شہید بھٹو سے میری پہلی ملاقات! : تحریر: عبدالجبارناصر

شہید بھٹو سے میری پہلی ملاقات!
تحریر: عبدالجبارناصر

شہید ذوالفقار علی بھٹو سے میری پہلی ملاقات ایک ایسی خاتون نے کرائی، جس نے کبھی شہید بھٹو کو دیکھا نہ ہی سنا ،وہ لفظ ’’بھٹو‘‘کےسوا شہید کے پورے نام اور حسب و نسب سے بھی واقف نہیں تھیں اور تصور میں بھی نہیں تھا کہ کبھی ان کو سن پائیں گی ۔انہیں یہ بھی علم نہیں تھاکہ ذوالفقار علی بھٹو شہید ملک کے صدر ، وزیر اعظم یا مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر رہے ہیں ۔ صرف اتنا جانتی تھیں کہ بھٹو بادشاہ (وقت کا حکمران )رہا اور پھر اس کے خلاف ایک شخص نے بغاوت کی بھٹو کو گرفتار کیا،یہ انتہائی شریف النفس ، سادہ ، زمانے کے دکھوں ، اپنوں کی جدائی اور مسلسل بیماری کے ساتھ دیگر مسائل کی ستائی ہوئی مکمل گھریلو خاتون تھیں ۔ اس خاتون نے شہید بھٹو سے میری ملاقات یا تعارف پھوٹ پھوٹ کر روتے ہوئی کرایا۔ یہ خاتون میری پیاری تائی جان رحیمہ یا رحمی زوجہ عبداللہ ناصر تھیں ۔

یہ اس دن کی بات ہے ،جب پاکستان میں شہید ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دی گئی تھی ، یعنی 4 اپریل 1979ء ۔اس وقت ابلاغ کے لئے لوگوں کے پاس واحد ذریعہ ریڈیو ’’بی بی سی اردو ‘‘ تھا، ہمارا علاقہ لائن آف کنٹرول (ایل اوسی )پر واقع ہونے کی وجہ سے مقبوضہ کشمیر کے ’’ریڈیو کشمیر‘‘ کے پروگرام صاف سنائی دیتے تھے ۔ تائی جان کو یہ خبر کسی ریڈیو سننے والے بھتیجے نے بتائی تھی اور اس نے یقینا ً ریڈیو کشمیر کی خبریں ہی سنی ہونگی ، کیونکہ ’’بی بی سی ‘‘ شام کو خبر دیتا تھا اور تائی جان کو یہ خبر صبح 8 بجے کے قریب ملی تھی ۔ریڈیو کشمیر سے ہر گھنٹے میں انڈیا ریڈیو کی خبریں نشر ہوتی تھیں ۔

ہم صبح کی چائے کے بعد گھومتے پھرتے’’ بڑی آجی (بڑی ماں)‘‘یعنی تائی جان کے ہاں پہنچے ۔ہمارے ہاں لفظ ’’ماں‘‘ کے متبادل ’’آجی‘‘ کا لفظ بھی عام مستعمل ہے، پھر رشتوں کی ترتیب سے ’’بڑی آجی(بڑی ماں )‘‘، ’’چونی آجی (چھوٹی ماں)‘‘، ’’ژلی آجی(اس سے چھوٹی ماں )‘‘کے ناموں سے پکارا جاتاہے ۔ جب ہم تائی جان کے گھر میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ ’’بڑی آجی‘‘ اکیلی ہیں اور پھوٹ پھوٹ کر رو رہی ہیں جس پر ہم سمجھے کہ کوئی پریشانی یا بیماری ہوگی ، جس کی وجہ سے تائی رورہیں ۔اس وقت ہماری عمر 6 یا 7 سال ہوگی ۔ ہم نے پوچھا ’’بڑی آجی‘‘ کیو ں رورہی ہو؟ روتے روتے سینے سے لگایا ، پیار کیا اور کہا ’’پوچا(بیٹے )‘‘ آج بھٹو کو پھانسی دی گئی ہے ۔ پھر رونا شروع کردیا ۔ ہم سمجھے کہ ’’بھٹو‘‘ تائی جان کا کوئی قریبی عزیز ہوگااور آج موت کی خبر ملی ۔

