فخر پاکستان۔سینئر کالم نگار محمد مبشر انوار

محمد مبشر انوار لاہور میں پیدا ہوئے،مغل خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کے اسلاف آزادی کے بعد جالندھر سے ہجرت کر کے پاکستان آئے تھے۔ کلاس ہشتم سے دہم تک والد مرحوم کی زیر نگرانی تعلیم حاصل کی۔ میٹرک کرنے کے بعد گورنمنٹ اسلامیہ کالج سول لائنز سے بی ایس سی کی،نیشنل کالج آف کمپیوٹر سائنسز سے کمپیوٹر ڈپلومہ کرنے کے بعد پروفیشنل کیرئیر کا باقاعدہ آغاز 1990میں ایک نجی ادارے میں بطور ڈیٹا انٹری آپریٹر سے کیا۔ پنجاب لاء کالج سے وکالت کا امتحان پاس کیا،ایسٹرن کالج آف مینیجمنٹ سائنسز سے ایم بی اے کیا۔وکالت کی تعلیم کے دوران محترم جناب سید منصور علی شاہ صاحب،جناب ظل عاطف کی خصوصی شفقت شامل حال رہی۔ دو سال تک ملک کے معروف قانون دان (حالیہ عدلیہ سے وابستہ)کے ساتھ وکالت کی پریکٹس بھی کی،اس دوران مختلف کالجز میں جز وقتی طور پر کارپوریٹ لاء کی تدریس سے بھی منسلک رہے۔پاکستان کے معاشی حالات سے ہجرت کرنے کی کوششیں بھی جاری رکھی۔ تب کے ادارہ ریونیو کے سربراہ معین الدین خان مرحوم کی تعیناتی عرب نیشنل بنک میں ہوئی تو وہی مبشر انوار کو سعودی عرب لے آئے۔اس ضمن میں جناب قمر زمان خان کا خصوصی دست شفقت بھی رہا،جن سے آج بھی پاکستان انکی ملاقات رہتی ہے۔
جیوے پاکستان سے خصوصی گفتگو میں معروف کالم نگار جناب مبشر انوار صاحب نے کہا
‎صحافت زندگی کا آغاز اوائل عمری ہی میں ہوا۔ ارشاد احمد حقانی مرحوم،منو بھائی مرحوم،حسن نثار،عطاالحق قاسمی،نذیر ناجی اور عبدالقادر حسن مرحوم جیسے کالم نگاروں کو غور سے پڑھنے اور حالات پر غورو فکر نے قلم اٹھانے پر اکسایا۔ پہلا کالم 1996میں پاکستان میں شائع ہوا۔ لکھنے کے شوق کی باقاعدہ تکمیل یہاں سعودی عرب میں پوری ہوئی۔ باقاعدہ لکھنے کا آغاز اردر پوائنٹ ڈاٹ کام سے کیا۔ پہلی تحریر 11ستمبر2001کو اردو پوائنٹ پر شائع ہوئی۔ اس دوران مزید تعلیم کے لئے انگلینڈ کا سفر بھی کیا۔ سعودی عرب واپس آنے کے بعد یہ تعلق دوبارہ استوار ہوا گو کہ اس دوران بھی وقتا فوقتا تحاریر شائع ہوتی رہی۔مبشر انوار صاحب نے دوران گفتگو کچھ اشخاص کا خاص طور پر نام لیتے ہوئے کہا میں محمد اکرم فضل کا ذکر کرنا نہایت ضروری سمجھتا ہوں،جنہوں نے ان پیج سوفٹ وئیر پر مجھے تربیت دی۔ میں گل محمد بھٹہ مرحوم کا بھی مشکور ہوں جن کے توسط سے میری تحاریر نوائے وقت میں محترم جناب عرفان صدیقی کے زیر سایہ شائع ہوتی رہیں۔
