنھیں کال کی تو نمبر مصروف آ رہا تھا۔ تھوڑی دیر بعد میسج آیا کہ بائیک پنکچر ہو گئی ہے، انتظار فرمائیں۔۔۔ میں واپس آیا اور ڈھونڈ ڈھانڈ کر پنکچر والی دکان تلا ش کی جہاں دونوں ”سنگی“موجود تھے۔ پنکچر لگنے کے دوران دکاندار سے ذکر ہوا باغاں والا کا تو اُس نے کہا وہا ں تو بڑی اونچی جگہ چڑھ کر جانا پڑے گا آپ کے ساتھ والا بندہ”ملک صاحب“ تو وہاں نہیں چڑھ سکیں گے۔ عاطف نے بھی کہا موٹر سائیکل وہاں نہیں جا سکے گی پیدل جانا پڑے گا اور ملک صاحب کا چڑھنا دشوار ہے۔جب موٹر سائیکل کو پنکچر لگ چکا تو ہمارا باغاں والا جانے کا پروگرام ملتوی ہو چکا تھا اُس کی بجائے چمکون وادی جانے کا پروگرام بن گیا۔

اس نئے پروگرام کے تحت ہم پنڈی سید پور سے راجہ اسحاق کی ٹریول ایجنسی کے سامنے سے گزرتے ہوئے واپس جلال پور شریف روانہ ہوئے، شہر سے گزر کر ہم اُس مقام پر پہنچے جہاں چمکون وادی روڈ لکھا تھا اور ایک چھوٹی سی سڑک بائیں جانب مڑ رہی تھی۔کارپٹ روڈ تھی جس کی دونوں اطراف پیلی لائین لگی ہوئی تھی اور وہ آگے پہاڑی سلسلے میں بل کھاتی جا رہی تھی۔ بڑا ہی خوبصورت نظارہ تھا، یہاں بادل بھی کچھ گہرے ہوگئے اور ہم موسم کا لطف اُٹھاتے ہوئے آگے بڑھنے لگے۔ راستے میں دائیں جائب ایک عمارت نظر آئی جس کا مین گیٹ بند تھا۔ بورڈ سے معلوم ہوا کہ یہ ”سکندر اعظم کی یادگار“ اور ریسرچ سنٹر ہے جو ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی محنت اور دیگر احباب کی کوششوں سے بنایا گیا تھا اور آج اتوار کی وجہ سے بند تھا۔ ہم نے وہاں رُک کر تصاویر بنائیں اور تاریخی بورڈ پڑھے، مین بورڈ تو موجود تھا لیکن اُس پرلکھی گئی تحریر بڑی مدہم ہو چکی تھی اورانگریزی میں تھی جو بڑی مشکل سے پڑھی جا رہی تھی۔لیکن عاطف اُسے باآواز بلند پڑھ رہا تھا اور ہمارے لئے سہولت پیدا کر رہا تھا، ویسے بھی وہ ہمارے گائیڈ کے فرائض انجام دے رہا تھا اِس لئے یہ بھی اُس کا فرض تھا۔


یہاں سے آگے بڑھے تو سڑک مزید بل کھانے لگی اور مناظر مزید حسین ہو گئے۔ ایک جگہ باقاعدہ پہاڑ کو کاٹ کر بیچ میں سے سڑک گزاری گئی تھی اور یہاں زبر دست قسم کی چڑھائی تھی، ہمارے آگے ایک چنگ چی رکشہ چار سواریاں لیکر جارہا تھا اور بڑی مشکل سے اُوپر چڑھ رہا تھا، مجھے اپنے چنگ چی موٹر سائیکل پر بھی شک گزرا کہ شاید یہ بھی جواب نہ دے جائے اُس پر عاطف نے عین چڑھائی کے بیچ بریک لگائی اور اِس پہاڑی کے بارے میں تفصیلات بتانے لگا کہ یہ پہلے کافی اُونچی تھی پھر اِس کو تراش کر چھوٹا کیا گیا اور اِس کے درمیان سے سڑک گزاری گئی ہے۔ یہاں سے چلے تو میرا موٹر سائیکل کمال مہارت سے نہ صرف یہ چڑھائی عبور کر گیا بلکہ آگے ہی آگے بڑھتا چلا گیا۔ عاطف نے راستے میں بتایا کہ اِس وادی میں چار گاؤں آباد ہیں جن کی نسبت سے اِسے چمکون وادی کہتے ہیں۔ یہ وادی بڑی خوبصورت تھی جس میں کہیں پہاڑ دور ہوتے تو کھلے میدان میں فصلیں لہراتی ہوئی دکھائی دیتیں، کہیں سڑک کے ساتھ ساتھ پھولدار پودے نظر آتے اور کہیں آبادی آ جاتی۔ ایک جگہ بہت پرانا برگد کا درخت تھا جس کے آس پاس پتھر لگا کر چبوترہ بنایا گیا تھا جس پر چار پائیاں بھی بچھی ہوئی تھیں۔ عاطف نے بتایا کہ یہ درخت بہت قدیم ہے اور جب لوگ یہاں پیدل سفر کیا کرتے تھے اُس وقت یہ آرام کرنے کیلئے مقام بنایا گیا تھا جو ابھی تک قائم ہے۔
سڑک کنارے تھوڑی دیر بعد نیلے رنگ کا بورڈ آویزاں نظر آتا جس پر گاؤں کا نام لکھا ہوتا۔ ایک جگہ جاکر سڑک بائیں جانب گھوم گئی لیکن عاطف نے موٹر سائیکل سیدھے جاتے کچے راستے پر ڈال لی اور میں اُس کے پیچھے پیچھے چلتا گیا۔ راستہ کچا اور اُونچا نیچا تھا، ہم ہچکولے کھاتے ہوئے آگے ہی آگے جا رہے تھے اور معلوم نہیں تھا کہاں جا رہے ہیں۔ آگے ریت کا ایک دریا سا آگیا جس کے بارے میں عاطف نے بتایا کہ یہ برساتی نالہ”بنہاں“ ہے جو عام طور پر سوکھا رہتا ہے لیکن بارشوں کے موسم میں دریا کہ طرح بہتا ہے اور اس طرف کا رابطہ اُس طر ف سے کٹ جاتا ہے۔ نالے میں ریت کے اندر سے گزرنا مشکل ہو رہا تھا لیکن عاطف کمال مہارت سے ملک صاحب سمیت موٹر سائیکل کو سنبھال کر چلا رہا تھا۔ بیچ میں ایک جگہ پانی بھی بہہ رہا تھا جس کی چوڑائی آٹھ دس فٹ تھی لیکن محض چار چھ انچ گہرا تھا اور ہم آسانی سے اُس کے اندر سے گزر گئے۔ وہاں ایک فیملی پکنک منا رہی تھی، ہم آگے بڑھ گئے، آگے بھی ایک دو جگہوں پر اِسی طرح سے پانی گزر رہا تھا۔ کچھ مزید آ گے چلنے کے بعد دور پہاڑی پر ایک گاؤں کے مکانات نظر آ نا شروع ہوئے تو عاطف نے بتایا یہ ہمارا پنڈ سوکہ ہے۔
راستے میں نالہ بنہاں کے اندر ہی ایک مزار دکھائی دیا۔ عاطف نے بتایا کہ یہ زندہ پیر کا مزار مشہور ہے، سالانہ عرس بھی منایا جاتا ہے اور لوگ دور دور سے یہاں آتے ہیں۔ برسات کے دنوں میں جب نالہ بھر جاتا ہے تو بھی پانی اِس مزار کو کوئی نقصان نہیں پہنچاتا بلکہ دور دور رہتا ہے، یہ بھی پیر صاحب کی کرامت ہے۔