در اصل میری پیاری ’’بڑی آجی(تائی جان)‘‘ کا تعلق مقبوضہ کشمیر وادی گریز ’’بڑی تلیل کے علاقے بڑوگروم ‘‘سے تھا اور ان کی شادی 1940ء کی دہائی کے ابتدائی سالوں میں میرے تایاجان عبداللہ ناصر سے ہوئی اور پھر 1947ء کے آخری دنوں میں تقسیم کی وجہ سے تائی جان اپنے اباو اجداد سے ہمیشہ کے لئے جدا ہوگئیں (اس زمانے میں وادی گریز ایک ہونے کی وجہ سے رشتے اسی طرح ہوتے تھے اور دونوں جانب سب ایک دوسرے کے عزیز تھے)۔ہمارے پورے علاقے میں تائی جان کے قریب ترین رشتہ داروں میں ایک چچازاد بہن گائوں قمری خاص میں تھیں (مرحوم احمد قانون ، مرحوم یوسف ، راو لپنڈی چودھری بازار کے تاجر منور کی والدہ ، حاجی بختاورناصر، غلام محمد ، دلاور ناصر ، غلام قادر بٹ وغیرہ کی نانی، غالباً نام خدیجہ تھا)۔مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب بھی تائی جان کو اپنوں کی یاد ستاتی تو سامنے کلشئی پہاڑ کی جانب رخ کرکے آنسو بہاتیں اور اپنے بھائی ’’جمعئی‘‘ کو یاد کرتیں اور کہتیں کہ اے کاش !میں اپنے جمعئی بابو(بابو ، ہمارے ہاں والد کے لئے مستعمل ہے ، مگر لوگ پیار سے اپنے پیاروں کو بھی پکارتے ہیں)سے صرف ایک بار ملتی ۔ غالباً یہ تائی جان کا اکلوتا بھائی تھا۔ 1982ء میں موت سے چنددن قبل بھی تائی جان سے علالت کے دوران بھی بار بار اپنے بھائی ’’جمعئی ‘‘ کانام سنا (آج 74 سال بعد بھی علم نہیں کہ جمعئی کی کوئی اولاد ہے یا نہیں اور کہاں ہے)۔

تائی جان صاحب اولاد تھیں 3 بیٹیاں(ایک بیٹی گشاٹ بالا تبلیغی غلام قادر مرحوم کی پہلی اہلیہ، دوسری بیٹی غلام قادر مرحوم کے چھوٹے بھائی محمد صابر لون کی اہلیہ اور استور واپڈا والے محمد صادق لون کی والدہ اور تیسری بیٹی بھائی عبدالرحیم ناصر کی اہلیہ )اور دو بیٹے(قاری عزیز الرحمان ناصر اور رحمت اللہ ناصر )۔ اولذکر بیٹی کا انتقال 1970ءکی دہائی کے آخر یا درمیان کے سالوں میں ہوا اور باقی چاروں الحمد للہ حیات ہیں۔ تایا جان عبداللہ ناصر کا انتقال بھی غالباً 1970ءکی دہائی کے وسط میں ہواہے ۔ اللہ تعالیٰ تائی جان سمیت تمام مرحومین کی کامل مغفرت فرمائے ۔ بھائی رحمت اللہ ناصر غالباً ہم سب چچازاد بھائیوں میں سب سے بڑے یا دوسرے نمبر کے ہیں ۔ ان کا ایک دلچسپ واقعہ بزرگوں سے سناہے کہ تقسیم کے وقت ان کی عمر 5 سے 6 سال تھی ۔ کہتے ہیں کہ جب انڈیا کے جہاز بمباری کے لئے بہت نیچے یعنی گائوں کے درختوں کے قریب پہنچے تو بھائی رحمت اللہ ناصر نے پتھرائو شروع کیا ، یہ معلوم نہیں پائلٹ نے بچہ سمجھ کر چھوڑ دیا یا نظر نہیں پڑی ۔

تائی جان پھوٹ پھوٹ رو رہی تھیں اور ہم نے پوچھا ’’بڑی آجی‘‘ یہ بھٹو کون ہے اورآپ کا کیا لگتا ہے ؟ بڑی آجی نے پہلے تو ان دیکھے اپنے اس مسیحا کو اخروی زندگی میں کامیابی اور نجات کے لئے دامن پھیلا کر دعائیں دیں اور پھر کہا پوچا(بیٹے )یہاں کے لوگ غذائی قلت اور بیگار سے بہت پریشان ، بلکہ انکی زندگی اجیرن بنی ہوئی تھی، بھٹو نے کنٹرول(سرکاری گندم)منظور کرائی (انتہائی معمولی قیمت پر یعنی آج بھی ان علاقوں میں یہی گندم غالباً 1300 روپے فی 100 کےجی عوام کو مل رہی ہے) اوربیگار ختم کرائی ، بیگار کے ظلم کا یہ عالم تھاکہ ایک سرکاری آفیسر یا اہلکار یا پولیس اور فوج کا جوان اپنا ایک پٹھو(بیگ )اٹھانے لئے کئی کئی افراد کو جبراً بیگار پر لے جاتا ۔ شہید بھٹو نے حکم دیا کہ ہر اہلکار اپنا پٹھو (بیگ یا سامان)خود اٹھائے گا ۔