‎محمد مبشرانوار نے معاشرے کے رجحانات کے بارے میں کہا کہ اچھے برے لوگ ہر شعبہ ہائے زندگی میں پائے جاتے ہیں۔ صحافت میں بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو اپنی ذات کو برتر اور اہم سمجھتے ہیں۔ دوسروں کو موقع دینے سے گریز کرتے ہیں اوراگر کوئی اپنی اہلیت کی بنیاد پر اپنا مقام بنانے میں کامیاب ہونے لگتا ہے تو اس کی ٹانگیں کھینچنا اپنا فرض اولین سمجھتے ہیں، تاہم میرا کامل ایمان ہے کہ عزت و ذلت اللہ رب العزت کے ہاتھ میں ہے۔وہ جسے چاہے عزت کے بلند مقام سے سرفراز فرمائے اور جسے چاہے ذلت کی پستیوں میں دھکیل دے۔ حاسدین کے حسد سے اللہ کریم سب کو محفوظ فرمائیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ اللہ پر توکل کرتے ہیں،انہیں ایسے حاسدین سے فرق نہیں پڑتا البتہ ایسے حاسدین کی وجہ سے اللہ کی عنایات مزید بڑھ جاتی ہیں بشرطیکہ بندے کا ایمان کامل ہو۔عملی زندگی کے اصولوں کو لاگو کرکے ہی انسان سچی و حقیقی عزت حاصل کر سکتا ہے۔ کھیل کو قواعدو ضوابط کے مطابق کھیلنے سے ہی کھیل کا حسن ہوتا ہے۔انہوں نے مزید کہا ہر شخص کو اپنے کئے کی جزا و سزا مل کر رہے گی لیکن بہ حیثیت انسان ہمیں یہ سوچنا ہے کہ اگر ہم کسی کا بھلا نہیں کر سکتے تو کسی کے راستے میں کانٹے بچھانے کا حق ہمیں کس نے دیا ہے؟مگر حسد و رقابت کا جذبہ انسانی خمیر میں شامل ہے اور یہ ایک تلخ حقیقت ہے۔کسی بھی شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کو چاہئے کہ وہ اس شعبے میں آنے والے ہر شخص کو کھلے دل سے خوش آمدید کہیں،رہنمائی کریں،اس کو آگےبڑھنےمیں مدد دیں نہ کہ اس کی راہ میں کانٹے بچھائیں۔
‎مبشر انوار صاحب صحافیوں کی عالمی تنظیم ینگ جرنلسٹ سوسائٹی انٹرنیشنل میں سعودی عرب کےصدر ہیں اور اس کے علاوہ اب مڈل ایسٹ زون کا چئیرمین بھی آپ کو نامزد کیا گیاہے،یوں اپنی پروفیشنل خدمات کے علاوہ تنظیمی طور پر بھی اپنی خدمات ادا کر رہے ہیں۔بطور صدر سعودی عرب میں ینگ جرنلسٹ سوسائٹی انٹرنیشنل کی تنظیم سازی میں بھرپور کردار ادا کیا۔ریڈ پاکستان میں سعودی عرب کے صدر بھی ہیں جو کہ عالمی سطح پر پاکستان میں کتاب اور کتاب کے مطالعہ کو فروغ دینے کے لئے کوشاں ہے
‎محمد مبشر انوار اپنے صحافتی کیرئیر میں اردو پوائنٹ سے شروع کرتے ہوئے، سعودی عرب کے مقامی روزنامہ اردو نیوز میں متواتر لکھتے رہے، اس دوران وہ البیان پاکستان میں بھی شائع ہوتے رہے، اس وقت ان کے تجزیئے روزنامہ جہان پاکستان میں باقاعدگی کے ساتھ شائع ہورہی ہیں۔

‎معاشرے میں رہنے والوں کے اچھے اعمال سے معاشرہ خوبصورت بنتا ہے اور برے اعمال سے معاشرے کا حسن بدحال نظر آتا ہے،اس لئے ہمیں چاہئے کہ فقط اپنے حقوق کے لئے بے چین نہ رہیں بلکہ اپنے فرائض کی ادائیگی کی طرف زیادہ توجہ دیں۔ نبی اکرمؐ کی ذات اقدس نے دوسروں کو اصول سکھانے سے پہلے وہ اصول اپنی ذات پر لاگو کرکے دکھائے،اپنی ذات کو ماڈل بنایا جس کی پیروی ان کے رفقاء نے کی۔ آج ہم اور ہمارے رہنما جو اصول بناتے ہیں،ان میں سے خود اپنی ذات کو مستثنی قرار دیے لیتے ہیں تو معاشرہ کیسے ٹھیک ہو گا؟
انٹرویو:-لینا خان(سعودی عرب)