قومی سیاست میں نواز شریف کا پلڑا جھکا ہوا ہے

پاکستان کی قومی سیاست میں نواز شریف کا رول اگر محترمہ بےنظیر بھٹو سے زیادہ نہیں تو شاید کم بھی نہیں ہے۔ سچائی یہ ہے کہ ان کا پلڑا جھکا ہوا ہے، وہ اس ملک کے تین مرتبہ وزیراعظم ہی منتخب نہیں ہوئے، قائدِ حزب اختلاف کی حیثیت سے بھی ان کا کردار اہم رہا ہے جس پر بحث ہو سکتی ہے۔ ان پر شدید اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ سے بنا کر نہیں رکھتے جس کی وجہ سے انہیں نہ صرف محرومِ اقتدار ہونا پڑا بلکہ جیلوں، جلاوطنیوں اور مختلف نوعیت کی اذیتوں سے بھی گزرنا پڑا، بالخصوص کرپشن کے شدید ترین اور اذیت ناک الزامات سہنے ہی نہیں پڑے بلکہ ان کا سامنا بھی کرتے چلے آ رہے ہیں۔ نواز شریف پر یہ اعتراٗض بھی بنتا ہے کہ انہوں نے اپنے ادوارِ زوال ہی نہیں، دورِ عروج میں بھی اپنی پارٹی کو جمہوری تقاضوں کے مطابق کبھی منظم کرنے کی سنجیدہ کاوش نہیں کی۔ ان کا اسلوب ایک جمہوری مدبر کی بجائے بالعموم شخصی حکمرانی کا رہا۔ ان کی نوازشات کا معیار بھی کافی حد تک ذمہ دار جمہوری قائد کی بجائے شخصی حکمرانوں یا شہزادوں جیسا رہا ہے۔ ان کی سیاسی سوجھ بوجھ کسی طرح بھی ایک معیاری سیاستدان سے کم نہیں لیکن عوامی سطح پر بالعموم یہی تاثر پھیلا کہ وہ ٹیڑھی راہوں کا ایک سیدھا مسافر ہے جو چالاکیاں یا باریکیاں نہیں سمجھتا۔ اس میں جتنی حقیقت ہے اتنی اضافت بھی ہے۔ جہاں تک اس اعتراض کا تعلق ہے کہ نواز شریف اسٹیبلشمنٹ سے بنا کر نہیں رکھتے، اگر حقیقت پسندی اور پاکستان کی معروضی حکمرانی و سیاست کے تناظر میں جائزہ لیا جائے تو درویش کی نظروں میں ان کی یہی بظاہر سب سے بڑی خامی درحقیقت ان کی عظمت ہے جو انہیں بڑے قومی و جمہوری قائد کے رتبے پر فائز کرتی ہے۔ اگر وہ موقع پرست سیاستدان ہوتے تو دیگر خوشامدیوں یا کٹھ پتلیوں کی طرح آج بھی اس ملک کے وزیراعظم ہوتے۔ پرویز مشرف کے دستِ راست سابق وزیر داخلہ فرماتے ہیں کہ نواز شریف چوتھی مرتبہ بھی وزیراعظم ہوتے اگر وہ طاقت کے اشاروں کو سمجھتے۔ یہ درست ہے کہ کسی بھی سیاستدان میں چاہے کتنی ہی خامیاں اور کوتاہیاں کیوں نہ ہوں، اسے کسی صورت اکھڑ مزاج اور بےلچک نہیں ہونا چاہئے کیونکہ یہ ’’اوصافِ حمیدہ‘‘ آمر ذہنیت کیلئے خاص ہیں لیکن ساتھ ہی کسی بھی سیاستدان کو بےاصولا بھی نہیں ہونا چاہئے، آپ لچک ضرور دکھائیں لیکن اپنے بنیادی اصولوں پر قائم رہتے ہوئے یہاں تو ماشاء اللہ ایسے موقع پرستوں کی کمی نہیں جو خود کو سیاستدان منوانے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگاتے ہیں مگر اپنے بنیادی موقف میں180کے زاویے کا یوٹرن لیتے ہوئے ذرا بھی لاج یا شرم محسوس تک نہیں کرتے۔