ان علاقو ں میں گندم یا اجناس کی قلت کی اصل وجہ یہ ہے کہ یہاں زمینداری کا کل سیزن چار ماہ کاہے یعنی مئی کے آخری دنوں سے ستمبر کے آخری دنوں تک ۔ اس لئے نہ صرف اجناس کی قلت ہوتی ہے ، بلکہ اپنے پورے سال کے لئے انسانوں اور جانوروں کے کھانے پینے کا انتظام بھی اکتوبر کے وسط تک کرنا ہوتا تھا۔ تقسیم سے قبل آمد ور فت بانڈی پورہ اور سرینگر سے تھی اور لوگ آسانی کے ساتھ انتظام کرتے تھے ، مگر تقسیم کے بعد دو ہی راستے تھے ، ایک براستہ استور جگلوٹ یا گلگت تک کا تقریباً 250 کلومیٹر دور اور دوسرا راستہ وادی نیلم اٹھمقام تک تقریباً 110 کلومیٹر یا دھنی تقریباً 150 کلومیٹر دور کا راستہ تھا ۔ اس زمانے میں سڑکیں عام تھیں اور نہ ہی اشیاء آسانی سے ملتی تھیں۔ سفر پیدل ،گھوڑوں یاپھر خچروں پر ہوتا تھا ۔ وادی گریز (قمری ،منی مرگ، کلشئی ) کے لوگوں نے وادی نیلم کا انتخاب کیا اور 1990ء تک یہ سلسلہ جاری رہا اور ہم خود بھی 1983ء سے 1991ء تک اسی راستے سے سفر کرتے رہے ہیں ۔یعنی 1947ء کی تقسیم کے بعد لوگ اپنے پیاروں سے ہمیشہ کے لئے جدا تو ہوئے اور ساتھ ساتھ محنت مزدوری اور اشیاء خورونوش کے حوالے سے بھی ایک مشکل امتحان میں مبتلا ہوگئے ۔ اس ضمن میں 1948ء کے قحط کے حوالے سے تحریک آزادی گلگت بلتستان کے مجاہد مولانا عبدالمنان مد ظلہ نے اپنی کتاب ’’ڈوئیاں سے زوجیلا تک ، میرا سفر جہاد‘‘ میں مفصل لکھا ہے۔

شہید بھٹو کی جانب سے امدادی قیمت سمیت شہری نرخوں پر مختلف اشیاء یعنی گندم ، گھی ، چینی اور نمک کی منی مرگ میں راشن کارڈ پر فراہمی اور بیگار کے خاتمے کے بعد عوام کو پہلی بار پریشانی سے نجات ملی اور یہ معاملہ پورے گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ بھٹو کی شہادت کو 42 سال گزرنے کے بعد بھی ان پہاڑی لوگوں بالخصوص 50 سال سے زائد عمر کی نسل کے دل میں بھٹو بسا ہوا ہے ۔ شدید نظریاتی اخلافات کے باوجود لوگوں کے دلوں میں بھٹو آج بھی زندہ ہے۔ شہید بھٹو کی پھانسی کے دن نہ صرف میری تائی جان روئی ، بلکہ علاقے کی ہر آنکھ اشکبار تھی ، ان پہاڑوں کے رہنے والے بھٹو شہید کو مسیحا سمجھتے تھے ۔ بھٹو شہید پاکستان کے آج تک واحد حکمران ہیں ،جس نے ہمارے علاقے میں عوام میں جاکر ان کے کھلی کچہری میں مسائل سنے اور حل بھی کئے ۔ ہمارے موجودہ صدر مملکت ڈاکٹر عارف الرحمان علوی دو سال سے مسلسل اپنے اہلخانہ کے ساتھ وادی گریز کے تفریحی مقام دومیل جاتے ہیں اور ان کے قیام کے دنوں میں لوگوں کی زندگی اجیرن ہوجاتی ہے۔