سہاگ رات کو لاپتہ نوجوان ’پریشانی کی وجہ سے غائب ہوا تھا‘

فرحان نے عدالت کو بتایا کہ پہلی رات انھوں نے گھر کے قریب ندی کے کنارے سردی کی رات ایک چادر میں گزاری اور اگلے دن پشاور چلے گئے۔

اس کے بعد 26 دن تک وہ مختلف گاڑیوں میں سفر کرتے رہے اور مختلف اضلاع میں راتیں گزارتے تھے۔
———–

اظہار اللہ
———
یہ آٹھ مارچ کا دن تھا جب فرحان خان (فرضی نام ) چار سال بعد بیرون ملک مزدوری کرنے کے بعد شادی کے لیے گھر واپس آئے۔

ان کی شادی میں کئی لوگ شریک تھے، رخصتی اور اگلے دن ولیمہ بھی ہوگیا جس میں رشتہ داروں سمیت گاؤں کے لوگوں نے شرکت کی۔

فرحان کے والدین اتنے خوش تھے جس طرح ایک بیٹے کی شادی میں والد اور والدہ خوش ہو سکتے ہیں اور بچوں کی شادیاں آنکھوں سے دیکھنا ہر ایک والد کا ارمان ہوتا ہے۔

آٹھ مارچ کو ولیمے کی تقریب منعقد ہوئی اور علاقائی روایت کے مطابق اسی رات دلہن کے ساتھ ان کے گھر سے آئی ہوئی سہیلیوں اور رشتہ داروں نے وقت گزارا ۔

اگلے دن دلہا فرحان اپنے دوستوں کے ساتھ رات گئے تک بیٹھے گپ شپ لگاتے رہے اور شادی کی خوشی میں میوزک کا اہتمام بھی کیا گیا تھا تاہم رات کے تقریباً 12 بجے گھر والوں کو پتہ لگا کہ فرحان گھر میں نہیں ہے اور نہ اپنے کمرے میں دلہن کے سے ملنے گئے ہیں۔

اس کے بعد تقریبا 26 دن تک وہ ‘لاپتہ’ تھے۔

گھر کا ماحول یکسرتبدیل ہوگیا۔ کچھ لمحے پہلے جس گھر میں خوشی کا سماں تھا وہ غم میں بدل گیا اور فرحان کے والد نے رشتہ داروں کو اطلاع دی کہ فرحان ‘ لاپتہ’ ہوگیا ہے۔ فرحان کے والد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا ،’ ہم ایک متوسط گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں اور دو سال پہلے اس علاقے میں گھر خرید کر شفٹ ہوگئے تھے۔ لاپتہ ہونے کے بعد ہمیں سمجھ نہیں آرہا تھا کہ ایسا کیا ہو گیا کہ میرے بیٹے کو کسی نے اغوا کیا یا وہ کیسے لاپتہ ہوگیا۔’

انھوں نے بتایا کہ پہلی بات تو ہمارے ذہن میں یہ آئی کہ انھوں نے خود اس شادی کے لیے سعودی عرب سے رقم بھیجی تھی جس سے ہم نے شادی کے تمام انتظامات مکمل کیے تھے اور باہر سے گھر واپس آ کر انھوں نے شادی کی تقریب میں شرکت کی لیکن اس کے باوجود وہ دلہن سے ملے بغیر گھر سے غائب ہو گئے۔

مزید پڑھیے

‘ابو دوسری شادی کے بعد زندگی کی طرف لوٹ آئے’

خوشگوار شادی میں مخصوص جین کا ہاتھ

مردوں کی ایک سے زائد شادیاں خواتین کے ساتھ ناانصافی: امام جامعہ الازہر

خیبر پختونخوا میں شادی کی کم از کم عمر 18 سال کی جائے، سول سوسائٹی تنظیموں کا مطالبہ
فرحان کے والد نے قریبی پولیس سٹیشن میں بیٹے کی گمشدگی کا مقدمہ درج کروایا اور پولیس نے ان کی تلاش شروع کر دی۔ ساتھ میں گاؤں کے لوگ بھی فرحان کو روزانہ قریبی علاقوں میں ڈھونڈنے کی کوشش کرتے رہے تاہم 26 دن تک کوئی سراغ نہیں ملا۔

فرحان کے والد نے بتایا کہ یہ 26 دن ان کے گھر والوں پر قیامت کی طرح گزرے۔ ‘دعائیں کیں، ختم القران اور ساتھ میں ہم نوافل بھی ادا کرتے رہے کہ بیٹا دوبارہ ان کو مل جائے۔ دلہن اور ان کے گھر والے بھی شدید کرب میں تھے کہ کس طرح نئی نویلی دلہن کو چھوڑ کر دلہا فرحان اچانک غائب ہو گیا۔’

گذشتہ ہفتے سوشل میڈیا پر اس واقعے کے حوالے سے مختلف ویڈیوز سامنے آئیں اور عوامی حلقوں نے پولیس سے تفتیش کا مطالبہ کیا کہ فرحان کو جلد از جلد ڈھونڈ لیا جائے اور یوں چار اپریل کو پولیس نے فرحان کو ضلع مردان سے برآمد کر لیا۔