طاقت کا سرچشمہ کوئی اور نہیں عوام ہیں، جمہوریت کے اس بنیادی اصول کو یہاں ایک نعرے کے طور پر خوب استعمال کیا گیا مگر اس کی معنویت اور تقاضوں پر سوائے نواز شریف اور محترمہ کے شاید ہی کسی نے دھیان دیا ہو۔ ایشو اس ملک کی خارجہ پالیسی کا ہو یا داخلی بنیادی عوامی مفادات کا، ایک منتخب جمہوری عوامی رہنما کی حیثیت سے بات کرتے ہوئے نواز شریف نے ضیاالحق کے مشن سے پیچھا چھڑوانے کے بعد عسکری سربراہان سے بات کرتے ہوئے ہمیشہ اپنی اس حیثیت کو پیش نظر رکھا۔ ایک عملی سیاستدان کی حیثیت سے انہوں نے بہت سے مواقع پر بلاشبہ محترمہ کی طرح کمپرومائز کرنے کی کاوشیں ضرور کی ہیں۔ بہت سے مواقع پر انتہائی ناروا تقاضوں کو کڑوے بلکہ زہرکے گھونٹ سمجھ کر پی گئے، محض یہ سوچ کر کہ عوام نے انہیں جس محبت بھرے مینڈیٹ سے نوازا ہے۔ اس کا تقاضا ہے کہ مضبوط جمہوریت کے ساتھ ساتھ عوامی خدمت کے ایجنڈے کی تکمیل کر سکوں اور آنے والے چنائو میں عوام کے سامنے سرخرو ہو سکوں، مگر ہر چیز کی ایک حد ہوتی ہے کوئی بھی بااصول انسان جس سے نیچے نہیں جا سکتا۔ان حالیہ برسوں میں نواز شریف کو بحیثیت قومی و جمہوری قائد جتنی بھی اذیتوں، تکلیفوں، دکھوں اور مصیبتوں سے گزرنا پڑا ہے ان کی تفصیلات بڑی درد ناک ہیں لیکن انہیں یہ کریڈٹ ضرور جاتا ہے کہ انہوں نے استقامت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے اس دعوے کو کہ اب میں روایتی کی بجائے جمہوری انقلابی سوچ کا حامل بن چکا ہوں درست ثابت کر دیا ہے۔ نواز شریف کا بیانیہ ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ اب بڑی حد تک غیر متنازع عوامی بیانیہ بن چکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ڈسکہ میں دھاندلی کی جو روایتی مشق کی گئی ہمارے میڈیا نے بلاتفریق اس میں شاندار اصولی وجمہوری رول ادا کیا۔نواز شریف اور ان کی ’’جمہوری تحریک‘‘ کے لئے یہ بات باعث اطمینان ہونی چاہئے کہ ان پر جتنی بھی الزام تراشیاں کی گئی تھیں وقت کے ساتھ ساتھ وہ دھلتی چلی جارہی ہیں۔جھوٹا پروپیگنڈہ ایک ایسا زہریلہ سانپ ہے جو بڑی بڑی سچائیوں کا حلیہ بگاڑ کر انہیں مسخ کر دیتا ہے، کئی سچے لوگ موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں لیکن پروپیگنڈے کے طوفان میں خود کو سچا ثابت نہیں کر پاتے۔نواز شریف قسمت کے دھنی ہیں جو انہیں اپنی زندگی میں ہی خود کو سچا ثابت کرنے کے مواقع پیدا ہو رہے ہیں۔ ایون فیلڈ کے45 لاکھ انہیں مبارک۔ امید ہے وہ اس رقم سے کسی پسماندہ علاقے میں ڈسپنسری بنوا دیں گے۔ اس تمامتر استقامت اور جدوجہد میں ان کے لئے سب سے بڑھ کر شکر و سپاس کا باعث ان کی باصلاحیت بیٹی محترمہ مریم نواز ثابت ہوئی ہیں۔ (جاری ہے)
————————————-
افضال ریحان
———————-
https://jang.com.pk/news/908705