ہم بالآخر نالے عبور کرنے میں کامیاب ہوئی تو سامنے اُونچی پہاڑی تھی جس پر ٹوٹی پھوٹی چھوٹی سی سڑک نظر آ رہی تھی اور ہمیں اِس کے اُوپر چڑھنا تھا۔موٹر سائیکلوں کی ہمت کہ وہ اِس دراز قد پہاڑی پر چڑھ گئے آگے سڑک کنارے ایک کتبہ لگا تھا عاطف نے وہاں بائیک روک لی اور بتایا کہ پہلی جنگ عظیم میں یہاں ہمارے گاؤں سے انگریز کی فوج میں بھرتی ہو کے لوگ گئے تھے جن کے اعزاز میں اُس وقت کی حکومت نے یہ کتبہ یہاں آویزاں کروایا ہے، یہاں ہی بہت پرانے قبرستان کے آثار بھی موجود تھے جن کے بارے میں مشہور ہے کہ سکندر اعظم کے وقت کی قبریں ہیں۔ میں نے غور کیا کہ قبروں کا کوئی ایک خاص رُخ نہیں تھا بلکہ مختلف سمتوں پر بنی ہوئی تھیں۔کچھ چبوترہ نما تھیں لگتا تھا کہ قبریں بھی مرتبے کے حساب سے بنی ہوئی ہیں۔ یہاں سے اُوپر گاؤں کی آبادی تھی اور نیچے دور تک نالہ بنہاں کی ریت ہی ریت نظر آ رہی تھی۔ عاطف نے کہا کہ یہاں سے واپسی ہم دارا پور کی طرف سے کریں گے۔
اُس چڑھائی سے نیچے اُتر کر ہم ایک مرتبہ بھی نالہ بنیاں کی ریت میں داخل ہو گئے۔ دربار کے پاس سے گزرنے لگے تو عاطف نے پوچھا اندر چلیں گے؟ میں نے کہا چلتے ہیں اور ہم نے موٹر سائیکلوں کے رُخ دربار کی طرف کئے یہاں ریت زیادہ تھی اور بڑی مشکل سے موٹر سائیکل کو بیچ میں سے نکال کر لائے۔
دربار کے باہر چاردیواری بنی ہوئی تھی اور دروازے کے باہر تین نلکے (ہینڈ پمپ) اور تین پرانی وضع کے طہارت خانے بنے ہوئے تھے جہاں اینٹوں پر بیٹھنے کا انتظام تھا۔ اندر عاطف کو کچھ ”گرائیں“ مل گئے اور میں دربار کی طرف بڑھا۔ دربار ایک اُونچے چبوترے پر تھا جہاں چڑھنے کیلئے آٹ دس سیڑھیاں چڑھنا پڑتی تھیں اِ ن سیڑھیوں اور دربار کے چبوترے پر ماربل لگا ہوا تھا۔ اوپر چڑھیں تو بائیں جانب مزار اور دائیں جانب


چھوٹی سی گول مسجد بنی ہوئی تھیں۔ میں وقت دیکھا دو بج رہے تھے چنانچہ فیصلہ کیا کہ ظہر کی نماز پڑھ لیتے ہیں۔ اِس خیال سے میں نیچے اُترا اور باہر کی جانب گیا جہاں نلکے لگے ہوئے تھے۔ میں نے موبائل فون کو جیب سے نکال کر نلکے کے ساتھ کھڑے موٹر سائیکل پر رکھا اور آستین چڑھا کر وضو کرنے لگا۔ اِس دوران وہاں دو تین موٹر سائیکلوں پر چار پانچ لڑکے آ کر دوسرے نلکوں پر ہاتھ منہ دھونے لگے۔ میں نے وضو کیا اور پانی جھاڑتا ہوا اندر چلا گیا، وہاں سے مسجد والی سیڑھیوں کا فاصلہ چالیس پنتالیس گز کا ہو گا میں نے شوز اُتارے اور اُوپر مسجد کی طرف بڑھا جیسے ہی میں مسجد میں داخل ہونے لگا تو خیال آیا کہ میں موبائل تو باہر ہی چھوڑ آیا ہوں، جلدی سے واپس سیڑھیاں اُترا شوز کی بجائے وہاں کسی کی پڑی ہوچپل پہنی اور جلدی سے باہر کی طر ف لپکا۔ ملک صاحب نے پوچھا نماز پڑھ لی میں نے کہا نہیں موبائل فون باہر رہ گیا ہے اور جلدی سے بھاگ کر باہر کی طرف گیا یہ سوچتے ہوئے کہ وہ لڑکے موبائل نہ لے جائیں۔ لیکن جیسے ہی میں باہر کے دروازے تک پہنچا اُن میں سے ایک لڑکا میرا موبائل فون لیکر اندر آ رہا تھا اُس نے مجھے پکڑاتے ہوئے کہایہ آپ باہر ہی بھول گئے تھے۔

میں نے اُس سے فون لیا تو اطمینان ہوا۔ عاطف بڑے ناز سے کہنے لگا سر یہ پنڈ سوکہ ہے یہاں چیز چوری نہیں ہوتی۔ میں مسکرا کر مسجد کی طرف بڑھ گیا، نماز اور دربار ہر دُعا مانگنے کے بعد نیچے آیا تو ملک صاحب بھی وضو کر کے آ رہے تھے لیکن وہ سیڑھیاں نہیں چڑھ سکتے تھے اِس لئے احاطے میں کٹے ہوئے درختوں کے تنے پڑے تھے اُن پر بیٹھ کر نماز ادا کی۔
اِس دوران میں اور عاطف پنڈ سوکہ کے اُن لڑکوں کے پاس کھڑے ہو کر باتیں کرنے لگے جو دربار آمد پر عاطف سے ملے تھے۔ اُنھوں نے بڑا زور لگایا کہ کھانا کھا کر جائیں لیکن ہم نے معذرت کی اور اجازت لیکرروانہ ہوئے۔ریت کا دریا عبور کیا اور اللہ کاشکر ادا کیا جب پکی سڑک نظر آئی۔ یہاں بھی آس پاس کھیتوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔خلاصپور سے گزرے تو عاطف نے یہاں اپنا کالج دکھایا جہاں وہ گاؤں سے پیدل آ کر تعلیم حاصل کرتا رہا تھا۔ بجوالہ پہنچے تو ملک امجد صاحب نے چائے کی فرمائش کی ہم ایک چائے خانے پر رُکے، اُس کے پاس سموسے بھی تھے جو ہم نے چائے کے ساتھ نوش فرمائے۔دارا پور تک تمام سارا راستہ اچھی سڑک بنی ہوئی تھی لیکن جیسے ہی دارا پور سے مین روڈ پر آئے تو وہی ٹوٹ پھوٹ سامنے آئے جہاں مٹی کا غبار تھا اور ہچکولے تھے۔ بہر حال ہم بخیریت وہاں سے مصری موڑ پر پہنچ کر منڈی بہاء الدین کی جانب مڑے اور جیسے ایک گول چکر ہو گیا صبح یہاں سے ہم جلالپور شریف کی طرف گئے تھے اور واپس دوسرے راستے سے ہو کر پھر سے مصری موڑ پر پہنچ گئے تھے۔ یہاں سے منڈی بہاء الدین کا راستہ زیادہ تھکا دینے والا اور ناہموار تھا حمزہ ٹاؤن اسٹاپ پر عاطف نے ایک مرتبہ پھر ملک صاحب کو میرے
حوالے کیا اور خود دفتر کی جانب چلا گیا اور ہم اپنے اپنے گھر کو روانہ ہوئے۔