ایک اور پنڈورا باکس کھل گیا! جنرل فیض اسپاٹ لائٹ میں | زرداری میدان میں داخل گوہر بٹ


ایک اور پنڈورا باکس کھل گیا! جنرل فیض اسپاٹ لائٹ میں | زرداری میدان میں داخل گوہر بٹ

ایک اور پنڈورا باکس کھل گیا! جنرل فیض اسپاٹ لائٹ میں | زرداری میدان میں داخل گوہر بٹ
Another Pandora’s Box Opens! General Faiz in Spotlight | Zardari Enters the Arena | Gohar Butt
==============================

نواز شریف چیف آف ڈیفنس فورسز کے نوٹیفکیشن میں رکاوٹ نہیں، رانا ثنا اللّٰہ

نواز شریف چیف آف ڈیفنس فورسز کے نوٹیفکیشن میں رکاوٹ نہیں، رانا ثنا اللّٰہ
اسلام آباد (ٹی وی رپورٹ)وزیراعظم کے مشیر برائے سیاسی امور رانا ثنااللہ کا کہنا ہےنواز شریف چیف آف ڈیفنس فورسز کے نوٹیفکیشن میں رکاوٹ نہیں‘یہ تاثر غلط ہے‘ نواز شریف نے کبھی سی ڈی ایف کے بارے میں اس قسم کے خیال کا اظہار نہیں کیا۔پارلیمنٹ ہاؤس میں جیونیوز سے گفتگو کرتے ہوئے رانا ثنااللہ کا کہنا تھا کہ نواز شریف کی گفتگو کو خواہ مخواہ اس معاملے سے جوڑا جا رہا ہے، نواز شریف کی گفتگو کسی اور حوالے سے ہوئی تھی‘ نواز شریف نے اس دن جو بات کی اس کا پس منظر کچھ اور تھا، جو بھی آئینی ترامیم ہوئی نواز شریف کی بحیثیت پارٹی ہیڈ منظوری سے ہوئی ہے۔ رانا ثنااللہ کا کہنا تھا کہ کسی بھی چیز کے زیرغور ہونے میں اور فیصلہ ہونے میں فرق ہوتا ہے، مختلف آپشن مختلف اوقات میں زیرغور ہوتے ہیں‘ جب تک کوئی فیصلہ نہ ہو ان پر آپ کوئی حتمی بات نہیں کرسکتے‘ سی ڈی ایف کا ایک نیا ادارہ بننے جا رہا ہے، وہ بہت اہم ادارہ ہوگا، ان ہی معاملات کوپوری طرح سے دیکھتے ہوئے نوٹیفکیشن عجلت میں نہیں ہونا چاہیے اور نہ عجلت میں ہوگا۔

=========================

سہیل آفریدی کا کہنا ہے کہ اگر ہمت ہے تو گورنر راج لگا کر دکھائیں ہم کسی سے ڈرتے نہیں ہے۔ تفصیلات کے مطابق خیبرپختونخواہ کے وزیر اعلٰی سہیل آفریدی کی جانب سے صوبے میں گورنر راج لگانے کی قیاس آرائیوں پر ردعمل دیا گیا ہے۔ پیر کے روز اپنے ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ اگر ہمت ہے تو گورنر راج لگا کر دکھائیں ہم کسی سے ڈرتے نہیں ہے، صوبے میں پہلے ہی بانی پی ٹی آئی کا راج ہے لہذا کسی اور راج کی ضرورت نہیں۔
دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف کی مشترکہ پارلیمانی پارٹی کا اہم اجلاس پارلیمنٹ ہاؤس میں منعقد ہوا جس کی صدارت پارٹی چیئرمین بیرسٹر گوہر خان نے کی۔ اجلاس میں مرکزی سیکرٹری جنرل سلمان اکرم راجہ، ایم ڈبلیو ایم کے سربراہ علامہ ناصرعباس، اسد قیصر چیف وہیپ ملک عامر ڈوگر سمیت قومی اسمبلی اور سینیٹ کے ارکان نے شرکت کی۔

اجلاس میں ملکی سیاسی صورت حال، خیبر پختونخواہ سے متعلق حکومتی بیانات اور آئندہ سیاسی حکمتِ عملی پر غور کیا گیا۔

اجلاس میں ایک وفاقی وزیر کی جانب سے خیبر پختونخواہ میں گورنر کی تبدیلی اور ممکنہ گورنر راج سے متعلق بیان کی سخت مذمت کی گئی۔ پی ٹی آئی رہنماؤں نے کہا کہ خیبر پختونخواہ کی حکومت عوام کے بھاری مینڈیٹ سے منتخب ہوئی ہے، اسے غیر آئینی طور پر عدم استحکام کا شکار بنانے کی کوششیں قابلِ تشویش ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت کا یہ رویہ نہ ملک کے مفاد میں ہے اور نہ صوبے کے، جبکہ ایسے اقدامات کے سنگین سیاسی نتائج سامنے آ سکتے ہیں۔
اپوزیشن ارکان نے کہا کہ وفاقی حکومت کی غلط پالیسیوں کے باعث خیبر پختونخواہ معاشی، سیکیورٹی اور سیاسی لحاظ سے کمزور ہو رہا ہے۔ وفاق صوبے کو این ایف سی ایوارڈ اور دیگر واجبات کی ادائیگی میں بھی تاخیر کر رہا ہے جبکہ سیکیورٹی معاملات میں تعاون نہ ہونے کے برابر ہے۔پارٹی اجلاس میں خیبر پختونخوا کے حالیہ امن جرگے کا بھی حوالہ دیا گیا جس میں تمام سیاسی جماعتوں نے دہشت گردی کے خاتمے اور امن و امان کے قیام کیلئے متفقہ قرارداد منظور کی۔
پی ٹی آئی نے شکوہ کیا کہ وفاق نے اس اہم پیش رفت پر صوبائی حکومت سے نہ کوئی مشاورت کی اور نہ جرگے کے فیصلوں پر بات چیت کی، جس سے وفاق اور صوبے کی ہم آہنگی بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔پارٹی رہنماؤں نے کہا کہ خطہ کسی نئے تنازع یا جنگ کا متحمل نہیں ہو سکتا، اس کیلئے ڈپلومیسی، تجارت اور کاروبار کا فروغ ناگزیر ہے تاکہ صوبہ ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکے۔
اجلاس میں چیئرمین عمران خان سمیت تمام سیاسی اسیران کی فوری رہائی کا مطالبہ بھی کیا گیا۔ ارکان نے کہا کہ عمران خان پر تمام مقدمات سیاسی نوعیت کے ہیں، لہٰذا انہیں فوری رہا کیا جائے اور ان کی فیملی و پارٹی قیادت کو ملاقات کی اجازت دی جائے جو ان کا آئینی حق ہے۔اس موقع پر تحریکِ تحفظِ آئین پاکستان کے تحت کوئٹہ جلسے پر بھی بات کی گئی جبکہ حالیہ ضمنی انتخابات کے نتائج کو یکسر مسترد کر دیا گیا۔
پارٹی نے انتخابی عمل کو جانبدار اور یک طرفہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن کی متعصبانہ روش ایک بار پھر عوام پر عیاں ہو گئی ہے۔ارکان نے عزم ظاہر کیا کہ ملک میں آئین و قانون کی حکمرانی اور حقیقی جمہوریت کے قیام کیلئے جدوجہد جاری رکھی جائے گی اور پارلیمان کو حقیقی معنوں میں بااختیار ادارہ بنانے کیلئے کوششیں تیز کی جائیں گی ۔