کیا فرحان خود گئے تھے؟

قریبی پولیس سٹیشن کے ڈپٹی سپرانٹینڈنٹ امیر زیب نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ فرحان کو کسی نے اغوا کیا تھا اور نہ اس کے ساتھ کوئی واقعہ پیش آیا تھا بلکہ وہ خود شادی کی رات گھر سے نکل کر چلے گئے تھے اور پولیس نے فرحان کا سراغ لگا کر ان کو اپنے گھر والوں کے حوالے کر دیا ہے۔

امیر زیب سے جب پوچھا گیا کہ گھر سے چلے جانے کی وجہ کیا تھی تو اس کے جواب میں انھوں نے بتایا کہ فرحان نے عدالت کو اپنے بیان میں بتایا ہے کہ شادی کی وجہ سے انہیں ذہنی پریشانی تھی جس کی وجہ سے وہ شادی کی رات گھر سے نکل کر چلے گئے اور 26 دن تک غائب تھے۔

زیب نے بتایا، ’فرحان نے عدالت کو بتایا کہ پہلی رات انھوں نے گھر کے قریب ندی کے کنارے سردی کی رات ایک چادر میں گزاری اور اگلے دن پشاور چلے گئے۔ اس کے بعد 26 دن تک وہ مختلف گاڑیوں میں سفر کرتے رہے اور مختلف اضلاع میں راتیں گزارتے تھے۔ راولپنڈی سمیت ضلع دیر، سوات ، پشاور اور مردان میں انھوں نے قیام کیا ہے۔‘

فرحان کے گھر میں اب دوبارہ خوشی کا سماں ہے۔ گاؤں کے لوگ ان کے والدین کو مبارک باد دینے آتے ہیں اور بیٹے کو دوبارہ واپسی پر ان کے ساتھ خوشی کا اظہار کرتے ہیں۔ فرحان نے میڈیا کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ان کو کچھ گھر میں کچھ پریشانی تھی جس کی وجہ سے وہ گھر سے چلے گئے تھے اور اب واپس آ گئے ہیں۔

فرحان نے بتایا، ’میں علاقے کے لوگوں کا مشکور ہوں کہ انھوں نے اتنی محبت دی اور تمام رشتہ داروں سے اپنے کیے پر معافی بھی مانگتا ہوں کہ میں نے ان کا دل دکھایا۔‘ فرحان کے والد کے مطابق فرحان کو کچھ ذہنی مسئلہ پیدا ہوگیا ہے اور جلد ہی ان کا علاج کروا لیا جائے گا لیکن وہ اس بات پر خوش ہیں کہ فرحان واپس گھر آ گئے ہیں۔

شادی سے ڈر کتنا عام مسئلہ ہے؟

فرحان نے یہ واضح نہیں کیا ہے کہ ان کو بنیادی طور کیا مسئلہ تھا اور انہیں گھر میں کس قسم کی پریشانی تھی، تاہم ماہرین کے مطابق اگر دیگر گھریلو مسائل نہ ہوں تو شادی سے ڈر محسوس کرنا ایک عام بات ہے۔

ڈاکٹر اعزاز جمال مردان میڈیکل کمپلیکس میں شعبہ نفسیات میں خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔ انھوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ شادی کی رات سے ڈر اور اس سے جڑا ذہنی دباؤ معاشرے میں بہت عام ہے اور یہ زیادہ تر معاشرے میں موجود لوگوں کی جانب سے بنائے ہوئے مفروضوں کی وجہ سے ہے۔

ڈاکٹراعزاز نے بتایا کہ اس میں بہت عام مسئلہ شادی کی رات خوف اور ذہنی دباؤ محسوس کرنا ہے جس میں دلہا کو یہ بتایا گیا ہوتا ہے کہ شادی کی پہلی رات بہت مشکل عمل ہے۔ یہ ایک قدرتی عمل ہے اس میں کسی قسم کا مشکل نہیں ہے، تاہم معاشرے کے اندر لوگوں کی جانب سے اس کے ساتھ مخلتف باتیں جوڑی گئی ہیں جو حقائق کے منافی ہیں۔

اعزاز کے مطابق انہی مفروضوں کی وجہ سے بعض لوگ ذہنی دباؤ کا شکار ہو جاتے ہیں اور یہی دباؤ بڑھ کر ڈپریشن تک پہنچ جاتا ہے جس کے بعد ایسے لوگوں کی ہم تھیراپی کرتے ہیں اور کچھ عرصے بعد وہ بالکل نارمل زندگی بسر کرنا شروع کر دیتے ہیں۔

یہ سارے مفروضے ڈاکٹر اعزاز کے مطابق جب انسان کے ذہن میں آ جاتے ہیں تو اگر وہ جنسی طور پر بالکل صحت مند بھی ہو تو وہ شدید ذہنی دباؤ کا شکار ہو جاتا ہے۔

…………………………………………………………………………………………….

نوٹ: پرائیویسی کی وجہ سے خبر میں افراد اور جگہوں کے نام تبدیل کر دیے گئے ہیں۔
https://www.independenturdu.com/node/64361/farhan-who-was-missing-first-night-wedding